#Sun_Merey_Humsafar_Novel
#Zoha_Asif_Novels
#30thEpisodeشہریار نے سیف ہاؤس پہنچتے ساتھ ہی کرنل جہانگیر شاہ کو کال ملائی تھی۔کرنل صاحب مشن میں کامیابی کی اطلاع سن کر بہت خوش ہوئے تھے ۔
"شاباش شہریار مجھے یقین تھا کہ تمہیں بھیجنے کا میرا یہ فیصلہ کبھی غلط ثابت نہیں ہوگا "
"تھینک یو سر مجھے آپ کے یقین کو بھی تو قائم رکھنا تھا"
"ہاں شاباش لیکن میں حمزہ کے لئے بہت دکھ محسوس کرتا ہوں۔ ۔"
"سر اس کے لئے دکھ نہیں بلکہ فخر محسوس کریں "
"ہاں تم نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے اور حمزہ کی قربانی کو ضائع نہیں جانے دیا تم سب نے "
"Yes sir. It was our duty.."
"اوکے جینٹلمین میں آپ کی آج کی ٹکٹس کنفرم کروا رہا ہوں ۔وطن لوٹو پھر ملاقات ہوگی انشاء اللہ "
"اوکے سر انشاءاللہ "
☆☆☆☆☆
شہریار نے کرنل شاہ کا فون بند کرکے فہد کو اپنے کمرے میں بلایا تھا ۔۔
"ہاں فہد باڈی کو پاکستان بھیجنے کا انتظام ہو گیا ؟"
"یس سر " وہ غمگین لہجے میں بولا تھا ۔
"فہد اداس مت ہو ۔ وہ ہم سب کا بھائی تھا ۔اور ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔۔اور اس بات سے ہمیں مطمئن ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنے بھائی کی قربانی کو ضائع نہیں جانے دیا"
"جی سر آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔"
"اچھا سنو اس کی باڈی کے ساتھ یہ لیٹر بھی بھجوا دینا یہ اس نے اپنے جانے سے پہلے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا اپنی فیملی کے لیے"
"اوکے سر " اور ساتھ ہی اس نے شیری کے ہاتھوں سے وہ لیٹر تھام لیا تھا ۔۔
"فہد بات سنو ؟"
اس نے کمرے سے باہر جاتے ہوئے فہد کو آواز دے کر روکا تھا ۔
"جی سر ؟"
"کرنل سر نے ہم سب کی رات کی ٹکٹس بک کروا دی ہیں تم لوگ سارے پاسپورٹ وغیرہ اور سامان تیار رکھنا "
"اوکے سر "یہ کہہ کر فہد روم سے باہر جا چکا تھا ۔
☆☆☆☆☆
شہریارنے اپنے روم میں بیٹھ کر اپنے موبائل کا انٹرنیٹ آن کیا تھا ۔ انٹرنیٹ کونیکٹ ہوتے ساتھ ہی اسے واٹس ایپ پر میسجز آنا شروع ہو گئے تھے ۔سب سے پہلے آنے والا میسج ماہی کا تھا اس نے کوئی غزل بھیجی تھی ۔۔
"تمہیں اک بات کہنی ہے ۔۔
مگر ناراض مت ہونا ۔۔۔
کہ تم جو ہر گھڑی مجھ کو ۔۔
اتنا یاد آتے ہو ۔۔۔
ہمیں اتنا ستاتے ہو ۔۔۔
کہ ہم تم دور ہیں دونوں ۔۔
بہت مجبور ہیں دونوں ۔۔۔
نہ اتنا یاد آو تم ۔۔
نہ یوں اتنا ستاو تم ۔۔
کہ اتنا یاد آ کے تم ۔۔
ہمیں اتنا پاگل بنا کے تم ۔۔
فقط اتنا بتا دو ۔۔
ہماری جان لوگے کیا ؟؟
مگر یہ بھی حقیقت ہے ۔۔
اک تمہاری یاد ہی تو ہے ۔۔
جو ہر پل ساتھ رہتی ہے ۔۔
خوشی میں بھی ۔۔غموں میں بھی ۔۔
اداسی کے پلوں میں بھی ۔۔۔
تمہاری یاد ہی تو ہے ۔۔۔
جو ہمیں یہ بتاتی ہے ۔۔۔
مجھے ہر پر احساس دلاتی ہے کہ ۔۔۔
ہم تم بن ادھورے ہیں ۔۔۔۔!!!!"
شہریار نے غزل پڑھ کر ایک لمبا سانس کھینچا تھا ۔
"تمہیں تو میں آ کر بتاؤں گا ماہی میری جان"
اس نے دل میں سوچ کر اگلا میسج پڑھا تھا ۔۔جسے پڑھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہ گیا تھا ۔وہ میسج دراصل ایک ویڈیو تھی جو ان نون نمبر سے بھیجی گئی تھی اس ویڈیو میں بگ باس کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا اس میں وہ بڑی شاطرانہ مسکراہٹ لیے بیٹھا تھا ۔شیری جیسے جیسے ویڈیو آگے دیکھتا جا رہا تھا اس کا غصے سے برا حال ہوتا جا رہا تھا ۔اس نے شدید غصہےکی حالت میں سائیڈ ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا تھا اور وہاں رکھا پانی کا گلاس ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا ۔یہ ویڈیو دو دن پہلے بھیجی گئی تھی شہریار نے مصروفیت کے باعث چار دن کے بعد آج اپنے موبائل کا انٹرنیٹ چلایا تھا اور اسی وجہ سے یہ ویڈیو وہ اب دیکھ رہا تھا ۔ اس ویڈیو میں بگ باس ایک ایک کر کے ان سارے پاکستانی جوانوں کے پاسپورٹ ایک جگہ جمع کر رہا تھا اور پھر جب سارے پاسپورٹس اس نے رکھ دیے تو اس نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی اس نے ان سب کے پاسپورٹ ضائع کر دیے تھے۔ اور پھر بگ باس مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا
"اب تو (گالی) واپس کیسے جائے گا اپنی ملکہ رانی کے پاس ؟"
شہریار کو اپنا دماغ ماؤف ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔
اس نے جلدی سے باقی سارے ساتھیوں کو آواز دی تھی جو اگلے ہی لمحے اس کے کمرے میں موجود تھے ۔شہریار نے ان سب کو وہ ویڈیو دکھائی تھی ویڈیو دیکھنے کے بعد سب کے تاثرات تقریباً ایک جیسے تھے ۔۔
"سر اب ہم کیا کریں گے ؟واپس کیسے جائیں گے ؟اور آج کی ٹکٹس جو کرنل سر نے کروائی ہیں اس کا کیا ہوگا ؟"
شعیب نے سول کیا تھا۔
"ابھی فی الحال میرے پاس تم سب کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں ہے "
وہ پریشانی کے عالم میں بولا تھا ۔۔
"فہد ایک دفعہ اچھی طرح جاکر دیکھو کہ پاسپورٹ پڑے ہیں یا نہیں ؟"
"سر میں دو دفعہ سارا سیف ہاؤس چیک کر چکا ہوں لیکن مجھے پاسپورٹ کہیں دکھائی نہیں دیے۔ حقیقت یہی ہے کہ بگ باس نے ہمارے پاسپورٹ ضائع کر دیے ہیں ۔۔"
وہ بھی پریشان ہو کر بولا تھا ۔
شہریار نے لمبا سانس لیتے ہوئے بس اتنا ہی کہا تھا ۔
"تم لوگ ہمت بالکل بھی نہیں ہارو گے انشااللہ ہم جلد ہی کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ڈھونڈ لیں گے ۔۔"
"انشاءاللہ "سب یک آواز ہو کر بولے تھے اور پھر شہریار نے سب کو تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے بھیج دیا تھا وہ علیحدہ بات تھی کہ آج رات نیند کسی کو بھی نہیں آنے والی تھی ۔۔
☆☆☆☆☆
پاسپورٹ والی بات کو ہوئے آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔وہ لوگ اب بہت ہی پریشان تھے تبھی فہد نے سب کو مشورہ دیا تھا
"آپ سب میری بات سنیں۔ یہاں بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا تھوڑی دیر باہر چلتے ہیں واک کرکے آتے ہیں فریش ہوا میں سانس لیں گے تو خوشگوار محسوس کریں گے ۔۔۔"
"نہیں فہد موڈ نہیں ہے "شہریار سمیت سب کا ایک ہی جواب تھا ۔
"میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں یہاں سارا دن اور رات سیف ہاؤس میں بند رہنے سے ہم مسئلے کا حل نہیں نکال پائیں گے تھوڑی دیر اگر فریش ہوا میں سانس لیں گے تو تھوڑی گھٹن کم ہوگی اور زیادہ معقول انداز میں ہم سوچ بھی سکیں گے کہ آگے کیا کرنا ہے "
فہد نے ان کو بہت نرمی سے اور پیار سے سمجھایا تھا اور جلد ہی سب کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی اور وہ دس منٹ میں باہر نکل چکے تھے ۔انہوں نے تقریباً ایک گھنٹہ واک کی واپسی پر آتے ہوئے شہریار نے کان کے ساتھ موبائل لگایا ہوا تھا وہ کرنل سر سے بات کرنے میں مصروف تھا جب اچانک ایک بائک تیزی سے آئی اور بائیک والا شہریار کے کان کے ساتھ لگا ہوا فون کھینچ کر لے گیا تھا ۔شہریار اور اسکے باقی ساتھی جتنا آگے تک ہو سکتا تھا اس کے پیچھے دو ڑے تھے لیکن وہ آگے نکل چکا تھا
☆☆☆☆☆
#tobecontinued
YOU ARE READING
سن میرے ہمسفر (COMPLETED)
Short StoryStory of an energetic girl Mahi and a Pakistani Soldier Sherry. They both love each other but don't confess. this story reflects true love of God that leads to a happier life😍😍