سن میرے ہمسفر Episode 15

1.4K 116 2
                                    

#SunMereyHumsafar
#ZohaAsif
#15Episode

اور ہنستے مسکراتے وقت یوں ہی گزر گیا تھا شیری کی ٹریننگ بھی اب مکمل ہو چکی تھی ماہی بھی اپنی میڈیکل کی پڑھائی پوری کرکے ہاؤس جاب کر رہی تھی ۔شیری کی پوسٹنگ لاہور میں ہوئی تھی جس سے وہ کبھی کبھی گھر میں آکر سب سے مل جایا کرتا تھا ۔ابھی ماہی اپنی ہاؤس جاب سے گھر واپس آئی تھی وہ بہت تھکی ہوئی تھی اس نے اپنے لئے جوس بنایا ابھی وہ جوس بنا کے اسے پینے کی نیت سے کرسی پر بیٹھی تھی کہ اس کے بیگ سے موبائل کی آواز آئی تھی۔ ماہی جوس کو وہیں چھوڑ کر اپنے بیگ سے فون نکال کر سننے لگی فون فاراکا تھا فارا سے وہ روز اپنے دن بھر کی باتیں شیئر کیا کرتی تھی آدھے گھنٹے بعد جب اس کا فون بند ہوا تو واپس کچن میں اپنا جوس پینے گئی کچن میں جاتے اس کے قدم وہیں تھم گئے تھے جب اس نے شیری اور ارمان کو اس کا سارا جوس پیتے ہوئے دیکھا ماہی نے آنے میں دیر کر دی تھی اس کے جوس کا آخری گھونٹ شیری لے چکا تھا
" شرم نہیں آئی تم دونوں کو ایسا کرتے ہوئے"
وہ غصے سے بولی تھی ۔
"او ماہی تم نے بنایا تھا بہت ہی مزے کا تھا شکریہ یار"
شیری نے اس کے جوس کی تعریف کی تھی پر ماہی کو یہ تعریف بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی ۔
"یہ جوس میں نے اپنے لئے بنایا تھا تم دونوں کے لئے نہیں "
ماہی نے ان دونوں کو حقیقت بتائی پر ان دونوں کو کہاں اثر ہونے والا تھا ۔
"کوئی بات نہیں بھابھی اب تو جو س پیاگیا اب آپ اور بنا لیں "ارمان نے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا
"جو س تو اور بنانا ہی ہے ارمان اب یہ تمہارا بھائی اور بنائے گا "
ماہی نے اپنا حکم سنایا تھا ۔
"او ہیلو ماہی ہوش میں تو ہو ؟کسے کہ رہی ہو جوس بنانے کا !"
شیری حیران ہوا تھا دوسروں کو حکم دینے والا کیسے آج کسی کا آرڈر مان سکتا تھا
"پورے ہوش میں ہوں۔ تم ہی مجھے جوس بنا کر دو گے "
ماہی نے اسے دوبارہ بتایا ۔
"او میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنے والا "شیری نے اس سے صاف انکار کردیا
"تو تم نہیں بناؤ گے ؟"ما ہی جیسے کنفرم کر رہی تھی
"بالکل بھی نہیں "شیری بولا تھا
ماہی نے ساتھ پڑی ہوئی چھری اٹھائی اور اسکو دکھائی۔
"اگر تم نے مجھے جوس ابھی پانچ منٹ میں نہ بنا کر دیا تو نتائج کے تم خود ذمہ دار ہو گے"
ماہی نے اسے دھمکی دی تھی
شیری فوراً سیدھا ہو کر کھڑا ہوا ماہی سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی تھی
"تمہیں لگتا ہے کہ میں ڈر جاؤں گا ایسے ؟"
شیری نے اس کا مذاق اڑایا تھا
"یہ چھڑی میں نے پکڑی نہیں ہے اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تمہیں مار دوں گی "
شیری اب اس کے چہرے پر نظر آنے والے پختہ عزم سے ڈر گیا تھا
" اوکے اوکے بنا رہا ہوں اس کو تو رکھ دو "
شیری بالآخر مان گیا تھا ۔
اگلے پانچ منٹ میں اسکے میز پے جوس تیار تھا ۔شہریار جس نے ابھی تک اپنے بہت سارے دشمنوں کو درد ناک شکست دی تھی وہ آج اپنی بیوی کی دھمکی سے ڈر گیا تھا ۔کیونکہ وہ جانتا تھا اگر ماہی نے ایسا کہا تھا تو وہ کر بھی سکتی تھی ۔
ماہی نے جوس کا گلاس پکڑ کر ان دونوں کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے بڑے کمرے میں آج سب بڑوں نے پھر سے محفل جمائی ہوئی تھی آج کل گھر میں سب سے زیادہ اہم موضوع ماہی اور شہریار کی رخصتی تھی ۔لیکن وہ دونوں ہی اس سے بے خبر تھے ۔سب اس وقت کمرے میں بی جان کے بولنے کا انتظار کر رہے تھے ۔
"بی جان اب شیری بھی اپنی ٹریننگ مکمل کر چکا ہے اور ماشاءاللہ ماہی بھی اپنی ہاؤس جاب شروع کر چکی ہے اب دونوں کے رخصتی کا انتظام کرنا چاہیے "سکندر صاحب بولے تھے ۔
"جی بی جان میرا بھی یہی خیال ہے ۔اب بچوں کی رخصتی کر دینی چاہیے "حمدان صاحب کی بھی آواز آئی تھی
"بیٹا مجھے تم دونوں کے اس فیصلے سے کوئی اعتراض نہیں پر بچوں کی رضامندی نہایت اہم ہے ان سے ان کی رضامندی پوچھ کر ہی ہم کچھ کرتے ہیں ۔اگر وہ رضامند ہوں تو ٹھیک اڑھائی ہفتے بعد ان کی رخصتی رکھ دیتے ہیں "
بی جان کی آواز کمرے میں ابھری تھی ۔
"جی بی جان جیسا آپ کہیں"سب ایک ساتھ بولے تھے ۔
"ٹھہریے میری ایک شرط ہے "فرزانہ بیگم بولی تھی
"ہاں کہو بیٹا "بی جان نے انہیں بولنے کی اجازت دی ۔
"میں چاہتی ہوں کہ میری بہو جہیز میں ۔۔۔۔"
ابھی ان کے باقی الفاظ منہ میں تھے کہ سکندر صاحب بول پڑے۔
"فرزانہ ہوش کرو میں اپنے بھائی سے کیا جہیز لوں گا ؟"
"سکندر اس کو بولنے دو پہلے"
میری جان نے انہیں ٹوکا تھا ۔
"ہاں بولو بیٹا"
بی جان نے انہیں دوبارہ بولنے کی اجازت دی ۔
"میں یہ کہہ رہی تھی کہ میری بہو جہیز میں اپنے ساتھ بہت سارا پیار، لاڈ، شرارتیں اور خلوص لے کے آئے اور سعدیہ تم بھی اسے مت میچور ہونے کی نصیحتیں کیا کرو "
ان کی بات مکمل ہونے پر سب کے پریشان چہرے ایک دم سے مطمئن ہو گئے تھے ۔جبکہ سعدیہ بیگم منہ بنا کر بولی تھی
"جی بھابھی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شیری کیا تم نے سنا کہ گھر والے کیا بات کر رہے ہیں ؟"
وہ جو مگن انداز میں اپنے کام میں مصروف تھا ماہی کی غصے سے بھری آواز سن کر پیچھے کو مڑا
"کیا کہہ رہے ہیں یار ؟"شیری وہیں بیٹھا بیٹھا پوچھ رہا تھا ۔
"یہ کہ آپ ہماری رخصتی کردی جائے۔ کیا تم نے سنا؟ یہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟" ماہی کی پریشان آواز کمرے میں آئی تھی
"تو اس میں کیا حرج ہے ؟کیا تمہیں اس سے کوئی پرابلم ؟"شہریار نے دو ٹوک سوال کیا تھا
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں پر اتنی جلدی یہ سب کیوں ؟"ماہی کی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی
شیری اٹھ کے اس کے قریب گیا تھا ماہی دو قدم پیچھے ہٹی شیری بھی دو قدم آگے گیا تھا یوں وہ بالکل دیوار کے ساتھ جا لگی تھی
"ہاں اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تم ؟"
"وہ میں ۔۔۔۔"
گھبراہٹ میں اس سے کچھ بولا ہی نہ جا رہا تھا
"کیا وہ میں ؟"
شیری کو تو جیسے اسے ستانے میں مزا آتا تھا
"میں یہ کہہ رہی تھی کہ رخصتی میں تھوڑی تاخیر کر دیتے ہیں "ماہی اپنے مدعے میں آئی تھی
"اس کی وجہ جان سکتا ہوں میں ؟"
شیری نے پوچھا تھا ۔
"نہیں "ماہی کی آواز آئی تھی
"تو ٹھیک ہے طہ ہوا رخصتی پورے اڑھائی ہفتے بعد ہی ہوگی "وہ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ ماہی وہیں کھڑی بےبسی سے اسے جاتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سن میرے ہمسفر (COMPLETED)Where stories live. Discover now