یہ صرف وہی جانتی تھی کہ کس طرح صبر کے عظیم گھونٹ پی کر اس نے تین دن گزارے تھے۔
اور آج تین دن گزر جانے کے بعد وہ اچھلتی ہوئی اس کی تلاش میں نکلی۔
یونیورسٹی کا ایک چکر لگا کر اسے ڈھونڈا۔ وہ لائبریری کی طرف جا رہا تھا۔
"ہیلو مسٹر۔۔۔" وہ اس کے پیچھے لپکی اور چلائی۔
کیا کوئی کام وہ تحمل سے بھی کر سکتی تھی؟ نہیں ہوتی ہے ایسی ہوا کے گھوڑے پر سوار عوام، جلدباز سی۔"او مسٹر۔۔۔" اسے اس کا نام معلوم نہیں تھا۔ وہ بالکل کان کے قریب جا کر بولی۔
وہ حیران ہوکر مُڑا۔
"کیا؟ اوہ آپ۔۔؟" وہ حیران تھا۔"مجھے لگا تین دن میں تم بھول جاؤ گی ، لیکن تم تو پھر آدھمکی۔۔ کیوں؟"
وہ پوچھ رہا تھا یا شاید وہ کہہ رہا تھا جو اس کے ذہن میں چل رہا تھا۔
"کیا؟ اس لیے آپ نے کہا کہ تین دن انتظار کرو تاکہ میں بھول جاؤں اور جان چھوڑ دوں۔۔۔ دیکھو بھئی مجھے بہت تجسس ہے جادوئی اور پراسرار باتوں کا۔۔ عجیب مذاق ہے!"۔
تپ ہی تو گئی تھی وہ۔
"نہیں یہ صرف آپ چیک کرنے کے لیے تھا کہ آپ چاہتی کیا ہیں؟"
وہ اب کی بار مسکرایا۔
بیلا نے اسے گھور کر دیکھا۔
"میں واقعی جاننا چاہتی ہوں۔۔" اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجائی۔
"ہاں ہاں۔۔ آؤ میرے ساتھ۔۔" وہ چلنے لگا تو بیلا اس کے پیچھے قدم اٹھانے لگی۔
ایک پرسکون جگہ پر آکر اس نے سوال پوچھا۔
"نام کیا تھا آپ کا؟"
"بیلا"۔
کہا تو آرام سے لیکن دل میں اسے منہ بنا کر 'بھُلکڑ' ضرور کہا۔
"ٹھیک۔۔۔ بیلا مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ تشریف لائیں گی"۔
وہ ایک بینچ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
"لو بھلا۔۔۔۔ اور میں تو ایک ایک منٹ گِن گِن جے انتظار کر رہی تھی آج کا۔۔۔"
وہ بڑبڑائی۔
"اچھا خیر۔۔ میرے پاس فالحال ایک چُٹکی ہے جادو کی بس۔ کیا تم اس سے اتفاق کر لو گی؟"
اس نے بیلا کو غور سے دیکھ کر پوچھا۔
اب اسے تھوڑی معلوم تھا کہ وہ ٹپک جائے گے ورنہ وہ کچھ زیادہ کرلیتا۔
ادھر بیلا خوشی سے بولی۔
"نہیں نہیں کوئی مسئلہ ہی نہیں"۔
ارے بس شروع کرو بھئی۔ ایک جھلک ہی بہت ہے۔"ٹھیک۔۔۔ یہ لو"۔
وہ اپنے بیگ کی زِپ کھول کر اس میں جھانک رہا تھا، پھر کچھ نکال کر بیلا کی طرف بڑھایا۔"اسے اپنے بیگ میں رکھ لو اور یہاں مت کھولنا۔ گھر جاکر کھولنا اور صرف تب جب آپ اکیلی ہوں"۔ اسے ہدایت کرتے ہو کھڑا ہوگیا۔
"یہ کیا ہے؟ اسے استعمال کیسے کرنا ہے؟ کرنا کیا ہے اس کا؟" بیلا نے دھڑا دھڑ سوال کیا لیکن وہ تو نکلنے کی کر رہا تھا۔
"آپ کو معلوم ہوجائے گا۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ لیکن اگر آپ کو پسند نہیں آتا تو برائے مہربانی میرے پاس واپس نہ آنا اور اسے کچرے میں پھینک دینا"۔"شکریہ۔۔"
وہ مسکرائی تو وہ سر ہلاتے ہوئے اپنا بیگ کندھے پر ڈال کر اپنی ہُڈ دوبارہ پہن کر مُڑ گیا۔
"ارے آپ نے نام تو بتایا نہیں اپنا۔۔"
وہ پیچھے سے چلائی۔ کیا وہ کوئی بات دھیمی آواز میں بھی کر سکتی تھی؟
نہیں اس کے والیوم کا بٹن خراب تھا۔
"اگلی دفعہ۔۔" وہ مڑا نہیں تھا۔
YOU ARE READING
وہ پُراسرار سا
Short StoryA short mysterious and adventures story. That is fiction but shows you the image of reality.