BAB no:14

882 76 4
                                    

جب اسے ہوش آیا وہ ہسپتال کے بستر پہ لیٹی تھی اور سامنے ہی حنین(گلشان) بیٹھا تھا سونیا نے اسے دیکھ کر چہرہ دوسری طرف موڑ لیا وہ دھیرے سے مسکرایا

"ابھی بھی میں تمہارے برین کو ہر صدمہ سہنے کے لیے ریڈی نہیں کر پایا" اس کی بات پہ سونیا تلخی سے مسکرائ

"کیا بات ہے جس شخص نے میری یہ حالت کی وہیں اسے سدھارنے کی بات کر رہا ہے ۔۔۔۔ ایک بات بتاؤ میں کیا کوئ پڑی ہوئ چیز تھی۔۔۔۔۔"

"سونیا یار ایکسپلینیشن کا موقع تو دو"

"موقع۔۔۔۔۔موقع چاہیے تمہیں ۔۔۔۔ ارے موقع تو مجھے بار بار قسمت دیتی ہے کہ میں جینے کی امنگ رکھوں اور کوئ آکر مجھے دھتکار دے مجھے اونچائ سے اس طرح گرائے کہ مجھے پھر سے اٹھنے میں اتنی ہی تکلیف ہو میں بار بار مرنے کی دعا کروں لیکن موت بھی مجھے ملے نا۔۔۔۔ پتا ہے کیا میں نا ہوں ہی اس قابل کہ مجھ سے کھیلا جائے تم نے ۔۔۔۔ حنین تم نے مجھے ہمیشہ توڑا جانتے ہو سونیا خان کو اپنی ذات سے جو پیار تھا اپنے نام کے ساتھ وسیم بابا کا نام جو سونیا کبھی فخر سے بولتی تھی تمہاری ۔۔۔۔صرف تمہاری وجہ سے آج میں اپنے نام کے ساتھ ان کا نام نہیں بول سکتی تم نے مجھ سے میری شناخت ہی چھین لی ایک مرتبہ مجھ سے میری شناخت بچپن میں اس شخص نے لی تھی آئ ڈونٹ نو وائ بٹ ہی ڈڈ دس اور پھر دوسری مرتبہ تم نے بھی مجھے یتیم کردیا میں۔۔۔۔۔میں ہر کسی سے بدگمان ہو سکتی تھی لیکن ایک واحد تم وہ شخص تھے جس کو میں نے ہمیشہ دل میں رکھا تمہاری وجہ سے خود پہ ستم کیا سب کچھ چھوڑ دیا زندگی نے نیا موقع دیا اسے جیا لیکن گھٹ گھٹ کے پھر تم آئے میری زندگی میں گلشان کا ایک نیا مقام پیدا کیا اور آج مجھ سے پھر میری ذات کی آئیڈینٹیٹی چھین لی ۔۔۔۔ مجھے بتاؤ میں کون ہوں بتاؤ ۔۔۔۔میں سونیا حنین خان ہوں ، سونیا گلشان خان ہوں، سونیا وسیم خان ہوں، سونیا روحیل شاہ ہوں ، سونیا بی.بی ہوں میں کون ہوں مجھے بتاؤ میں کون ہوں؟" وہ بول نہیں رہی تھی چیخ رہی تھی پھر اچانک اس نے گلشان کی طرف دیکھا

"ی۔۔۔۔یہ ۔۔۔ک۔۔۔کیسے۔۔۔م۔۔۔ممکن ہے تم حنین نہیں ہوسکتے اس کی آنکھیں بھوری تھیں اور شکل بھی چینج تھی۔۔۔ت۔۔۔تو تم حنین کیسے ہو" وہ زور زور سے اپنا سر بیڈ پہ ادھر ادھر پٹخنے لگی جب حنین فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف آیا اور اس کو کندھے سے پکڑ کہ ریلیکس کرنا چاہا مگر وہ اور بھڑک اٹھی

"چھوڑو م۔۔۔۔مجھے ہاتھ مت لگانا"

"سونیا یار میری بات تو سن لو " وہ بے بسی سے بولا سونیا گہرے گہرے سانس لینے لگی

"پندرہ منٹ۔۔۔۔تمہارے پاس جسٹ پندرہ منٹ ہیں جو کہنا ہے کہو اور یہاں سے چلے جاؤ" سونیا کا چہرہ کسی بھی احساس سے عاری تھا گلشان کے گہرا سانس لیا پھر بولنا شروع ہوا

"یہ کھیل تمہارے والد یعنی کے روحیل شاہ سے شروع ہوا تھا روحیل شاہ اور شاہ جی جن کا اصل نام صارق تھا وہ دونوں کزنز تھے صارق شاہ کے والدین کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ بھی روحیل شاہ کے ساتھ رہنے لگے ان کو اس گھر میں گھر کے فرد کی طرح ہی ٹریٹ کیا گیا کیونکہ وہ روحیل شاہ کے والد کی اکلوتی بہن کی آخری نشانی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ صارق شاہ کو ان کی محبت چاہت سب ہمدردی لگنے لگی پھر ان کی وہ عمر آئ جب عموماً لڑکے پیار کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر ایک کے نہیں ہزاروں کے وہ بھی آئے دن یونی میں طرح طرح کی لڑکیوں کے ساتھ نظر آتے تاہم وہ الگ بات تھی کہ وہ اپنی حدود میں رہنا جانتے تھے پھر وہ ہوا جو اس کھیل کی بنیاد بنی یونی میں ربعیہ یعنی کے تمہاری والدہ پڑھنے کے گرز سے آئیں تھیں وہ دکھنے میں بہت زیادہ تم سے مشاہبت رکھتی تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ تم سے بھی خوبصورت تھیں تو غلط نہ ہوگا ان کو دیکھتے ہی صارق شاہ ان کے پیار میں گرفتار ہوگئے مگر گھر والوں نے اسے بس ایک وقتی جزبہ سمجھا اور زیادہ غور نہ دیا صارق کو یہ بات دل میں خنجر کی سی لگی کہ جب انھوں نے اپنے ماموں سے ربعیہ کے رشتے کی بات کی تو انھوں نے صاف الفاظ میں یہ کہہ کہ منع کردیا کہ "تمہیں تو آئے دن پیار ہوتا رہتا ہے ایسے ہم کسی کی بیٹی کی زندگی تباہ نہیں کرسکتے" وہ جانتے تھے قصور ان کا ہے مگر نفس کے ہاتھوں مجبور اپنا سارا قصور اپنے ماموں پہ ڈال دیا وہیں دوسری طرف ربعیہ روحیل شاہ کے عشق میں گرفتار ہوگئیں اور جب روحیل شاہ نہ مانے تو انھوں نے خودکشی کی کوشش کی جس پہ بروقت روحیل نے ہی انھیں روکا پھر آہستہ آہستہ روحیل شاہ کا دل بھی ان کی جانب مائل ہونے لگا اور آخر بات شادی کو پہنچ گئ چونکہ وہ لڑکیوں سے دور دور رہنے والے مرد تھے اس لیے انکی پسندیدگی کو سیریئلسلی لیا گیا مگر صارق شاہ کے دل میں جیسے کسی نے خنجر سے دوسرا وار کیا جب انھیں ان دونوں کی شادی کا معلوم ہوا دل کے ہارے جواری کی مانند وہ ٹوٹ گئے پھر پڑھائ کے گرز سے لندن چلے گئے کیونکہ اب پاکستان ان کے لیے کچھ بھی نہیں تھا پھر وہ اپنے ماموں کی بیماری کا سن کر لوٹے اور ان کے ماموں نے مرنے سے پہلے صارق شاہ کو ایک ان چاہے رشتے میں باندھ دیا جس کو انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نبھایا ان کی زوجہ بہت ہی حساس اور نرم دل کی مالک تھیں پھر جس دن پراپرٹی تقسیم ہوئ اس دن صارق کے دل میں روحیل کے لیے زہر بھر گیا کیونکہ ان کے حصے میں جو زمین آئ تھی اس کی حالت چند دنوں سے بہت خراب تھی اور اوپر سے صارق شاہ نے اس زمین کو تباہ کر دیا وہ بیروزگار ہوگئے روحیل شاہ نے بھائ کا احساس کرتے ہوئے انہیں اپنی زمین پہ کام کرنے کی اوفر کی مگر ان کو یہ سب ہمدردی لگی اور وہ انھیں ٹھکرا کر فاقے کی زندگی گزارنے لگے انھیں دنوں آرفہ کی پیدائش کے دن تھے جب وہ ایک گینگ میں شامل ہوگئے انھوں نے صارق کو شاہ جی کا نام دیا اور ایک بےحس بندہ بنا دیا جب آرفہ پیدا ہوئ تو چالیس روز بعد شاہ جی گھر لوٹے اور اپنی بیٹی سے خوب لاڈ کیا البتہ اب وہ روحیل شاہ کا سب کچھ ہتھیانا چاہتے تھے آرفہ کی پیدائش کے چند روز بعد ہی سونیا اور سوبیا بھی اس دنیا میں آگئیں صارق کو اس وقت صرف پیسہ پراپرٹی چاہیے تھی اس نے کسی کا بھی خیال نہ کیا اور فجر کے وقت گھر سے پراپرٹی کے کاغزات چروا کر گھر کو آگ لگا دی روحیل اس وقت تم دونوں کو لیے والک پہ گئے تھی گھر میں ربعیہ اکیلی تھیں جیسے ہی وہ گھر کے قریب پہنچے تو آگ دیکھ کہ تم دونوں کو ایک میڈ کو پکڑ ایا اور اسے چند ہدایات دے کر ربعیہ کو بچانے کو چل دیے اور نتیجا دونوں اپنے آخری سفر کو روانہ ہوگئے میڈ تم دونوں کو لیے آسم ولا کے لیے روانہ ہوئ جبکہ صارق پراپرٹی کے کاغزات دیکھ کہ بھونچکا رہ گیا کیونکہ اس کے مطابق جب تک تم دونوں اٹھارہ سال کی ہو کر پراپرٹی اپنا یا چھوڑ نہیں دیتی اس سے قبل ہر صورت میں پراپرٹی یتیم خانے جانی تھی لیکن پھر اسے معلوم ہوگیا کہ تم دونوں بچ چکی کو اور اس نے رستے میں ہی تم دونوں کو آٹھوا لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی زوجہ کو ان کے کالے کارناموں کا پتہ چل گیا وہ تمہیں بھگوانے میں تو کامیاب رہی مگر سوبیا کو بھگانے سے پہلے ہی شاہ جی نے انھیں موت کی گھاٹ اتار دیا پھر شاہ جی سوبیا کے بڑے ہونے ک انتظار کرنے لگے اور اسے اپنی جھوٹی محبت میں پھنساتے رہے ایسے میں وہ اپنی اصل بیٹی کا وجود بلکل فراموش کر چکے تھی اور آرفہ بچپن ہی سے تم دونوں سے سخت نفرت کرنے لگی وقت گزرتا گیا شاہ جی کتنے ہی لوگوں کو مارتے گئے پھر وہ وقت آیا جب میں نے فوج میں جانے کی زد کی مگر بابا نہیں مانے میں نےپپا(وسیم) کو راضی کر لیا اور انھوں نے مجھے فل وقت لندن بھیجا کیونکہ فوج کے ٹیسٹ سیشن میں ابھی وقت تھا اور ہمیں سب کو یہ یقین دلانا تھا کہ میں وہاں بزنس پڑھ رہ ہوں ان دنوں میں مزے میں تھا مگر میرا دل مجھے تم سے محبت کا باور کروا چکا تھا اور مجھے انتظار تھا کہ کب میں لوٹوں گا اور تم میری ہو جاؤ گی میں بابا کو دکھانے کے لیے یونی بھی چلا گیا کہ انھیں شک نہ ہو تب میں وہاں تمہیں دیکھ کہ حیران رہ گیا پھر میں نے کہا سچ میں لگتا ہے میں تمہاری محبت میں دیوانا ہوگیا ہوں لیکن جب میں نے غور کیا تو وہ تم ہی تھی ہاں البتہ تمہارا انداز سب بدلا بدلا تھا"

"لیکن میں تو کبھی لندن آئ ہی نہیں" سونی کی بات پہ وہ دلکشی سے مسکرایا

"تو کس نے کہا وہ تم تھی؟"

《completed》سفر (درد سے فکر تک) ۔۔۔۔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant