سن میرے ہمسفر Episode 3

2.1K 145 2
                                    

#SunMereyHumsafar
#ZohaAsif
#3rdEpisode

بی جان( خورشید بی بی)  جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں تھیں۔ انکے تین بچے تھے۔ سکندر علی خان، حمدان علی خان اور فائقہ علی خان۔ سکندر اور حمدان میں شروع سے ہی بڑا پیار تھا۔ اور شادی کے بعد بھی اپنی بیوی بچوں سمیت  اکٹھے رہتے تھے۔ سکندر صاحب کے تین بیٹے تھے شہریار سکندر خان اور دو جڑواں بیٹے ارحان سکندر خان اور ارمان سکندر خان۔ جبکہ حمدان  صاحب کی ایک ہی بیٹی تھی ماہا حمدان علی خان۔ وہ اپنے گھر میں اکلوتی ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی تھی ۔ اس میں تو جیسے سب گھر والوں کی جان بستی تھی۔ فائقہ پھپھو کا ایک بیٹا تھا احمد شاہ اور ایک بیٹی یسریٰ شاہ۔ ماہا کو سب پیار سے ماہی بلایا کرتے تھے اور شہریارکو شیری  کہا جاتا تھا۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔
فائقہ پھپھو کے آنے کا مقصدشیری خوب اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ پر ماہی نے غور نہیں کیا تھا۔
”امی جان آج میں یہاں ایک خاص مقصد سے آئی ہوں“ فائقہ کی آواز خوشی سے تیز ہوتی جا رہی تھی
”ہاں بولو بیٹا“ بی جان بھی اب تک سب سمجھ چکی تھیں۔
”حمدان بھائی آج میں آپ سے آپکی سب سے قیمتی چیز مانگنے آئی ہوں۔جی دراصل میں  اپنے بیٹےاحمد شاہ کے لیے اپنی اکلوتی بھتیجی ماہی کا رشتہ لینے آئی ہوں۔“
سب لوگ شاکڈ تھے فائقہ بھلا سب کچھ جانتے ہوئے ایسا کیسے کہہ سکتی تھی۔ ماہی تو گبھرا کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ کیسے بھلا اسکی پھپھو اپنے نشئی بیٹے کے لیے اسکا رشتہ لے کر آ گئیں تھیں۔
”فائقہ یہ کیا کہہ رہی ہو ؟ دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا؟“
بی جان کی غصے سے بھری ہوئی آواز آئی تھی۔ جبکہ سکندر صاحب اور حمدان صاحب کے چہرے کے تاثرات بھی  کچھ ایسے ہی تھے۔۔
”یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ فائقہ باجی؟ آپ تو جانتی ہیں ناں کہ ماہی کی منگنی بچپن سے ہی شیری کے ساتھ طے تھی اور یہ بات ہم نے بچوں کی تعلیم مکمل ہو جانے تک مخفی رکھی تھی۔ اور یہ فیصلہ آپکے سامنے ہی تو ہوا تھا۔پھر آپ ایسا کیسے کہہ سکتی ہیں؟؟“حمدان کی غصے سے بھری آواز آئی تھی ۔
”ہاں تو اس بات کو اتنا عرصہ گزر گیا تم لوگوں نے کوئی رسم بھی نہیں کی تو مجھے لگا بات ختم ہو گئی ہو گی“
فائقہ بڑے آرام سے کہہ گئی تھی۔ وہ کسی بھی حال میں آج اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتی تھی۔
”معاف کیجیے باجی ایسا ممکن نہیں۔ آپ اپنے دل سے یہ خیال نکال دیجیے“
سکندر صاحب بولے تھے۔
”ٹھیک ہے بھائی جان “آواز انکی مدھم تھی مگر غصہ صاف ظاہر ہو رہا تھا۔
شیری اس تمام گفتگو میں خاموش رہا تھا مگر دل اسکا بہت بے چین تھا جسے اپنا ہمسفر بنانے کی خواہش اسکے دل نے ظاہر کی تھی وہ تو اسی کی تھی۔
وہ بہت خوش تھا اپنے بڑوں کے اس فیصلے سے پر وہ بھی آخر شہریار سکندر خان تھا سب پر یہ ظاہر نہیں ہونے دے گا۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔

سن میرے ہمسفر (COMPLETED)Where stories live. Discover now