EPISODE 09

2.9K 178 58
                                    

قسط نمبر ٩

درد کی تیز لہر اس کی کنپٹی سے ہوتی ہوئی، ریڑھ کی ہڈی میں پھیل گئی....
ناقابل برداشت درد...
خون کسی پھوارے کی طرح اس کے پیشانی اور سر کے پچھلے حصے سے بہہ رہا تھا۔ کانوں میں ایک آہ گونجی...
کسی کے دل سے نکلی ہوئی بدعا...

"اللہ کرے تم مرجاؤ....!"۔

اس کی آواز کانوں میں گونجتے ہی اسے اس کے خیال نے پریشان کردیا۔ اس نے سیدھے ہاتھ سے سر کے پچھلے حصے کو دباکر موبائل ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر ہاتھ مارا...اور بند ہوتی آنکھوں کو پھاڑ،پھاڑ کر کار کا جائزہ لیا۔ تب ہی اس کی جیب میں رکھا موبائل بج اٹھا۔ اس نے اپنی تکلیف کو پس پشت ڈال کر موبائل جیب سے نکالا اور جلدی سے صغیر کی بات سنے بغیر اسے حکم دیا۔

"صغیر....وہ....اح...احدیٰ...کو پہنچا....دو....گھر...اس کے...!"۔

ضبط کرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہا۔ صغیر نے تعجب سے فون کو دیکھا۔ اسے اس کی آواز بھی عجیب سی لگی تھی۔

"لیکن....سر..!"۔

تشویش سے کہا۔

"صغیر......آہ...!"۔

سختی سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن درد نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

"پہنچادو اسے....جتنا کہا ہے اتنا کرو...."۔

"اوکے..لیکن مجھے آپ کی طبیع...."۔

اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کے ہاتھوں سے موبائل چھوٹ کر گر گیا....اور سر اسٹیئرنگ پر لڑھک گیا۔

ہم صاحب انا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجیۓ،
مغرور بے وفا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجیۓ،
ہم کون ہیں؟کہاں ہیں؟ اسے بھول جائیے،
جیسے بھی ہیں جہاں ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجیۓ،
بہتر ہے ہم سے دور رہیں صاحب کمال
ہم صاحب خطا ہیں، ہمیں تنگ نہ کیجیے،

***

سکتا ٹوٹا تو سامنے کھڑے انسان کو دیکھ کر اس کے دل میں سکون کی لہر دوڑی۔ اور لب پھڑپھڑائے۔

"آدی....!"۔

وہ جو دو دنوں سے مسلسل ذہنی دباؤ کی شکار تھی سامنے اپنی زندگی کو دیکھ کر اس کی بانہوں میں ہی جھول گئی۔ ذمار نے اسے سنبھال کر اپنی مضبوط بانہوں میں اٹھایا۔ اور کمرے میں لاکر بیڈ پر لٹایا۔ سمیر اور رومان اس کے پیچھے کمرے میں آئے۔ سمیر کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔ وہ تینوں کئی بار اپنے رب کا شکر ادا کرچکے تھے۔ سمیر نے چند پانی کی بوندیں اس کے چہرے پر ماریں۔وہ کسمساکر اٹھی اور سمیر سے لپٹ کر بری طرح رودی۔ رومان نے بھی نم آنکھوں سے اس زندگی سے بھرپور لڑکی کو دیکھا۔ ذمار تو اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس بجھا رہا تھا۔ ان دو دنوں میں اس کا جو حال ہوا تھا، وہ اور اس کا اللہ ہی جانتا تھا۔ جب وہ رو، رو کر تھک گئی تو چپ ہوکر الگ ہوئی اور ذمار کو دیکھا۔ جو مسلسل اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ ان آنکھوں میں نہ شک تھا ، نہ ملامت اور نہ ہی کوئی اور تاثر۔
کچھ تھا تو وہ تھی محبت....
بے شمار محبت....
بے حساب محبت...

وہ ازل سے دل میں مکیں(Complete)Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz