بونوں کا دیس

510 52 14
                                    

اور آج پھر وہ اسے کچھ دے رہا تھا۔ پچھلا سفر ضرور چھوٹا تھا لیکن اس نے اسے کچھ سکھایا ضرور تھا۔
آج ای ڈبلیو نے کہا
"یہ آخری چیز ہے جو میں تمہیں دے رہا ہوں۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں اس کے بعد اپنا جادو تم خود کرو"۔

بیلا نے منہ بنایا۔ "اوکے"۔

"امید کرتا ہوں یہ تمہیں نہ صرف اچھا لگے گا بلکہ تمہارا دماغ ہلا کر رکھ دے گا۔ بس یہ اتنی اچھی طرح کامیاب ہوجائے جتنی اچھی طرح میں نے اسے بنانا چاہا ہے"۔

"تھینکس اگین۔۔۔ میں فیڈبیک کا ٹوکرا کل اٹھا کر حاضر ہوجاؤں گی"۔ بیلا نے شرارت سے کہا۔

"مجھے انتظار رہے گا"۔ وہ مسکرا دیا۔

گھر کی طرف جاتے وہ ای ڈبلیو کو سوچ رہی تھی۔ ایک تو اس کا نام لینا اتنا مشکل تھا،
منہ ہی گول مول ہوجاتا تھا لفظ ادا کرتے کرتے۔۔۔
ای ڈبلیووو۔۔۔
بیلا ہنسی۔ عجیب بندہ ہے پراسرار سا اپنے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔

وہ مختلف تھا، کیونکہ وہ ایک مختلف سوچ رکھتا تھا۔ اور میرے خیال میں انسان کی سوچ ہی انسان کو مختلف بناتی ہے، ورنہ وہ اسی طرف لگا جائے گا جس طرف سب جا رہے ہونگے۔
----
بادلوں سے ڈھکا آسمان، ہری بھری ٹھنڈی ہوا سے لہلہاتی گھاس۔ اس دنیا کا موسم دلکش تھا۔
چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں ہر طرف بنی تھی۔ کہیں کہیں مٹی سے بنے کچے گھر بھی نظر آرہے تھے۔ پہلی نظر اس جگہ پر پڑی تو یوں معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی گاؤں ہے۔

"ہیلو بیلا"۔
اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔

"مجھے دیکھ کر حیران ہورہی ہو؟"

وہ لڑکی ہنستے ہوئے بولی۔ بیلا واقعی اسے دیکھ کر حیران تھی۔
وہ علینہ مرتضی تھی۔
اس کی یونیورسٹی فیلو۔
"آر یو کڈنگ می؟ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

"وہی جو تم کر رہی ہو"۔ علینہ مسکرائی۔
"ارے واہ۔۔۔"

"وہ دیکھو۔۔۔" علینہ نے ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ اس جھونپڑی کے آگے دو لڑکے کھڑے تھے جنہیں اس نے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا۔

دانش عُرف دانی اور سمیر عُرف سیم۔۔۔ اس کے کلاس فیلوز۔
وہ دونوں چل کر ان کے قریب گئیں۔

"او خیر تم لوگ اب یہ نا کہنا کہ وہی کرنے آئے ہو جو میں کرنے آئی ہوں۔۔۔"

"ظاہر سی بات ہے"۔ دانی نے فوراً آنکھ میچ کر کہا۔
"بہت مزہ آنے والا ہے بھئی"۔ سیم نے اردگرد کا جائزہ لے کر کہا۔

"چلو پھر جلدی سے آگے چلیں"۔ علینہ ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہتی تھے۔
وہ سبزے پر چلنے لگے۔

وہ پُراسرار سا Where stories live. Discover now