آخری قسط
وہ بری طرح چونکی اور اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھا مگر جس شخص کا اسے گمان ہوا وہ اس کے ہوش و حواس چھیننے کے لیے کافی تھا۔
"اذ...ذ...اذہان..!؟؟"۔
***
جب تک ٹرک ڈرائیور اپنا ٹرک روک کر، اس کی کار کے پاس آیا وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔ وہ اسے فوراً ہی پاس بنے سرکاری اسپتال میں لے آیا۔ پولیس کیس نہ بننے کے ڈر سے اس نے اسے اپنا رشتہ دار بتایا تھا۔
وہ دوسرے دن اس جگہ بھی گیا جہاں اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ مگر اسے اس کی کار اس جگہ نہ ملی اور وہ دوبارہ پولیس کی تفتیش سے بچنے کے لیے خاموش بیٹھ گیا۔
اذہان کے پورے جسم پر چوٹیں آئی تھیں، مگر سر کے پچھلے حصے پر بہت گہری چوٹ آئی تھی جس کے باعث اس کے دو آپریشنز ہوئے تھے۔ وہ لگا تار سات دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ یہ اس کی قسمت تھی یا اللہ کی رحمت کے نہ اس مراٹھی ڈرائیور 'رمیش گپتا' نے اسے پہچانا تھا، اور نہ ہی اسپتال کے کسی شخص نے۔ رمیش ایک چونتیس سالہ مہاراشٹری تھا اور بہت اچھا انسان تھا،اس ایکسیڈنٹ میں اس کی کوئی غلطی نہیں تھی ساری غلطی ہی اذہان کی تھی لیکن پھر بھی انسانیت کے ناطے وہ اسے اسپتال لے آیا تھا اور اب دن رات اس کی تیمارداری بھی کر رہا تھا۔
ان سات دنوں میں بیہوشی کی حالت میں اس کے اوپر جو گزری یہ وہی جانتا تھا۔
کبھی وہ دیکھتا کہ بہت بھیانک آسمان تک جاتی آگ نے اسے چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے...وہ چیخ رہا ہے، چلارہا ہے، دہاڑے مار،مار کر رو رہا ہے مگر کوئی بچانے والا نہیں ہے۔
کبھی وہ اپنے آپ کو سانپ کی گرفت میں محسوس کرتا،جو اس کے منہ میں گھس کر ،ناک سے نکلتا ،تو کانوں میں سے گھس کر منہ سے نکلتا۔ وہ اس سانپ کی گرفت میں سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا مگر بے سود، آخر میں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا، کبھی اسے بچھو ڈنک مار رہے ہوتے۔ اور وہ اپنے آپ کو ان سے بچا بھی نہ پاتا۔
آخر ساتویں دن اچانک آسمان سے ایک تیز روشنی آئی اور اس کے چاروں طرف پھیل گئی۔ اس روشنی کو دیکھ کر اسے سکون محسوس ہوا اور پھر اسے ہوش آ گیا۔ اس نے گردن گھما کر اپنے برابر میں اسٹول پر بیٹھے رمیش کو اجنبی نظروں سے دیکھا۔"اچھا ہوا تیرے کو ہوش آگیا...ورنہ آج یہ ڈاکٹر لوگ تیرے کو کومہ والا پیشنٹ بنانے والے تھے...!"۔
اس نے خوش ہوکر کہا۔اس نے بے تاثر آنکھوں سے اس کی بات سنی اور اپنے اردگرد دیکھا۔ وہاں ایکسیڈنٹ والے پیشنٹس بھرے پڑے تھے۔ کسی کا ہاتھ غائب، کسی کا پیر غائب کسی کے دونوں ہی ہاتھ نہیں تھے۔ اس نے اپنے ہاتھوں پیروں کو ہلانے کی کوشش کی وہ بالکل سہی سلامت تھے۔ اس نے آنکھیں موندلیں۔
"مطلب اللہ نے مجھے موقع دیا ہے...اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا؟تو کیا وہ اتنا رحیم ہے کہ مجھ جیسے دولت کے پجاری کو بھی موقع دے دیا؟ہاں بے شک وہ تو رحیم و کریم ہے..!تو کیا اب اگر میں معافی مانگوں گا تو وہ مجھے معاف کردے گا؟کوئی کفارہ، کوئی قربانی دیے بنا ہی وہ مجھے معاف کردے گا؟
YOU ARE READING
وہ ازل سے دل میں مکیں(Complete)
General FictionRanked #1 In ShortStory Ranked #1 in lovestory Ranked #1 in Urdu Ranked #1 in Random Ranked #1 in Love اسلام علیکم بیوٹیفل ریڈرز! "مجھے عشق ہے تو اسی سے ہے وہ ازل سے دل میں مکین ہے...!" انسانی دل سب سے زیادہ کس چیز کے لیے تڑپتا ہے؟محبت!صرف محبت..!فق...