سن میرے ہمسفر Episode 7

1.8K 137 5
                                    

#SunMereyHumsafar
#ZohaAsif
#7thEpisode

شیری کے جانے کے بعد سب اداس ہو گئے تھے۔ سب اسکو بہت یاد کر رہے تھے  وہ تھا ہی سب کی آنکھوں کا تارا۔ اگر بات ماہی کی کی جائے تو وہ بھی اس سے دوبارہ ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ اسکا منکوح تو وہ کچھ دن پہلے بنا تھا پر وہ بچپن سے ایک دوسرے کے بہترین دوست رہے تھے۔ ایک دوسرے کی دل کی بات آسانی سے سمجھ جاتے تھے۔ ایک دوسرے کو تنگ کرنا، شکایتیں لگانا، اور الٹے سیدھے ناموں سے بلانا تو انکی دوستی کا حصہ تھا۔ پر خیال بھی ایک دوسرے کا وہ سب سے بڑھ کر رکھتے تھے۔
                  ۔۔۔۔۔۔
شیری کو گئے ہوئے کچھ ہی ہفتے ہوئے تھے۔ سب بظاہر تو اپنی روٹین میں واپس آگئے تھے پر اس کو یاد کرتے تھے وہ سب اسکو بھلا بھی کیسے سکتے تھے انکی چھوٹی سی فیملی کا اہم حصہ تھا وہ اس کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے تھے۔  کبھی کبھار اسکا فون آ جاتا تھا اور سب کا حال احوال پوچھ لیا کرتا تھا ۔ ماہی کو آ ج کالج کی طرف سے ایک پروجیٹ ملا ہوا تھا۔ وہ اس پر کام کرنے میں مصروف تھی۔ پہلے تو وہ اپنے  سارے ایسے کام شیری کی مدد سے کیا کرتی تھی پر آج اسے اکیلے ہی سب کرنا تھا اس لیے اسے کافی مشکل ہو ہی تھی۔ وہ تقریبًا دو گھنٹے سے مسلسل کام میں لگی ہوئی تھی ۔  اسے پانی کی طلب محسوس ہوئی  ۔ سائڈ ٹیبل پر رکھا جگ بھی خالی ہو گیا تھا۔ وہ جگ میں پانی ڈالنے کیچن میں جا رہی تھی جب لاؤنج میں رکھے لینڈ لائن پر فون آیا تھا اس نے جگ ٹیبل پر رکھا اور فون اٹھایا۔
”ہیلو؟“ ماہی نے شروعات کی تھی
”تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی پہلے سلام لیتے ہیں ۔ پر ماہا شہریار علی خان کسی کی سن لیں تب ناں۔ خیر اسلام علیکم“
ماہی کو ایک دم سے بہت سی خوشیوں نے آ
گھیرا تھا۔ اس نےپہلی بار اسے ماہا شہریار علی  خان کہہ کر بلایا تھا وہ شیری کی آواز تھی اور وہ اسکی آواز سنتے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ اتنے عرصے سے کوئی بات نہیں ہو ئی تھی انکی گھر والوں کے سامنے اگر بات ہوتی تو انہیں مجبوراً تمیز سے بات کرنی پڑتی تھی ۔ اب آج اتنے عرصے بعد انہیں سکون سے بات کرنے کا موقع ملا تھا جسکا وہ پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔
”شیری اللہ کے بندے صبر بھی کریں آپ وعلیکم سلام“
ماہی نے جان بوجھ کر آپ کا لفظ استعمال کیا تھا۔
”ہائے اللہ جی  آپ کہا تم نے مجھے ؟لگتا ہے مشرقی بیوی بننے کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ ہائے میں خوشی سے مر ہی نہ جاؤں“
شیری کے الفاظ سے ہی خوشی اور شرارت محسوس ہو رہی تھے۔
شیری بکواس بند کرو کچھ سوچ کر بھی بولا کرو پر نہیں جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہو تمہیں کسی کے جذبات کا کوئی خیال نہیں“
”اچھا سوری سوری“
وہ ایک دم شرمندہ ہوا تھا کیونکہ اسنے ماہی کی آواز کی لرزش محسوس کر لی تھی۔
”نہیں یہاں ہم سارا دن تمہاری سلامتی کی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور تم ہو کہ ۔ خیر چھوڑو میں بھی کسے سمجھا رہی ہوں“
ماہی کی آواز رندھ گئی تھی۔ وہ پہلے ہی اس سے بات کرنے کے لیے بے چین تھی اور جب بات ہو رہی تھی تو وہ کچھ بھی بولے چلا جا رہا تھا
”اچھا ناں ماہی پلیز سوری ناں ۔ اب دھیان رکھوں گا“ شیری اس کو منا رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ماہی جتنا جلدی کسی سے ناراض ہوتی تھی اتنی ہی جلدی مان بھی جایا کرتی تھی۔ وہ دل کی بہت صاف تھی۔ وہ جانتا تھا کہ پہلے وہ نماز کی اتنی پابندی نہیں کرتی تھی پر اب گھر والوں سے اکثر سنتا رہتا تھا کہ اب وہ نماز بھی پابندی سے پڑھا کرتی تھی کئی کئی دیر دعائیں مانگا  کرتی تھی۔
”پہلے سوری بولو“
ماہی کی آواز آ ئی تھی۔
”کب سے سوری ہی بول رہا ہوں یار“
”اچھا چلو یہ بتاؤ کہ کب آ رہے ہو؟“
ماہی کی آ واز سے ہی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس سے ملاقات کی کتنی شدید تمنا رکھتی ہے
”کیوں تمہیں میری یاد آ رہی ہے؟“
”کب نہیں آتی یہ پوچھو“
ماہی بے دھیانی میں کیا بول گئی تھی وہ خود بھی بعد میں سمجھی تھی ۔
”کیا کہا تم نے؟“
شیری بھی حیران ہوا تھا کہ وہ کیا بول گئی تھی ۔
”کچھ نہیں میرا مطلب ہے کہ گھر میں سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ “
ماہی نے فوراً بات کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا ماہی نے  تائی اماں کو آ تے دیکھ کر فون انہیں تھما دیا اور خود بھاگ گئی تھی۔
             ۔۔۔۔۔۔۔
وہ فون پکڑانے کے  بعد فوراً  اپنے کمرے میں آئی تھی۔ وہ اپنے الفاظ  پر خود حیران تھی۔ وہ شیری کو پہلے سے بہت بڑھ کر یاد کرتی تھی پر آ ج تک اس نے خود اپنے آپ سے بھی اپنی محبت کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اسکا دل کب سے شیری کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔  پر وہ ہمیشہ سے ایسے خیالات پر دھیان نہ دیتی تھی۔ اور آج بھی اپنے دل کی بدلتی ہوئی حالت پر اس نے دھیان نہ دیا تھا۔
                ۔۔۔۔۔۔
”ابو جان شیری بھائی کب آئیں گیں؟“
آج گھر کے سب لوگ محفل سجا کے بیٹھے تھے۔ سب ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے جب ارحان نے سکندر صاحب سے سوال کیا تھا۔ ماہی کا دل بھی اس کے سوال پر بے چین ہو گیا تھا
”بیٹا پتا نہیں اس نے ابھی تک تو کوئی خبر نہیں دی اپنےآنے کی“
سکندر کی آواز آئی تھی۔
”ہو سکتا ہے بھائی نے اپنے آنے کا سرپرائیز دینا ہو “
ارمان نے اپنے خیال کا اظہار کیا تھا۔
”ہاں بھئی ہو سکتا ہے وہ ہمیشہ سے ہی ایسے سرپرائیز دیتا رہا ہے“
حمدان صاحب نے بھی ہاں میں سر ہلایا تھا۔
”اوو شاید بھائی ماہی بھابھی کی سالگرہ پر آ جائیں پرسوں  “
ارحان نے اپنے دل میں آتے خیال کو الفاظ میں بیان کیا تھا
”ہاں آ ہی نہ جائے وہ بندر“
ماہی نے منہ بسور کر کہا تھا جس پر سب نے اسے گھور کر دیکھا تھا
”ماہی اب اس کا نام تمیز سے لیا کرو شوہر ہے وہ تمہارا“
سعدیہ بیگم نے اسے ڈانٹا
”پر امی جان ابھی وہ صرف منکوح ہے۔ اور ویسے بھی میں نے اسکا نام تو لیا ہی نہیں“
ماہی معصومیت سے بولی تھی
”ہاں تو شوہر بھی عنقریب وہی بنےگا انشاءاللہ۔ اور چاہے وہ اسکا نام ہو یا اس کے متعلق کوئی بات تم تمیز سے مخاتب کیا کرو اسے“
”اچھا ناں “ وہ چڑ گئی تھی۔ اور باقی سب مسکرا دیے تھے۔
                   ۔۔۔۔۔۔
”اسلام علیکم“ شیری کی توقع کے عین مطابق فون ارمان نے ہی رسیو کیا تھا کیونکہ رات کو سب جلدی سو جاتے تھے اور ارمان دیر رات تک پڑھنے کا عادی تھا اس لیے اس وقت وہی جاگ رہا ہوتا تھا
”وعلیکم اسلام ۔مجھے معلوم تھا کہ اس وقت فون تم ہی اٹھاؤ گے اس لیے اس ٹائم کیا“
شیری کی آواز ابھری تھی
”جی جی بولیں بھائی جان خیریت؟“
”ہاں ہاں سب خیریت۔ اچھا اب دھیان سے پلان سنو“
”جی سنایے“
شیری نے اسے سارا پلان سمجھایا تھا اور اسکی توقع کے عین مطابق وہ اب اپنے لیے کچھ ڈیمانڈ کر رہا تھا
”چلیں بھائ جان ڈن کریں۔ پر یہ سب کرنے کا مجھے کیا ملے گا؟“
“وہ میں آ کر دوں گا ۔ ٹھیک ہے پر دھیان رہے ماہی کو بلکل خبر نہیں ہونی چاہیے۔“
”جو حکم“
ارمان نے اچھے بچوں کی طرح اسکی بات مانی تھی
”چل اب سو جا ساری رات مریم سے بات نہ کرتا رہیں“
”بھائی جان آپ کو کیسے پتا چلا؟“
”بیٹا بڑا بھائی باپ کے برابر ہوتا ہے نظر رکھتا ہوں میں تیری حرکتوں پر“
”اچھا کسی کو بتائیے گا نہ اب پلیز“
”ہاں تو فکر ہی نہ کر ۔ اپنی رخصتی کے بعد تیرا کچھ کرتا ہوں ۔ خیر میں فون رکھتا ہوں اللہ حافظ “
”او بھائی جان تُسی گریٹ ہو اللہ حافظ“
                   ۔۔۔۔۔۔۔
DON'T COPY / PASTE WITHOUT WRITER'S PERMISSION

سن میرے ہمسفر (COMPLETED)Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora