EPISODE 01

8.5K 269 40
                                    


وہ ازل سے دل میں مکیں
از
راجپوت اقصیٰ

قسط نمبر ١


اس نے بالوں کی اونچی پونی بناکر،طائرانہ نگاہ آئینے میں اپنے عکس پر ڈال کر سر دائیں سے بائیں ہلایا۔اسمارٹ فون میں لگے ہینڈزفری کان میں اڑسے اور موبائل لیڈیز ٹراؤزر کی جیب میں ٹھونسا'گلے میں اسکارف لپیٹتے ہوئے کمرے سے نکلی، دائیں جانب بنے اوپن کچن میں کھڑے بریک فاسٹ بناتے سمیر کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ٹیبل پر رکھی واٹر باتل اٹھالی۔
سمیر نے فرائے پین میں انڈے کا آمیزہ الٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں ہاتھ ہلایا۔
"جلدی آنا...!"۔
سمیر نے اپنی روز والی ہدایت دی،وہ سر ہلا کر آگے بڑھ گئی۔کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر کے پاس بنے پارک میں جاگنگ ٹریک پر جاگنگ کر رہی تھی۔
تین راؤند لگانے کے بعد اس نے کانوں میں سے ہینڈز فری نکالے، اور قریب میں بنی ایک بینچ پر جاکر بیٹھ کر، ہاتھ میں پکڑی واٹر بوٹل میں سے منہ لگا کر دو تین گھونٹ پیے پھر برابر میں بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر مسکرائی،وہ بھی رسماً مسکرادی اور دوبارہ اپنے فون میں مصروف ہوگئی۔
جب وہ جاگنگ کرکے لوٹی تو سمیر ناشتے سے فارغ ہوچکا تھا اور کالج جانے کے لیے تیار ہونے جا چکا تھا۔
ان دونوں کی روز کی روٹین یہی ہوتی تھی،جب تک وہ اٹھتی سمیر اپنی جاگنگ اور جم سے فارغ ہوکر ناشتہ بنانے کی تیاریوں میں الجھا رہتا اور جب وہ جاگنگ کرکے واپس لوٹتی تو وہ کالج کے لیے تیار ہو رہا ہوتا۔ان لوگوں کو رات میں ہی آپس میں بات چیت کرنے کا وقت ملتا تھا اور اس دوران بھی دونوں آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے اپنے آفس،اکیڈمی اور کالج کے کام نمٹاتے تھے۔
صبح کا ناشتہ سمیر کے ذمے اور ڈنر احدیٰ کی ذمہ داری تھا۔
دوپہر میں وہ دونوں اپنی جابز پر ہوتے تھے اس لیے دوپہر کے کھانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔کبھی کبھار سمیر سینڈوچز بناکر ٹفن دے دیتا تھا۔
اس نے جلدی جلدی ناشتہ کرتے ہوئے اپنی ساری سوشل سائٹس کا وزٹ کیا پھر کالج کے لیے تیار ہوکر سمیر کے پیچھے لپکی وہ اسے اس کے کالج ڈراپ کرتے ہوئے اپنے کالج جاتا تھا مگر شام میں وہ ٹیکسی کرکے آتی تھی کیونکہ سمیر کی پارٹ ٹائم جاب کی آف رات کو آٹھ بجے ہوتی تھی ۔
"تم نے میری فیس بک پروفائل دیکھی؟؟"۔
اس نے بائیک پر سمیر کے پیچھے بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
"ہاں...،ویسے کب کی فوٹو ہے وہ؟"۔
اس نے ہیلمیٹ پہنتے ہوئے مڑ کر اسے دیکھا۔
"ارےے...!تمہیں یاد نہیں...؟تم نے ہی تو کھینچی تھی عید پر۔"
اس نے حیرت سے سمیر کو دیکھا وہ آج کچھ غائب دماغ لگ رہا تھا۔
"اوہ...ہاں...،میں وہی تو کہوں...تم کب سے اتنی خوبصورت ہوگیئں،وہ تو میرے DSLR کیمرے کا کمال تھا۔"
اس نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے اسے چھیڑا،اس نے ہنس کر اسکے شانے پر مکا جڑا۔
" تم کیسے بھائی ہو؟ کبھی اچھے سے میری تعریف نہیں کر سکتے؟"۔
"اچھے سے؟میں کبھی برے سے بھی تمہاری تعریف نہ کروں...ابھی اتنے برے دن نہیں آئے میرے کہ میں تم جیسوں کی تعریفیں کرتا پھروں..."۔
اس نے "تم جیسوں" پر زور دے کر ہنستے ہوئے کہا۔
"ایکسکیوزمی...!مجھ جیسوں سے تمھارا کیا مطلب ہے...؟ہاں؟تم آجکل میری کچھ ذیادہ انسلٹ نہیں کر رہے ہو؟"
بائیک چلنے کی وجہ سے وہ زور زور سے بول رہی تھی۔
"انسلٹ نہیں کر رہا مذاق کر رہاں ہوں۔"
اسے اپسیٹ ہوتا دیکھ وہ فوراً ٹریک پر آیا۔ وہ مسکرا کر اطراف میں دوڑتے نظاروں کو دیکھنے لگی۔
اسے پتہ تھا وہ خود سے دو سال چھوٹی بہن کو اپسیٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا،اور اسی بات کا وہ خوب فائدہ بھی اٹھاتی تھی۔
وہ تین بھائی بہن تھے۔ انیس،سمیر اور احدیٰ۔
وہ انیس سے پانچ اور سمیر سے صرف دو سال چھوٹی تھی۔جب وہ میٹرک میں تھی تو ،دہلی میں اپنے دوست کے بیٹے کی شادی میں جاتے ہوئے پلین کریش میں اس کے والدین کا انتقال ہوگیا۔وہ تینوں ہی ایگزامز کی وجہ سے گھر پر رہ گئے تھے انیس اس دوران ایم ٹیک کیمیکل انجینٔرنگ کے فرسٹ اییٔر میں تھا۔
ان کے والد نہ تو کوئی بزنس مین تھے اور نہ ہی جدی پشتی رئیس اس لیے ان دونوں کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آگئی کیوں کہ جو گنے چنے رشتہ دار تھے انھوں نے بھی ان لوگوں سے منہ موڑ لیا تھا۔ ان کے والد نے بس یہ اچھا کام کیا تھا‌ کہ تین کمروں پر مشتمل چھوٹا سا فلیٹ اپنی آخری نشانی کے طور پر ان کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ تینوں بے گھر ہونے سے بچ گئے تھے۔
وہ چھوٹی ہونے کے باعث سب ہی کی لاڈلی تھی اور چھوتی عمر میں، یتیم ہونے نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

وہ ازل سے دل میں مکیں(Complete)Where stories live. Discover now