#Sun_Merey_Humsafar_Novel
#Zoha_Asif_Novels
#19thEpisodeکھڑکیاں ٹوٹنے کی زور دار آواز کے ساتھ ہی ہر جانب سے کمانڈوز سکول کے ہال کے اندر داخل ہوئے ساتھ ہی ہر طرف سے دھڑ دھڑ کی آوازیں آنے لگیں۔ سکول کے تمام بچے خوف اور دہشت سے سہمے کھڑے تھے وہ یہ خوفناک منظر اپنے دھندلائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔تب ہی سب بچوں کو کرسیوں کے نیچے چھپ جانے کا کہا گیا بچوں نے فورا تائید کی تھی تقریبا ًبیس منٹ ایسے ہی گولیاں چلتے رہنے کی آوازیں آنے لگیں۔ بیس منٹ بعد اسکول کے حال میں بالکل خاموشی چھا گئی تھی ہر طرف بالکل سناٹا تھا ۔کسی کی بھی آواز نہیں آ رہی تھی بس ایک نعرہ گونجا تھا اللہ اکبر پاکستان زندہ باد ۔اب ہر طرف دہشتگردوں کی لاشیں دکھائی دے رہی تھیں. شہریار سکندر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی فتح پر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا تھا۔ا چانک اسے اپنے پاس قدموں کی آہٹ سنائی دی تھی اس نے فورا سر اٹھا کر دیکھا تو ان دہشت گردوں کے گروپ کا باس لڑکھڑاتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش میں تھا شہریار فوراً اٹھا اور اپنی گن سے اس کے سر پہ ٹارگٹ کرکے فائر کردیا ۔یوں وہ تمام دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے ۔اب سبھی ساتھی ایک دوسرے سے خوشی سے گلے مل رہے تھے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے تھے ۔تبھی ایک ننھی بچی شیری کے پاس آئی تھی ۔یہ وہی بچی تھی جسے دہشت گردوں کا بوس اپنے ظلم کا نشانہ بنانا چاہتا تھا ۔وہ بچی شہریار کے پاس آئی اور اسے جھکنے کا اشارہ کیا ۔شہریار مسکرا کر نیچے ہوا تھا وہ بچی شہریار کے کان کے پاس آ کر بہت دھیرے سے بولی تھی
"کیا آپ فرشتے ہیں ؟"
"نہیں نہیں بیٹا ایسا کیوں کہہ رہی ہیں ؟"
"وہ میں نے بُرے انکل کے آنے کے بعد اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ وہ میں ہماری مدد کے لیے اپنے فرشتوں کو بھیج دیں۔ انہوں نے آپ لوگوں کو بھیج دیا "
وہ بچی اپنی تمام تر معصومیت لیے بولی تھی ۔
"گڑیا ہم لوگ فرشتے نہیں ہیں ہمیں اللہ تعالی نے آپ کا اور خصوصاً ہمارے پیارے ملک پاکستان کا محافظ بنایا ہے "
شہریار نے اسے پیار سے سمجھایا تھا
"ڈو یو مین پاکستان آرمی ؟"
وہ بچی اب اپنی آنکھوں میں خوشی کی چمک لیے سے پوچھ رہی تھی ۔
"یس پاکستان آرمی !"
شیری نے اس بچی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اپنے باقی ساتھیوں کی طرف چل دیا ۔
انہوں نے بعد میں سب بچوں کو ان کے گھر واپس بھیج دیا تھا اور پرنسپل اور اساتذہ کو سکول کی سکیورٹی کا انتظام مزید سخت کرنے کی تاکید کی تھی ۔اس کے بعد سب واپس اپنی جیپ میں بیٹھ چکے تھے آخر انہوں نے جاکر اپنے سینئر سر کو اس کی رپورٹ بھی تو دینی تھی اور کامیابی کی اطلاع دینی تھی ۔
جیپ میں ترانہ لگا ہوا تھا۔ ترانے کی آواز کم آ رہی تھی اور سپاہیوں کے جوش و خروش سے گائے ہوئے ملی نغمے کی آواز زیادہ تھی
نہ جنکو خوف آتا ہو وہ دل مشکل سے ملتے ہیں
جہاں گرتا ہے خون انکا وہاں پر پھول کھلتے ہیں
نہ جن کو عشق ہو مٹی سے ہو تو غیر ہوتے ہیں
ہو دشمن جو بھی دھرتی کا وہ تو بیر ہوتے ہیں
ہے ماؤں کی دعاؤں کا اثر جو آرزو میں ہے ۔۔۔۔
رگوں میں ہے ۔۔ جنوں میں ہے ۔۔۔
وطن کا عشق خون میں ہے۔ ۔۔
جو بیٹے ہیں وطن تیرے ۔۔
وطن انکے لہو میں ہے۔ ۔۔!
چلےتوراستے ان کے یوں پیچھے پیچھے چلتے ہیں
دعا بن کے جو سایہ ہو یہ ان کے نیچے چلتے ہیں
محبت ہے وطن سے یوں انہیں کچھ فکر نہیں جان کی
یہی تو غازی ہوتے ہیں مریں تو گود میں ماں کی ۔۔
ماوں کی دعاؤں کا اثر جو آرزو میں ہے ۔۔۔۔
رگوں میں ہے ۔۔۔جنوں میں ہے ۔۔۔۔
وطن کا عشق خوں میں ہے ۔۔۔۔
جو بیٹے ہیں وطن تیرے ۔۔۔
وطن ان کے لہو میں ہے ۔۔۔۔
ان کی آوازوں سے ہی ان کا وطن کے لئے عاشق ظاہر ہو رہا تھا ان کی آواز سن کر اردگرد کے لوگ بھی ان سے متاثر ہو رہے تھے اور انہیں سلیوٹ کرتے جا رہے تھے پاکستان آرمی کی یونیفارم پہنے ہوئے یہ سب نوجوان اپنی جانیں وطن کے لئے قربان کر چکے تھے ۔اور یہ بات آج ان کی دیدہ دلیری سے ہی ظاہر ہو رہی تھی ۔
☆☆☆☆☆
کرنل جہانگیر شاہ اپنے مجاہدوں کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ان سے انتظار نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کب اپنے ملک کے بہادر بیٹوں کو سلیوٹ کر سکیں ۔عموماً چھوٹے بڑوں کو سلیوٹ کیا کرتے ہیں لیکن آج جس بہادری سے انہوں نے دہشت گردوں کے گروپ کو ان کے انجام تک پہنچایا تھا کرنل جہانگیر شاہ ان سب سے بہت متاثر ہوئے تھے خصوصاً شہریار سکندر علی خان سے کیونکہ شہریار خان نے اس گروپ کے بوس کو جس بہادری سے اس کے انجام تک پہنچایا تھا وہ سب کے لیے ہی بہت متاثر کن تھا ۔
میٹنگ روم کا دروازہ کھلا تھا اور سب مجاہد سلام کرتے ہوئے نہایت ادب سے آ کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے کرنل نے سب کو مبارک باد دی اور پھر شیری کو مخاطب کیا ۔
"شہریار سکندر میری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے سربراہ کو اسکے انجام تک آپ نے پہنچایا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ "
"جی ۔اسکی موت میرے ہی ہاتھوں لکھی تھی۔ "
"شاباش جوان۔ تم نے مجھی اپنی دیدہ دلیری اور بہادری سے بہت متاثر کیا ہے۔ "
کرنل جہانگیر نے اسکی کمر کو تھپکا تھا۔ وہ آج اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا۔
"شکریہ سر" شہریار نے ادب سے سر کو خم دیا تھا۔
☆☆☆☆☆
وہ گھر آیا تو اس نے سب گھر والوں کو مشن میں کامیابی کی اطلاح دی تھی۔ جسے سن کر سب ہی بہت خوش ہوئے تھے۔ اس نے گھر میں داخل ہوتے ساتھ ایک نظر سب کو دیکھا جو اس کے لئے منتظر تھے ۔اور اس سے مشن میں کامیابی کی اطلاع سننے کو بے چین تھے اس نے جا کر تسبیح کرتی ہوئی بی جان کی گود میں سر رکھا اور تھکن کے باعث دھیرے لہجے میں بولا
"اللہ کے فضل و کرم سے میں آج اپنے مشن میں سرخرو ہوا ہوں ۔میرے لئے آپ سب ہمیشہ دعاگو رہیے ۔۔"
"اللہ تمہیں ہمیشہ کامیاب کرے" فرزانہ بیگم بولی تھی ۔ سب نے آمین کہا تھا.
"جی امی جان اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں "۔
سب سے مل کر وہ اوپر والی منزل میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر ماہی کے کمرے کے بند دروازے پر پڑی ۔یہ لڑکی مجھے مبارکباد دینے نیچے تک نہیں آئی اس نے دل میں سوچا اور ساتھ ہی ماہی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔
اندر سے آواز آئی تھی" آجائیں "۔
شیری اندر چلا گیا تھا اندر کا منظر دیکھ کر اس نے بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا ۔یہ لڑکی کبھی نہیں سدھر سکتی ایک اور خیال اس کے دماغ میں آیا تھا ۔
ماہی اپنے روم کی ایل ایی ڈی میں باربی کی موویز لگا کر آرام سے دیکھ رہی تھی ایک ہاتھ میں پاپ کارن تھے اور ساتھ ہی دوسرے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا ۔ماہی نے بھی اسکرین سے نظر اٹھا کر ایک دفعہ آنے والے کو دیکھا تھا ۔شیری کو دیکھ کر اس کا جوس اس کے گلے میں اٹک گیا تھا وہ صبح سے ناراض تھی۔اور شیری کا اس کو منانے کے لئے انتظار کر رہی تھی پڑ نہ شیری آیا اور نہ ہی اس کا کوئی میسج اس لیے اس کے ناراضگی اور بھی شدید ہو گئی تھی ۔
وہ فورا ًاٹھی تھی اور اٹھ کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔
"آپ باہر تشریف لے جا سکتے ہیں مسٹر شہریار سکندر "
ماہی بے اعتنائی سے بولی تھی ۔
"پر میں تو اب اندر آ چکا ہوں اور فلحال میرا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ماہی شہریار علی "
شہریار بھی اسی کے انداز سے بولا تھا ۔اور ساتھ ہی جاکے ماہی کے بیڈ پر بیٹھ کر مووی دیکھنے لگا ۔
"اوکم اون ماہی یار گرو اپ تم ابھی بھی بچوں والی موویز دیکھتی ہو"شیری نے اسے چڑایا تھا ۔
"تمہیں کوئی مسئلہ ہے ؟اور شیری میرے بیڈ سے نیچے اترواور چلے جاؤ یہاں سے مجھے ۔تم سے کوئی بات نہیں کرنی ۔"
وہ غصے سے بولی تھی ۔ابھی شیری اس کی بات کا جواب دینے ہی والا تھا کہ محکمہ اطلاعات کی کمرے میں انٹری ہوئی تھی اور وہ ماہی کے کمرے میں شہریار کو دیکھ کر ایک دم حیران ہوا تھا
"او واہ رخصتی کے بعد دلہن اپنے دولہا کی کمرے میں جاتی ہے یہ تو سنا تھا پر رخصتی سے پہلے ہی دولہا اپنی دلہن کے کمرے میں موجود ہوگا وہ تو پہلی بار دیکھ رہا ہوں رکیے ابھی میں پہلے امی جان اور چچی جان کو بتا کر آتا ہوں" ارمان یہ کہتے ہوئے جانے لگا تھا جب شیری نے جلدی سے اس کے دونوں بازو پکڑ لیے تھے اور ماہی نے کمرے کا دروازےکو لاک لگایا تھا ۔
اب شیری نے ارمان کے کان پکڑے ہوئے تھے
"ہاں بول کیا بتانے جارہا تھا؟ کیا آپ بکو اس کر رہا تھا ابھی ؟"
"کچھ نہیں بھائی جان مذاق بھی نہیں سمجھتے ۔اچھا میں نا وہ نا مجھے ایک کام یاد آ گیا ہے۔ میں چلتا ہوں ۔میرے کان چھوڑ دیں "
ارمان نے اپنے چہرے پر معصومیت لانے کی بھرپور کوشش کی تھی پر مقابل بھی شیری تھا ۔جو کسی کے بھی چہرے کے پیچھے چھپے ہوئے تاثرات بھی آسانی سے پڑھ لیا کرتا تھا ۔
"تم دونوں بھائیوں کی لڑائی ہو گئی ہو تو آپ دونوں چلے جاؤ یہاں سے میرا سر نہ کھاؤ "ماہی کی غصے سے بھری آواز آئی تھی وہ کب سے ان دونوں کی یہاں سے جانے کی منتظر تھی پر وہ دونوں جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے بلکہ پاکستان انڈیا کی جنگ شروع کر دی تھی وہ دونوں ایک دم مڑے تھے
"اچھا چل بتا کیا کہنے آیا تھا ؟"شیری نے ارمان سے پوچھا تھا
"وہ بھائی جان دراصل میں ابھی ابھی گھر والوں کی باتیں سن کے آیا ہوں سب لوگوں نے آپ لوگوں کی رخصتی کا فیصلہ کردیا ہے لیکن ایک بہت ہی حیران کن بات سامنے آئی ہے "ارمان کی تیزی سے چلتی ہوئی زبان ایک دم پیچھے دیکھ کر رکی تھی جہاں ماہی ابھی تک مسلسل ان دونوں کو گھور رہی تھی ۔
"کون سی حیران کن بات جلدی بول ؟" شیری بولا تھا۔
"وہ بھائی جان یہ کہ بی جان نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگوں کا برات کا فنکشن نہیں ہوگا مطلب نہ ماہی بھابھی کی کوئی برات لے کر آئے گا میرا مطلب آپ برات لے کر آئیں گے اور نہ ہی ہم لوگ براتی ہوں گے "ارمان نے انہیں ابھی تازہ ہوئی بات بتائی تھی ۔
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟" اب ماہی بھی ان کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔
"دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ آپ دونوں کا نکاح تو پہلے ہی ہوچکا ہے تو برات کا مقصد تو ختم ہو چکا ہے اس لئے ہم سب بچے اپنے طور پر مہندی کا فنکشن کریں گے وہ تو خیر ہم لوگ کریں گے ہی اور ولیمے کا انتظام زیادہ بھرپور کیا جائے گا ۔"
ارمان نے گویا ان دونوں کے سر پر بم پھوڑا تھا ۔
"اوئے بس ایک بات بتا میری دولہن تو نہیں بدل دی ان لوگوں نے ؟"شہریار نے بظاہر سنجیدہ لہجے میں کہا تھا مگر اس کی آنکھوں سے اس کی شرارت ظاہر ہورہی تھی جسے دیکھ کر ماہی نے اس کے سر پر زور سے تکیہ پھینکا تھا
"اوکے میں اب چلتا ہوں مجھے کارڈز کا آرڈر بھی دےکے آنا ہے "ارمان ان دونوں کی غصیلی نگاہوں کو دیکھ کر باہر چلا گیا تھا ۔
"شہریار اب تم بھی یہاں سے جاؤ "وہ جب بہت غصے میں ہوا کرتی تھی تو اسے اس کے اصل نام سے مخاطب کیا کرتی اب بھی اسکے شہریار کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اسے سنجیدگی سے کمرے سے باہر جانے کو کہہ رہی تھی ۔
شہریار اٹھ کر اس کے قریب آیا تھا اور اس کے کان پکڑ کر بہت نرمی سے بولا تھا
"سوری آئندہ ایسا نہیں کروں گا دراصل مجھے بہت جلدی میں ایک مشن میں جانا تھا اور میں پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا اس لیے تم سے ایسے بول گیا ۔سوری "
"شیری میرے نہیں اپنے کان پکڑو "ماہی چڑ کر بولی تھی ۔
"اچھا ناں سوری" شیری دھیرےسے بولا تھا ۔
"اٹس اوکے" وہ بھی مسکرا دی تھی کیونکہ اسے زیادہ دیر ناراض ہونا کہاں آتا تھا ۔
☆☆☆☆☆
YOU ARE READING
سن میرے ہمسفر (COMPLETED)
Short StoryStory of an energetic girl Mahi and a Pakistani Soldier Sherry. They both love each other but don't confess. this story reflects true love of God that leads to a happier life😍😍