وہ ازل سے دل میں مکیں
از
راجپوت اقصیٰقسط نمبر ٢
وہ لاؤنج میں آلتی پالتی مارے بیٹھیتھی۔ ٹی وی پر "Phines And Ferb" چل رہا تھا مگر وہ اپنے فون میں فیس بک کھولے ساری اننون(unknown)رکویسٹ ڈیلیٹ کر رہی تھی تب ہی ڈوربیل بجی، غلطی سے اس کی انگلی ڈیلیٹ کی جگہ ایکسیپٹ پہ ٹچ ہوئ۔ اس نے فوراً ہی اسے انفرینڈ کرنا چاہا مگر مسلسل بجتی ڈوربیل کی وجہ سے وہ فون میٹرس کے سائید میں رکھے صوفے پر رکھتی اٹھ کر دروازہ کھولنے چلی گئی۔
دروازہ کھولا تو سامنے کھڑا سمیر اسے خشمگیں نظروں سے گھور رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گروسری کے شاپرز سے لدے ہوئے تھے۔ پیچھے کھڑے اس کے دوست علی کے ہاتھ میں بھی کچھ شاپرز تھے یقیناً بیل علی ہی بجا رہا تھا اور سمیر علی کی وجہ سے ہی شاید کچھ کہنے سے گریز کر رہا تھا۔ وہ فوراً ایک طرف ہوگئی۔ وہ دونوں اندر آئے اور سارے شاپرز سنبھال کر بالکل بیچ میں رکھ دیے۔ سمیر سیدھا ہوا دونوں ہاتھوں کو ہوا میں اٹھاکر دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر چٹخایا اور اسی طرح پہلے دائیں طرف تھوڑا جھکا پھر بائیں طرف، سیدھا ہوکر دروازہ بند کرکے آتی احدیٰ کو دیکھا۔
"ادو...ایک گلاس پانی تو پلادو"۔
وہ سر ہلاکر شانے پر جھولتا اسکارف گلے میں اٹکا کر اوپن کچن میں آئی فریج کھول کر، اورینج جوس نکال کر' کانچ کے گلاسوں میں انڈیلا اور گلاس ٹرے میں رکھ کر ٹرے سمیر کو لاکر دی۔ سمیر نے ایک گلاس اٹھاکر علی کو دیا، اور خود دوسرا گلاس اٹھا کر گھونٹ بھرنے لگا۔ وہ ان کی باتیں سن کر اپنی ہنسی ضبط کرتی اپنا سیل اٹھا کر کمرے میں جانے لگی۔
"اور فناؤ (سناؤ) احدیٰ تمھاری پرھائی کیفی (کیسی) چل رہی ہے؟؟"۔
علی اچانک اس سے مخاطب ہوا۔ اس نے بمشکل قہقہہ ضبط کرکے مسکراکر اثبات میں سر ہلایا۔ مبادا منہ کھلنے پر جواب کی جگہ ہنسی نہ نکل جائے۔ علی کے درمیانی دو دانتوں کے بیچ خلاء تھا اور اس خلاء سے ہوا خارج ہونے کے باعث وہ "س" بولتا تو "فین" نکلتا۔
"چلو اچھی بات ہے...!"۔
سمیر اسکے ہونٹوں کے کونوں سے پھوٹٹی ہنسی دیکھ کر چہرہ موڑ گیا۔ کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اسکے منہ کا جوس کہیں علی کا چہرہ نہ بھگودے۔ اس نے جلدی جلدی جوس پی کر گلاس ٹیبل پر رکھا اور احدیٰ کو گلاس لے جانے کا اشارہ کرکے علی کی طرف متوجہ ہوا۔
"وہ زبردستی اپنی ہنفی (ہنسی) ضبط کر رہی تھی تم نے افے بتایا نہیں مجھے برا نہیں لگتا؟"۔
وہ برا نہیں مانتا تھا بلکہ "س" کو "ف" بولنے کو وہ خداداد ٹیلینٹ کہتا تھا ۔
سمیر نے پیر سیدھے کرکے اسے دیکھا۔
"یار...تم میرے دوست ہو اور مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ وہ تمہارے سامنے تمھارا اس طرح سے مزاق بنائے......یہ حق صرف مجھے حاصل ہے!"۔
اس کی بات پر علی مسکرادیا۔
"انیف (انیس) بھائی کب آرہیں ہیں؟"۔
"بف(بس) پرفوں(پرسوں) کی فلائٹ ہے ان کی!"۔
اس نے اس کی نقل اتاری۔ وہ ہنس دیا۔
سمیر اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے سیدھا ہوکر بیٹھا۔ علی نے اسے گھونسا دکھایا۔ اس نے فوراً ڈرنے کی اداکاری کی۔
"تمہارے یہاں بچہ تو کوئی نہیں پھر اتنی کم آواز میں کارٹون کون دیکھ رہا تھا؟"۔
اس نے ریموٹ سے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا۔
"یہ میری جو اکلوتی بہن ہے یہ بچوں سے زیادہ بچی ہے!"۔
علی ہنستے ہنستے جانے کے لیے کھڑا ہوا۔
"کافی ٹائم ہوگیا...چلو اب اجازت دو...!"۔
"ہممم..."۔
وہ کہتا ہوا اٹھ کر اسے دروازے تک چھورتا ہاتھ ملاکر گلے لگا، اور خدا حافظ کہتا دروازہ بند کرکے سیدھا احدیٰ کے کمرے میں گیا وہ جو کوئی میگزین لیے بیٹھی تھی اسے دیکھ کر ہنسنے لگی۔
"سیم تمھارے دوست بھی ایک سے بڑھ کر ایک نمونے ہیں...کوئی حقلہ، کوئی گٹا اور کسی نے تو حرف تحجی کی بھی ایسی کی تیسی کر رکھی ہے..."۔
سمیر نے بیڈ پر سے کشن اٹھا کر اس کے منہ پر مارا۔ احدیٰ نے اسے گھور کر وہی کشن اٹھا کر دو تین بار اس کے سر پر مار کر دوبارہ ہنسنا شروع کردیا۔
"میرے دوستوں میں جو بھی عیب ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے...اور ویسے بھی دوستی دل سے ہوتی ہے نہ کہ لکس اور خوبیوں سے......اور یہ جو تم ان کا مزاق بناتے ہوئے اس طرح ہنس رہی ہو، یہ تم ان پر نہیں بلکہ اللہ پر ہنس رہی ہو کیوں کہ انھیں اللہ نے بنایا ہے کچھ عیبوں ساتھ لیکن بہ شمار خوبیوں سمیت..."۔
احدیٰ اس کی بات پر شرمندہ ہوکر خاموش ہوگئی۔وہ ہمیشہ اتنے ہی آرام سے اسے گہری،گہری باتیں سمجھا دیا کرتا تھا۔
"میں تمہیں شرمندہ نہیں کر رہا ہوں بلکہ سمجھا رہا ہوں کہ آئیندہ اپنے آپ کو پرفیکٹ سمجھ کر کسی کے جسمانی ایون (even)کسی بھی عیب کا اس طرح مذاق مت بنانا کہ اللہ کو تمہارا مزاق برا لگے اور وہ تمہیں بھی اسی عیب سے دوچار کردے!"۔
اس کی بات پر احدیٰ کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا۔ وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
"باہر آکر سامان چیک کرلو...کچھ لانا بھول گیا ہوووں تو بتا دینا، بھائی کے آنے سے پہلے لادوں گا...اوکے؟"
"ہوں...اوکے!"۔
جب وہ سامان چیک کرنے کے بعد کمرے میں آئی تو اسے دھیان آیا کہ اس نے غلطی سے کسی کی رکوسٹ ایکسیپٹ کرلی تھی اس نے اپنا فون اٹھاکر دیکھا تو ذمار کی طرف سے میسج میں سلام دیکھ کر، اسے عجیب سا لگا کچھ سوچ کر اس نے اسے جواب دیا اور لاؤنج میں آگئی وہاں سمیر، انیس سے ویڈیو کال پر بات کر رہا تھا اسے آتے دیکھ جلدی آنے کا اشارہ کیا وہ جلدی سے جاکے سمیر کہ بغل میں بیٹھی اور سلام کیا۔
"بھائی...جلدی آئیں اب جبکہ آپ کا آنے کے دن قریب آگئے ہیں تو بالکل صبر نہیں ہو رہا"۔
انیس مسکرایا۔
"ہاں بچہ بس تھوڑا صبر اور..."۔
"بھائی بھابھی کا بندوبست آپ کریں گہ یا میں آپ کی کچھ ہیلپ کروں؟"
سمیر نے آنکھ دبائی۔ احدیٰ نے اسے ٹہوکا مارا۔
"تمیز سے...!"۔
"آپ کی بھابھی کا بندوبست تو میں ایک سال پہلے ہی کر چکا ہوں بس وہاں آنے کی دیر ہے...!"
انیس نے ہاتھ باندھتے ہوئے پیچھے ٹیک لگا کر انکے حیرت زدہ چہرے دیکھے۔
"ہیں...!"
"کیا...؟"
دونوں نے پہلے انیس کو پھر ایک دوسرے کو دیکھا احدیٰ کی حیرت پہلے ختم ہوئی۔
"آپ......آپ چیٹرکاک...مجھ سے بھابھی ڈھونڈنے کا حق چھین لیا......ہونہہ"۔
منہ بناکر پیچھے ہٹی سمیر نے ہنس کر اسے خود سے لگایا۔
"کوئی نہیں بہنا یہ حق تم میری شادی میں بخوبی پورے استحقاق کے ساتھ نبھانا۔"
"یہ...اسے کہتے ہیں بھائی...اور آپ...آپ تو بہت ہی خراب نکلے...پھر سے ہونہہ..."۔
اس نے سمیر کی طرف اشارہ کرکے انیس کو شرم دلائی۔ سمیر نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
"اوہ...ڈراما کمپنی اپنا یہ سڑا ہوا ڈرامہ ختم کرو...پوچھو گے نہیں کون ہے وہ حسن پری؟"
انیس نے ہنستے ہوئے انہیں تجسس دلانے کی کوشش کی۔
"حسن پری؟ بندری کہو بندری... ہے نہ احدیٰ؟"
سمیر نے منہ بنا کر کہا۔
"ہاں......سیم مجھے تو بھائی کی پسند کبھی کپڑو کے معاملے میں اچھی نہیں لگی یاد ہے انکے کپڑے تک تم پسند کرکے لاتے تھے اور کہاں انہوں نے لڑکی پسند کرلی،وہ بھی ہم سے مشورہ کرے بغیر...پھر سے ہونہہہ...۔"
"ایکسکیوزمی...!یہ اب تم دونوں کچھ زیادہ نہیں بول رہے ہو؟"
اسکے گھور کر دیکھنے پر وہ دونوں لائن پر آئے۔
اوکے...سوری! غلطی سے سچ منہ سے نکل گیا۔"
ان دونوں نے ایک ساتھ کان پکڑ کر ایسے سوری کہا کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔
"تم لوگ نہیں سدھروگے..."۔ پھر سیدھے ہوکر بولا۔
"پوچھوگے نہیں کہ کون ہے وہ لڑکی؟"۔
"نہیں ہم بالکل بھی نہیں پوچھیں گے کہ وہ لڑکی لبنیٰ ہے یا کوئی اور...!"
پھر سے دونوں ایک جٹ ہوکر بولے اور انیس کا ہونقوں جیسا منہ دیکھ کر ہنسنے لگے۔
"کیسی لگی ہماری حیران ہونے کی ایکٹنگ؟"۔
بھنوے اچکائیں۔ وہ قدرے سنبھل کر بولا۔
"مطلب لبنیٰ نے تمہیں بتا دیا...... یار یہ عورتیں پیٹ کی کتنی ہلکی ہوتی ہیں...سارے سرپرائز کا ستیاناس کر دیا۔"
وہ بربراتے ہوئے فون اٹھاتا شائد لبنیٰ کو ہی کال کرنے لگا تھا۔ احدیٰ نے اسکی بات کا برا مانا جبکہ سمیر نے تائیدی انداز میں زوروشور سے گردن ہلائی۔
"بالکل میں آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں..."۔
"اوہ...ہیلو...حد میں!"۔
وہ انیس کو تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی مگر سمیر کو آنکھوں کی گھوری سے تنبیہہ کیا وہ ڈرنے کی اداکاری کرتا انیس سے الوداعی کلمات کہنے لگا اس نے بھی مسکراکر اسے کئی حدایات دیتے ہوئے خدا حافظ کہہ دیا۔سمیر کال ڈسکنکٹ کرنے کے بعد اسکی طرف متوجہ ہوا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے...اب بھائی لبنیٰ کو ڈانٹیں گے؟"۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ اتنی چھوٹی سی بات پہ اسے دانٹیں گے......الحمدواللہ میرے بھائیوں کو عورتوں کی عزت کرنا آتی ہے..."۔
"ویسے...شاید بھائیوں میں، میں بھی آتا ہوں...!"۔
ٹی شرٹ کے فرضی کالر جھاڑے۔
"اوہ...ہاں...سوری، آئے مین ٹو سے میرے انیس بھائی کو...!"۔
سمیر مسکرادیا۔ وہ کچھ یاد آنے پر بولی۔
"اچھا ہاں سیم مجھ سے غلطی سے ذمار یونس کی رکوسٹ ایکسپٹ ہوگئی ہے..."۔
اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا۔
"اوہ...ویسے یہ ذمار بندہ اچھا ہے... کافی مہذب ٹائپ کا، میری کافی مرتبہ بات ہوچکی ہے اس سے...لیکن تم رکوسٹ ایکسپٹ کرنے تک تو ٹھیک ہے فالتو باتیں مت کرنا اس سے...!"۔
اس نے ذمار کی تعریف کرنے کہ بعد بھائی کا فرض ادا کرتے ہوئے اسے ڈپٹا اس نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلا دیا۔
YOU ARE READING
وہ ازل سے دل میں مکیں(Complete)
General FictionRanked #1 In ShortStory Ranked #1 in lovestory Ranked #1 in Urdu Ranked #1 in Random Ranked #1 in Love اسلام علیکم بیوٹیفل ریڈرز! "مجھے عشق ہے تو اسی سے ہے وہ ازل سے دل میں مکین ہے...!" انسانی دل سب سے زیادہ کس چیز کے لیے تڑپتا ہے؟محبت!صرف محبت..!فق...