Bab no :15

1K 77 11
                                    

"مجھے ضرور لگا تھا کہ وہ تم ہی ہو مگر وہ تم نہیں تھی اس نے شورٹ ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی باب کٹنگ میں پونی میں بندھے لائیٹ براؤن بال وہ شکل سے ہو بہو تم جیسی تھی مگر اس کے بال اور اس کا انداز بلکل چینج تھا وہ سکیٹ بورڈ چلاتی تیزی سی چیونگم چباتی میرے پاس سے گزرنے لگی جب اچانک سے وہ رکی اور اس نے چہرہ ہلکا سا ٹیڑھا کر کے مجھے دیکھا اور مجھے اندازہ ہوگیا وہ تم نہیں کیونکہ اس کی گردن پہ تل تھا اور ٹھوڑی بلکل صحیح یعنی وہ تو سب کی ہی صحیح ہوتی ہے مگر تمہاری ٹھوڑی پہ کٹ ہے " سونی نے بےاختیار اپنی ٹھوڑی پہ موجود کٹ پہ ہاتھ لگایا

"وہ میرا معائنہ کرنے کے بعد خالص اردو میں بولی

"پاکستانی ہو؟" مجھے حیرانگی ہوئ وہ دکھنے میں انگریزوں کا ہی لک دیتی تھی مگر پھر سر جھٹک کہ اثبات میں سر ہلایا جس پہ اس نے دلکشی سے مسکرا کر اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا

"میں بھی " میں نے بھی اس کا ہاتھ تھام لیا

"شکل سے تو ویسے تم انگریزوں کا لک دیتے ہو بٹ حسن مشرقی ہی ہے" وہ پھر سے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھ کہ بولی

"ارے لو میں۔ نے تو تمہیں اپنا انٹرو ہی نہیں دیا میں سوبیا اور یہاں پہ ہر نئے آنے والے کی دوست سو تمہاری بھی اور تم" اس کے بات کرنے کے انداز سے مجھے یقین ہوگیا کہ اسے بولنے کی بیماری لاحق ہے میں دھیرے سے مسکرایا کہ کہاں تم اتنی چپ چپ سی اور یہ پوری پٹاخہ

"میں حنین منیب خان نائس ٹو میں یو" میری بات پہ اس نے ناجانے منہ کیوں بنایا مگر اس کی اگلی بات نے اس کے منہ بنانے کی وجہ بتا دی

"کوئ نائس وائس نہیں چلے گا میں ٹریٹ لیتی ہوں ٹریٹ" اس کے انداز پہ میں کھلکھلایا

"اوکے میڈم " پھر کچھ دنوں بعد ہی ہم بہت فرینک ہوگئے کیونکہ وہ ایک بچی کہ سی ہی تھی اس کے سارے شوق بچوں والے تھے اور وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ خوش ہوجاتی تھی اس نے ہی مجھے آرفہ سے ملوایا اور آرفہ کی آنکھوں میں مجھے میرے لیے ایک الگ ہی چمک تھی بٹ میں نے اسے نظرانداز کرنے میں ہی عافیت جانی مگر وہ کوئ انتہائ ہی چپکو لڑکی تھی پھر جیسے جیسے میری ٹریننگ کے دن قریب آرہے تھے ویسے ویسے بہت عجیب راز مجھ پہ آشکار ہوئے جن میں سے پہلا وہ تھا جب میں ان کے گھر گیا او ر میں نے فون پہ کسی کو تمہارا نام لیتے سنا میں نے یہ سوچ کہ سر جھٹکا کہ دنیا میں ہزار سونیا ہے کوئ اور ہوگی مگر جب میں نے روحیل شاہ کا نام سنا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے یہ بات ہم سب کو شروع سے ہی معلوم تھی کہ تم روحیل شاہ کی بیٹی ہو پھر کڑیاں سے کڑیاں ملانے پہ مجھ پہ یہ راز پھی کھل گیا کی سوبیا تمہاری وہ بہن تھی جسے ہم مرا ہوا سمجھتے تھے مگر یہ بات میرے لیے نہایت ہی عجیب تھی کہ بیا تو شاہ جی کو اپنے والد سمجھتی ہے پھر مجھ پہ یہ سب کڑیاں جاننے کا جنون سوار ہوگیا میں سوبیا کی مدد سے ان کے گھر رہنے لگا اور مختلف طریقوں سے سچ جاننے کی کوشش کرنے لگا پر مجھے زیادہ کچھ معلوم نہ ہوسکا لیکن یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ شاہ جی بیا سے کوئ کام نکلوانے کے بعد اسے مروا دیں گے میں نے بیا کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر بےسدھ تبہی مجھے شاہ جی نے آرفہ سے شادی کرنے کی تجویز دی جسے میں نے ٹھکرا دیا اس کے بعد تو جیسے آرفہ انگاروں کی زد میں آگئ اس نے مرنے کی کوشش بھی کی مگر سمیر نے اسے بچا لیا سمیر شاہ جی کے ساتھ بچپن سے تھا اور وہ آرفہ کو پسند بھی کرتا تھا مگر وہ کبھی کہنے کی ہمت نہ کرسکا دوسری طرف شاہ جی کو لگنے لگا کہ میں بیا میں انٹرسٹڈ ہوں مگر میرا خدا گواہ ہے وہ ہمیشہ میری بہن جیسی تھی ہاں وہ شکل سے ہوبہو تمہاری ڈٹو کاپی تھی مگر ذہن سے وہ ایک بچی تھی نہ اس نے میرے بارے میں کوئ غلط سوچ رکھی تھی نہ میں نے ویل اس دن میری واپسی تھی کیونکہ دو دن بعد میرا ٹیسٹ تھا میں ایئر پورٹ پہ بیٹھا تھا جب سوبیا کا میسج آیا میں حیران تھا کہ ابھی تو میں اس سے مل کہ آیا تھا لیکن مجھے کسی انہونی کا الہام ہو چکا تھا میں جیسے جیسے میسج پڑھتا گیا میرا دماغ گھومتا گیا

《completed》سفر (درد سے فکر تک) ۔۔۔۔Where stories live. Discover now