سن میرے ہمسفر Episode 14

1.5K 112 0
                                    

#SunMereyHumsafar
#ZohaAsif
#14thEpisode

وہ شیری سے ناراض ہو کر اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ اس نے جان بوجھ کرسب کو عیدی دے دی تھی پر ماہی سے تو جیسے کوئی خاص دشمنی تھی ناں اسکی۔ وہ انہی باتوں میں کھوئی تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ نوک ہوا تھا۔ اسنے مڑکر دیکھا تو شیری کھڑاتھا اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑے ہوئے تھے اور اپنے بغل میں ایک پھولوں کا گلدستہ بڑی مشکل سے پھنسایا ہوا تھا۔ ماہی کو اس وقت وہ بہت پیارا لگا تھا۔ وہ ایک پل میں ساری ناراضگی بھول گئی تھی۔
”ماہی سوری ناں اب معاف کر دو کیا ساری زندگی مجھے یوں ہی کھڑے رکھنے کا ارادہ ہے؟“
”آجاؤ زیادہ ڈرامے نہیں کرو جیسے میرے کہنے سے تم نے واقعی ساری زندگی یہیں کھڑے رہنا ہے ناں“
ماہی ہنس کربولی تھی۔
شیری اسکی ہنسی میں ہی کھو گیا تھا اسکی کھلکھلاتی ہوئی ہنسی تو وہاں بھی اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔ ماہی تم کیا جانو میں کبھی بھی تمہاری کسی بھی بات کا انکار نہیں کر سکتا۔ وہ بس یہ سچ کر رہ گیا تھا۔ اور ساتھ ہی اسکی عیدی اسکے حوالے کر دی تھی.
               ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب قربانی کا مرحلہ شروع ہوا تھا۔ ماہی کو بچپن سے ہی جانوروں سے خصوصاً قربانی کے جانوروں سے بہت ڈر لگتا تھا اور ارمان جان کر اسکے سامنے بکرے کو چکڑ لگواتا تھا۔پر آج ارمان پریشان تھا وہ شیری کے ہوتے ہوئے ماہی کو کیسے ڈرائے گا؟ تھوڑی ہی دیر میں اسے موقع مل گیا تھا ۔ شیری کسی کام سے باہر جا رہا تھا۔ اسکے گیٹ سے باہر نکلتے ہی ارمان نے ماہی کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔ 
”ماہی بھابھی!!! ماہی بھابھی!!!“
ارمان زور زور سے اسے آوازیں دے رہا تھا۔
”ہاں ارمان کیا ہو گیا ہے؟ کیوں اتنی اونچی اونچی بُلا رہے ہو؟“ ماہی تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ پر اس نے وہاں آکر غلطی کر لی تھی کیونکہ اسکی نظروں کے سامنے ہی ارمان نے بکرے کی رسی کھول دی تھی اور وہ بکرا سیدھا ماہی کی جانب بڑھ رہا تھا۔ بس ابھی بکرے کا پہلا قدم اٹھا ہی تھا کہ ماہی کی چیخیں شروع ہو گئیں تھیں۔۔
”ارمان پلیز ایسا نہیں کرو دیکھو میں تمہارے اکلوتے بڑے بھائی کی اکلوتی بیوی ہوں ۔ پلیز رحم کرو ارمان “
ماہی رو دینے کے قریب تھی۔
”نہ نہ بھابھی آج آ پ کو اپنے شریر دیور سے کون بچائے گا؟“
ارمان بکرے کو اس کے کان سے کھینچ کر لا رہا تھا ماہی پیچھے ہوتی جا رہی تھی۔
ارمان بھی بعض نہیں آرہاتھا۔ وہ اس بات سے بے خبر ماہی کی طرف بکرا لیے بڑھ رہا تھا کہ اگر شیری کو اسکی ان حرکتوں کا علم ہو گیا تو وہ اسکا کیا حال کریگا۔ ماہی دیوار کے ساتھ لگ چکی تھی ۔اب ماہی اس سے چند ہی قدم کی دوری پر تھی ۔ وہ شریر مسکراہٹ لیے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماہی کو خوف سے پسینے آنے لگ گئے تھے۔ تب ہی ارمان کو پیچھے سے کسی نے زور سے تپھڑ مارا تھا۔ اسکی چیخ نکلی تھی
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
شیری کو اسکے ایک دوست کی کال آئی تھی انہوں نے کافی عرصے بعد ملنے کاپلان بنایا تھا۔ انکے گھر ہر دفعہ قربانی قصائی آ کر ہی کرتا تھا اس لیے قربانی کی اتنی فکر نہیں ہوتی تھی۔ گھر سے باہر نکل کر وہ تقریباً پانچ منٹ کی ڈرائیو کر چکا تھا جب اسے یاد آیا کہ وہ اپنا فون گھر ہی بھول آیا تھا۔ اسنے فوراً گاڑی ریورس کی تھی۔ ابھی وہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا کہ اسے ماہی کی چیخ سنائی دی تھی۔ اس نے گاڑی وہیں روکی اور بھاگ کر گھر گیا۔ گھر داخل ہوتے ساتھ اسکی نظر سب سےپہلے رسی پر پڑی تھی جو کھلی ہوئی تھی رسی کا ایک سرا  بکرے کی گردن کے ساتھ بندھا ہوا تھا اور دوسرا سرا کھلا ہوا تھا۔ اسنے وہاں ارمان کو غائب پایا جسے کچھ دیر پہلے ابو جان بکرے کی ذمہ داری سونپ کر گئے تھے۔ اسے ساری بات سمجھ آ گئی تھی ۔ اب سامنے ہی اسے دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ماہی اور بکرا لیے اسکے قریب جاتا ہوا ارمان دکھائی دیا۔ اسنے  دوڑ لگائی اور جا کر ارمان کی کمر پر زور سے تھپڑ مارا تھا۔ مردانہ ہاتھ کے تھپڑ کھانے کے بعد ارمان غصے سے مڑا تھا۔  اپنے سامنے شیری کو پا کر اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولے اب تو اسکی شامت پکی تھی۔ شیری اسے اپنی بیوی کو تنگ کرتے ہوئے رنگِ ہاتھوں پکڑ چکا تھا ۔ 
”شیری بھائی وہ میں“
ارمان سے گبھراہٹ سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا ۔  اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب اسکے ہاتھ سے بکرے کی رسی چھوٹ گئی تھی۔ ماہی کی نظر اس رسی پر پڑی تو دوبارہ اسکی چیخیں شروع ہو گئیں تھیں۔ وہ ڈر کر شیری کے پیچھے جا کر چھپ گئی تھی۔  ارمان کے ہوش بحال ہوئے تو اس نے جلدی سے رسی پکڑی اور  باندھ دی۔ 
”شیری اس سے پوچھو اس نے بھی تمہارے بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے مجھے کب سے ستارہا تھا“
  ماہی نے اسکی شکایت لگائی تھی
”کیا؟ یہ میں نے تمہیں کب ستایا ہے؟“
وہ بھلا خود پر الزام کیسے برداشت کر سکتا تھا ۔
”اب میرا منہ مت کھلوائیں آپ مسٹر شہریار سکندر علی خان“
ماہی بڑے سٹائل سے بولی تھی اور وہ تو اسکے اس سٹائل پر فدا ہی ہو گیا تھا۔ان دونوں کی بحث سے فائدہ اٹھا کر ارمان کب کا اپنی جان چھڑا کر بھاگ چکا تھا۔
”تو مجھے کیسے پتا چلے گا ماہی شہریار علی خان؟“ شیری نے بھی اسی کا سٹائل کاپی کیا تھا
”جب دل کرے گا بتا دوں گی ابھی میں جا رہی ہوں“ وہ بھی کہاں اتنی آسانی سے اسے بتانے والی تھی ۔
”یہ ارمان کہاں گیا؟ شیری تم نے اسے اتنی آسانی سے چھوڑ دیا؟“
ماہی کا سارا غصہ اس پر اترا تھا۔
”تم فکر نہ کرو اتنی آسانی سے معاف نہیں کروں گا۔  وہ گبھراہٹ میں اپنا وولٹ یہیں گرا گیا ہے اب رات کو دیکھنا ا سکے ساتھ کیا ہوتا“
”دیکھ لیں گیں تم کیا کرتے ہو“
ماہی بول کر اندر چلی گئی تھی۔
              ۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سب کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو شیری نے کھڑے ہو کر ایک اہم اعلان کیا تھا۔
”جی تو جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ آج عید ہے تو آج میں سب کو اپنے نکاح کی خوشی میں آئسکریم کھلانے جا رہا ہوں“
سب خوشی سے مسکرا دیے۔ جبکہ ماہی اسکی بات کا اصل مطلب سمجھ چکی تھی۔
”چلیں اب سب کے پاس ریڈی ہونے کے لیے صرف دس منٹ ہیں ۔جلدی کریں ۔ ایسا موقع بار بار نہیں ملے گا“
اس نے خالص فوجی والے انداز میں اپنا حکم سنایا تھا۔ سب ہی اٹھ گئے تھے۔
              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے بعد سب لوگ ہوٹل میں آئسکریم کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔ بس ارمان کی ہی تھوڑی سی رہ گئی تھی۔وہ بڑے مزے سے اپنی آئسکریم کھانے میں مگن تھا جب اسنے شیری کے ہاتھ میں اپنا وولٹ دیکھا اسکی آئسکریم اسکے گلے میں ہی رہ گئی۔
”میرا وولٹ!!!!“
اس نے فوراً اپنی جیب چیک کی اسکی جیب خالی تھی۔
”بھائی آئیندہ کبھی بھابھی کو تنگ نہیں کروں گاپلیز ایسا نہیں کریں۔“ اس نے رونے والی شکل بنا لی تھی یا پھر شاید اپنا وولٹ شیری کو ہاتھ میں دیکھ کرخودبخود بن گئی تھی۔
”نہ بیٹا آپکو سدھرنے کے لیے ایک بار مزہ چھکانا ضرری ہے“
شیری مسکراتا ہوا بولا تھا۔ ماہی بھی فاتحانہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”بھائی پلیز نہیں کریں نہ“
وہ منتوں پر اتر آیا تھا جبکہ باقی سب حیران بیٹھے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔
”کیا بات ہے شیری ؟کیوں اسے تنگ کر رہے ہو؟“  سعدیہ بیگم بولی تھیں۔
”کچھ نہیں چچی جان بس اسے سبق سکھا رہا ہوں۔ “
”پر بیٹا ہوا کیا ہے؟“
اب کی بار فرزانہ بیگم بولی تھیں۔
شیری کے بولنے سے پہلے ہی ماہی نے آج والا سارا واقعہ سب کے گوش گزار کر دیا تھا۔ سب اب ارمان کی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے ۔
”بھائی پلیز معاف کر دیں۔“ وہ اب شیری کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔جس سے وہاں پر موجود باقی لوگ بھی انکی طرف متوجہ ہو رہے تھے۔
”شیری اب بس بھی کرو“
سکندر صاحب نے اسے ڈانٹا تھا پر وہ بھی آخر فوجی تھا کسی سے ڈرتا نہ تھا ۔۔
”اوکے ابو جان میں ذرا بل پے کر کے آیا“ وہ ساتھ ہی اٹھا اور بل پے کرنے چلا گیا۔  اسنے ارمان کے وولٹ سے ہی پیسے نکال کر دیے تھے جس سے ارمان کا سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔  اسے بڑی مشکل سے گھر لے کر آئے تھے۔گھر آ کر شیری نے اسے اسکا وولٹ واپس لوٹا دیا۔ارمان نے اندر دیکھا تو اسکے پیسے ویسے ہی پڑے تھے۔
”تو بھائی اس میں  تو سارے پیسے موجود ہیں پھر آپ نے۔۔؟“
ارمان پرشانی سے بولا تھا
”بدھو میں نے پہلے ہی اپنے کچھ پیسے تیرے وولٹ میں رکھ دیے تھے اور تم سب کو لگا کہ میں نے تیرے پیسوں سے بل پے کیا ہے“
شیری نے ہنس کر بتایا تھا جس پر وہاں موجود سب گھر والے بھی ہنس دیے تھے۔ جبکہ ارمان اپنے بیوقوف بن جانے پر منہ بنا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
               

سن میرے ہمسفر (COMPLETED)Where stories live. Discover now