سن میرے ہمسفر Episode 32

1.4K 96 0
                                    

#Sun_Mere_Humsafar_Novel
#Zoha_Asif_Novels
#32ndEpisode

"بس میں نے سوچ لیا ہے۔ اس کے بارے میں مزید سوچنا نہیں چاہتا۔ آپ سب آج رات کے لئے ریڈی رہیے۔ "
شہریار نے دوٹوک لہجے میں کہا تھا ۔
"پر سر ہمیں لگتا ہے کہ آپ کو اس کے بارے میں دوبارہ سوچنا چاہیے۔  بارڈر  کراس کرنے کا فیصلہ کوئی عام بات نہیں ہے ۔۔"
سب ساتھیوں میں سے فہد نے بولنے کی ہمت کی تھی کیونکہ اس وقت شہریار کے چہرے کے تاثرات غضبناک ہورہے تھے ۔وہ سبھی شہریار کے کمرے میں موجود تھے اور شہریار نے انہیں ارجنٹ بلایا تھا ۔۔
"پر مجھے نہیں لگتا کہ اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے ۔۔دو سال ہوگئے ہیں ہم لوگ سوچ ہی تو رہے ہیں "
"پر سر آپ کو لگتا ہے کہ ایسے غیر قانونی طریقے سے ہم اپنے ملک واپس پہنچ جائیں گے ؟"
ان کا ایک ساتھی بولا تھا ۔
پہلی بات تو یہ کہ ہم لوگ غیر قانونی طریقے سے اپنے ملک واپس نہیں جا رہے۔۔ہم لوگ پاکستان کے محافظ ہیں اور وہاں ہم کسی غلط مقصد کے لیے بالکل نہیں جا رہے اس لیے اس کو غیرقانونی سوچنا چھوڑ دیجئے آپ سب۔۔ "
"سر آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن اگر اس میں ہم سب میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچ گیا تو ؟"
"دیکھو فیضان ہم سب خطروں کے کھلاڑی ہیں ۔ہماری جانوں کی کوئی  گیرنٹی نہیں ہوتی۔کسی بھی مشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے  اس لئے ساری زندگی یہ سوچ کر جینا کہ ہم لوگ اپنے لیے کچھ نہیں کر سکے اس سے بہتر ہے کہ ہم لوگ اپنے لئے ایک کوشش  ضرور کریں ۔۔"
"جی بالکل ساری عمر حسرت لیے جینے سے اچھا ہے کہ ہم لوگ ایک کوشش ضرور کریں ۔۔ کم سے کم کوئی افسوس نہیں ہوگا۔۔"
فہد بولا تھا ۔
"تو پھر آپ سب آج رات ریڈی رہیے گا آج ہمیں یہ کر گزرنا ہے ۔۔"
"یس سر" سب لوگ یک آواز ہو کر بولے تھے ۔
"تو کیا آج آپ سب اس نئے امتحان میں میرا ساتھ دیں گے گے ؟"
"یس سر "سب نے اس کی پکار پر لبیک کہا تھا ۔
                     ☆☆☆☆☆
رات کے کوئی ڈھائی بج رہے تھے اس وقت یہ سارا علاقہ بہت سنسان ہو رہا تھا۔۔ پاک افغان سرحد پر موجود افغانی سپاہی اس وقت کسی کی آمد کی توقع نہیں کر رہے تھے پر ان کی توقع کے برعکس  اچانک  ان کے پاس  تین چھوٹے چھوٹے گیند کسی نے اچھالے تھے ۔ابھی وہ لوگ اسی افتاد میں گم تھے کہ اچانک سے وہ  تمام چھوٹے چھوٹے گیند کی طرح دکھنے والی عجیب سی چیز پھٹ گئی تھی اور ہر طرف دھواں چھا گیا تھا اور وہ تمام سپاہی نیچے زمین پر گرے تھے ۔۔کوئی دو منٹ کے بعد شہریار سکندر اپنے ساتھیوں کو لیڈ کرتا ہوا بارڈر کراس کر گیا تھا ۔آگے ایک اور امتحان اس کا منتظر تھا۔۔
"جی بھائی لوگ کہاں  آتے جارہے ہیں آپ؟؟"
پاکستانی سرحد پر موجود فوجیوں نے ان کے آگے آکر گھیرا تنگ کیا تھا اور ان کے سروں پر بندوق تان دی تھی ۔
شہریار نے بات کا آغاز کیا تھا ۔
"Sir I myself belong to Pakistan Army. These are also brave soldiers of Pakistan Army."
اور ساتھ ہی شہریار نے ان کو اپنا آرمی کارڈ دکھایا اور باقی کی مختصر سی  ضروری معلومات فراہم کرکے پاکستان کی حدود کے اندر جانے کی اجازت چاہی ۔سرحد پر موجود تمام فوجیوں کا  سینئر شہریار کے قریب آیا تھا اور اتنے خطرناک مشن پر کامیابی حاصل کرنے پر شہریار کو گلے مل کر داد دی تھی جسے شہریار نے سر کو خم دے کر وصول کر لی تھی۔ اور یوں دیگر امتحانات سے گزر کر انہیں بارڈر کراس کرنے دیا گیا تھا۔ پرشہریار یقیناً بے خبر تھا کہ ابھی ایک اور امتحان اس کا منتظر تھا ۔۔۔
شہریار اپنے اندر بے تحاشا سکون اور اطمینان محسوس کر رہا تھا بالآخر ڈھائی سال کے بعد وہ پاکستان آیا تھا اور اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے بے چین تھا ۔آج اتفاق سے ہفتہ تھا اور ہفتے کو ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے سب گھر والے دیر رات تک جاگا کرتے تھے اسی لئے وہ زیادہ خوش تھا کہ گھر جاکر سبھی تقریباً جاگتے ہوں گے اور سب اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے پر اسے کیا خبر تھی کہ آگے کیا ہونے والا تھا ۔۔گھر کے قریب پہنچتے پہنچتے اس کا جوش اور بھی بڑھ گیا تھا ۔اتنے عرصے کے بعد گھر والوں سے ملنے کی خوشی کیا ہوتی ہے یہ صرف وہی جان سکتے ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت و سلامتی کے لیے اتنے عرصے تک ملک سے اور اپنے گھر والوں سے  دور رہتے ہیں ۔۔وہ گیٹ کے قریب پہنچا تو چوکیدارنے دروازہ فوراً ہی کھول دیا تھا ۔وہ ان سے ملنے اور ان کا حال چال پوچھنے کے بعد اندر کی جانب بڑھا تھا لاونج  کی طرف جاتے ہوئے اس کے قدم وہیں تھم گئے تھے جب اس نے اپنی ماں کا اٹھتا ہوا ہاتھ دیکھا اور آگے ماہی کی آنکھوں میں روانی سے بہتے ہوئے آنسو دیکھے ۔اسے ان کے قریب جانے اور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑنے میں صرف دو سیکنڈ لگے تھے ۔۔پر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ماہی ایک دم سے نیچے گری تھی اور شہریار نے فوراً اسے تھام لیا تھااور گرنے سے بچا لیا تھا ۔۔۔
                   ☆☆☆☆☆
شہریار کے جانے کے کچھ عرصے بعد ہی تائی جان کا رویہ اس کے ساتھ بہت برا ہوگیا تھا لیکن وہ سب برداشت کرلیا کرتی تھی کہ یہ بھی اس کی زندگی کی آزمائش اور امتحان ہے پر آج تائی جان کے طنز اور بلاوجہ کے اتنے شدید غصے کی وجہ سے وہ بالکل ہمت ہار بیٹھی تھی اس نے اپنا ضبط کھو دیا تھا اور تائی جان کے اپنی طرف اٹھتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر  وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تھی اسے بس اتنا یاد تھا کہ  وہ ایک مضبوط بازو کے حصار میں ہے۔ ۔
                     ☆☆☆☆☆
شہریار نے ماہی کی حالت کو دیکھ کر  ایک غضبناک نگاہ سب پر ڈالی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ  یہ وقت غصہ کرنے کا نہیں تھا اس نے ضبط کر کے ارمان کو گاڑی نکالنے کو کہا تھا۔
"ارمان گاڑی نکالو فوراً"
اس وقت کوئی بھی شہریار کی آمد کی توقع نہیں کر رہا تھا اسی لیے سب ساکت  ہوکر شیری کو دیکھ رہے تھے ۔
"شیری میرے بچے ۔۔۔"
فرزانہ بیگم اسے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھیں  تھیں۔ لیکن شہریار نے ایک ہاتھ اٹھا کر انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا ۔
اسی دوران ارمان بھی گاڑی لے کر آ گیا تھا اور  لاؤنج میں آکر شہریار کو کہا
"شیری بھائی گاڑی تیار ہے آ جائیں۔ "
اتنا سننے کی دیر تھی کہ شہریار نے ماہی کو اپنے مضبوط بازو میں اٹھایا اور گاڑی کی طرف چل دیا ۔وہ دس منٹ میں ہسپتال کے اندر تھے ماہی کو فوراً ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا تھا ۔۔
شہریار، ارمان  اور سکندر صاحب ساتھ آئے تھے جبکہ حمدان صاحب سعدیہ بیگم کو بڑی مشکل سے گھر میں روکا ہوا تھا ۔
وہ سب اب ویٹنگ ایریا میں ڈاکٹر کے آنے کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آئیں اور ماہی کی حالت کے بارے میں بتائیں ۔۔
آدھے گھنٹے کے بعد ڈاکٹر ایمرجنسی روم سے نکل کر باہر آئے تھے شہریار بے چینی کے عالم میں ان کے قریب کیا تھا ۔
Doctor  , Is  Everything OK ?"
کیا ہوا ہے میری وائف کو ؟؟"
ڈاکٹر کو ان کی طرف آتے دیکھ کر ارمان اور سکندر صاحب بھی ان کے قریب آگئے تھے ۔۔۔
"آپ کی وائف کو نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا ان کو تھوڑے عرصے میں بہت زیادہ  ٹینشن دی گئی ہیں ۔اگلے چوبیس گھنٹے ان کے لئے بہت اہم ہیں آپ دعا کیجئے کہ ان کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہوش آ جائے ۔ انشاء اللہ، اللہ تعالی  بہتر  کرے گا۔"
ڈاکٹر نے جیسے ان کے سر پر بم پھوڑا تھا ۔ڈاکٹر کے الفاظ سن کر وہ سب ساکت ہوگئے تھے۔سکندر صاحب اور ارمان نے شاک کی کیفیت میں ایک دوسرے کو دیکھا تھا جب کہ شہریار نے ان دونوں سے دو قدم آگے آکر  دیوار کا سہارا لیا تھا ۔
کیا دو سالوں میں ماہی کے ساتھ اسی طرح کا رویہ رکھا گیا تھا جس طرح کا آج اس نے عملی مظاہرہ دیکھا تھا ؟۔۔۔ کیا وہ روز اتنی تکالیف کا سامنا کیا کرتی تھی ؟۔۔۔۔کیا اس کے گھر سے تھوڑی دیر کے لئے غائب ہو جانے کے دوران  اس کی بیوی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جاتا رہا تھا ۔۔۔؟ اس کی بیوی نہیں تو اس کے گھر والے اپنے گھر کی بیٹی سمجھ کر ہی اس کا خیال کرلیتے ۔۔۔کیا گھر والوں نے مل کر ماہی کو اتنی اذیت  پہنچائی  کے اسکا نروس بریک ڈاؤن (Nervous
Breakdown) ہوگیا ۔۔۔؟"
اس طرح کی دیگر سوچیں اس کے دماغ میں آ رہی تھیں۔  اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔
"کیا ہم اس سے مل سکتے ہیں ؟"
شہریار ڈاکٹر کے قریب جا کر پوچھ رہا تھا ۔
"ابھی تو دواؤں کے زیر اثر سو رہی ہیں آپ تھوڑی دیر کے بعد ان سے مل سکتے ہیں "
"ڈاکٹر  وہ ٹھیک تو  ہو جائے گی ناں؟ "
"جی انشاءاللہ  آپ دعا کیجیے "
ڈاکٹر یہ کہہ کر شیری کا کندھا تھپک کر  چلے گئے تھے لیکن وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا تھا ۔وہ تو آتے ہوئے  کتنے خوبصورت خیال دیکھتے ہوئے آیا تھا کہ وہ گھر جائے گا سارے کتنا خوش ہوں گے ۔ماہی کا اس کو دیکھ کر ردعمل کیسا ہوگا؟ وہ اس کا استقبال کیسے کرے گی ؟پر جو آج ہوا تھا وہ تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ وہ ان سب سوچوں کو جھٹک  کر ایک لمبا سانس لیتا ہوا نماز پڑھنے کے ارادے سے چلا گیا تھا ۔
                    ☆☆☆☆☆
ارمان نے فون کر کے  گھر میں اطلاع دے دی تھی۔گھر میں ایک دم سے پریشانی چھا گئی تھی ۔۔سب لوگ اپنی اپنی طرف سے اس کے لئے دعائیں مانگ رہے تھے جبکہ فرزانہ بیگم کا شرمندگی کے باعث برا حال تھا ۔آج جو کچھ بھی ہوا تھا اس کی سب سے بڑی  وجہ فرزانہ بیگم خود ہی تھیں۔ وہ کسی کی بھی نظروں کا  سامنا نہیں کر پا رہی تھیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ شہریار کے واپس نہ آنے کی وجہ وہ ماہی کو ہی سمجھ  رہی تھیں اور اسی وجہ سے وہ غصے میں ماہی کو نہ جانے کیا کچھ کہہ جایا کرتی تھیں۔ اور آج ان کو اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنی غلطیوں کا احساس ہو رہا تھا ۔آج ان کی وجہ سے ماہی، وہ لڑکی جس کو انہوں نے اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر پیار کیا تھا اس کو پالا تھا اس کو بہو کم  بیٹی زیادہ سمجھا تھا وہ ہسپتال میں پڑی تھی اور ڈاکٹرز  نے اس کی زندگی کے لئے دعا کرنے کو کہہ دیا تھا وہ  موت اور زندگی کی کشمکش میں تھی اور ان سب کی وجہ فرزانہ بیگم تھیں۔ ان کی زہریلی باتوں کی وجہ سے ماہی آج ہسپتال میں تھی ۔۔وہ جانتی تھیں کہ اب اپنی خطاؤں  پر شرمندہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب اگر وقت ہے تو ماہی کے لیے دعا کرنے کا وقت تھا ۔ اللہ سے اس کی زندگی کی بھیک مانگنے کا وقت تھا ۔۔
اسی لیے وہ تمام سوچوں کو فلوقت اپنے دماغ سے جھٹک کر جائے نماز پر جاکر بیٹھ گئی تھیں اور اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگنے لگی تھیں اور ساتھ ہی ماہی کے لیے زندگی مانگنے لگی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ  ان  کے بیٹے کی سانسیں بھی اسی لڑکی کے حیات ہونے کی وجہ سے ہیں خدا نہ خواستہ وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنے بیٹے کو ہی کھونا دیں ۔
                      ☆☆☆☆☆
ماہی کو ہسپتال میں پوری رات گزر چکی تھی ۔اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ۔سکندر صاحب نے بڑی مشکل سے شہریار کو تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے گھر جانے کے لیے بھیجا تھا ۔شہریار گھر پہنچا تو سب سے پہلا چہرہ فرزانہ بیگم کا تھا جو اسے اندر داخل ہوتے ساتھ ہی نظر آیا تھا ۔ان کو دیکھ کر ان  کی کل والی حرکت  یاد آگئی تھی جس کی وجہ سے اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا تھا ۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی اپنی ماں ہی اس کی بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کریں گی ۔
"شہر یار میرے بچے میری بات تو سنو ؟؟"
وہ پیار سے اس  کی طرف لپکی تھیں۔  لیکن شہریار ان کی ایک بھی سنے بغیر آگے بڑھ گیا تھا ۔ گھر کے اندر  داخل ہوتے ساتھ اس نے جو منظر دیکھا وہ کچھ اس طرح سے تھا ۔ ایک طرف بی جان بیٹھی ہوئی تسبیح کرنے میں مصروف تھیں جبکہ دوسری طرف سعدیہ بیگم  اپنی جوان بیٹی کے اس طرح سے ہسپتال جانے پر رو رہی تھیں اور ان کے قریب ارحان اور حمدان صاحب بیٹھے ان کو تسلیاں دے رہے تھے۔شہریار بھی چچی جان کے  قریب گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا
"چچی جان آپ ماہی کی فکر نہیں کریں وہ ان شاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو کر دوبارہ سے ہنستی مسکراتی ہوئی آپ سے ملے گی "
وہ خود یہ نہیں جان سکا تھا کہ وہ سب کو تسلیاں کیسے دے رہا تھا جبکہ  ماہی کی اتنی سیریس کنڈیشن پر وہ خود  بہت  پریشان تھا۔۔
"نہیں بیٹا وہ کیسے اتنی سیریس بیمار ہوگئی مجھے یقین نہیں آرہا ۔۔"
سعدیہ بیگم روتی ہوئی بولی تھیں۔
"چچی جان وہ  بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی"
شہریار اپنے دل کی حالت صرف خود ہی جانتا تھا باقی سب پر اس نے بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔
"پر میری پیاری بیٹی جو خود دوسروں کے علاج کیا کرتی ہے انکی مسیحائی کرتی ہے آج خود بستر پر پڑی ہے ۔ بیٹا میری ہمت ختم   ہو رہی ہے۔ مجھے اس کے پاس لے چلو ۔۔ پلیز۔ ۔"
وہ ماہی کی ٹینشن لے لے کر خود کو ہلکان کر رہی تھیں ۔ جو ان کی اپنی صحت کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہ تھا۔۔
"چچی جان آپ بلکل فکر نہ کریں۔ شیری بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔  ماہی بھابھی انشاءاللہ  بہت جلد ہم سب کے درمیان ہنستی مسکراتی ہوئیں موجود ہوں گیں۔۔"
ارحان نے بھی انہیں حوصلہ دیا تھا۔ اور پھر شہریار کے اشارہ کرنے پر انہیں انکے روم میں لے گیا تھا۔
بی جان سے ملنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں گیا تھا۔ کمرا اپنی اسی حالت میں موجود تھا جس حالت میں وہ ڈھائی سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔وہ اپنے کمرے کا جائزہ لے رہا تھا جب ڈریسنگ کے پاس سائیڈ ٹیبل پر ایک ڈائری اسے نظر آئی۔ اس نے حیرت سے اس ڈائری کو دیکھا۔ وہ آگے بڑھا اور اس ڈائری کو  کھول کے دیکھا ۔ ڈائری کے بالکل درمیان میں ایک قلم رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے ڈائری پوری بند نہیں ہو رہی تھی ۔
"شہریار تم پلیز  آ جاؤ اب میں تھک چکی ہوں۔۔ لوگوں کو اپنے کردار کی صفائیاں دے دے کر ۔۔میں نے تمہیں نہیں بھیجا ۔۔ تم سب کو یہ  حقیقت بتا دو شہریار پلیز ۔۔۔میری ہمت ختم ہورہی ہے پلیز واپس آ جاؤ ۔۔۔"
اس کھلے ہوئے صفحےکے عین درمیان میں یہ سطر لکھی ہوئی تھی ۔۔
شہریار نے یہ پڑھ کر کرب سے اپنی آنکھیں بند کی تھیں۔ اور نڈھال انداز میں بیٹھ کر گرا تھا ۔ڈھائی سالوں سے اس کی بیوی کو اس طرح  کی طنز و تنسیخ کی باتیں سننی پڑی تھیں۔   اور اس کو اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔ یہ سب ماہی کے ڈھائی سال کے  صبر کا نتیجہ تھا جس کا پیمانہ آج لبریز ہو گیا تھا ۔۔
شہریار پیچھے کو لیٹ گیا تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔جب جان سے پیاری ہستی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہو تو نیند ویسے بھی کہاں آتی ہے  ۔۔
وہ تھوڑی دیر یوں ہی بے معنی لیٹا رہا اور پھر فریش ہو کر ہسپتال کی طرف نکل پڑا ۔۔
                   ☆☆☆☆☆
شہریار نے  ہسپتال آکر سکندر صاحب اور ارمان کو گھر واپس بھیج دیا تھا تاکہ وہ کچھ دیر آرام کر لیں اور رات کو ماہی کے پاس وہ خود ہی ہسپتال میں رکا تھا۔۔ رات کے ایک بج رہے تھے جب ماہی کے بیڈ کے پاس  کرسی پر بیٹھا ہوا  وہ ماہی کو اس تمام عرصے  میں گزری ہوئیں اذیتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔اس نے ماہی کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔۔اور  اس کے زرد اور کمزور چہرے کو دیکھ رہا تھا جو اس عرصے میں مرجھا سا گیا تھا ۔۔تب ہی اس نے ماہی کے ہاتھ میں ہلکی سی جنبش محسوس کی تھی ۔۔۔۔
#tobecontinued

سن میرے ہمسفر (COMPLETED)Where stories live. Discover now