رات کے کھانے پر زونی کی فیملی آصم کے ساتھ سلیمان پیلس میں موجود تھی . جہاں یہ فیصلہ ہوا کہ ان کے اس سمسڑ کے ختم ہوتے ہی دونوں کی شادی طہ پائی جس میں دو سے ڈھائی مہینے رہ گے تھے . کھانے کے بعد بڑے سب لاونج میں چلے گے جب کے سب نوجوان پارٹی باہر گارڈن میں چلی گئ.
........................................................................
زرش میری جان کیا ہوا تھا آپ گھر سے کیوں نکلی تھی میں آج کل آجاتی میری جان ! زرتاشہ زرش کو اپنے ساتھ لگاۓ اس سے پیار سے دریافت کر رہی تھی . کہ زرش ایک دم پھر سے رونے لگی کہ زرتاشہ گھبرا گئ .میری جان مجھے بتاو کیا ہوا ہے زرش نے روتے ہوۓ تمام واقع بیان کیا . اور اپنی ماں جائی کی طرف جس کی آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھی کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا زبیر اور تائی کے نام پر مگر اپنی کو بہلا دیا اور اگے کا سوچنے لگی کیونکہ اس کے پاس کوئی مہربان نہ تو کندھا تھا اور نہ ہی کوئی سر پر سایہ مگر جینا تو تھا .
.......۔..................................................................................
تو جیسا کہ آپ سب کو پتا ہے کہ میرا دوست پلس بھائی آخر کار اپنے بوڑھاپے میں جانے سے پہلے اپنی شادی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اس خوشی میں آج آصم میرے بھائی اپنی سُریلی آواز میں گانا سناۓ گے ... شہریار نے شوخی سے تقریر کی .
کیون آپ بھائی کو پیسے دے رہے ہیں گانا سنانے پر یا آپ ان کی بیوی ہیں جن کی فرمائش پر گانا سنائیں ..منھیٰ نے آنکھیں مٹکا کر بہت انداز سے کہا جس پر سب ہنس دیے جب کے شہریار کو اپنا دل تیز رفتار سے ڈورنے لگا .مگر اس نے ڈپٹ دیا وہ نہیں چہاتا تھا کہ شاہ کچھ غلط سمجھے .....
شاہ یار تو کب شادی کر رہا ہے آصم نے شاہ کع بیچ میں لے کر آنے کی کوشش کی مگر وہ ہر بار کی طرح ٹال گیا ..
اور ماحول کو صیحیح کرنے کے لیے گانا شروع کیا .
تو خواہش تو شہریار کی تھی مگر یہ خاصی طور پر صرف میری منکوحہ کے لیے
kacchi doriyon, doriyon, doriyon se…
mainu tu baandh le
pakki yaariyon, yaariyon, yaariyon mein…
honde na faaslay
ay narazgi kaghzi saari teri
mere sonhreya, sun le meridil diyan gallan
karaan ge naal naal beh ke
ankh naal ankh nu milaa ke
dil diyan gallan
karaan ge roz roz beh ke
sacchiyan mohabbatan nibhaa keآصم بہت پیار بھری نگاہوں سے اس دیکھ رہا تھا جب کے زونی شرم سے لال ہوچکی تھی .اور منھیٰ ان کی خوشی میں خوش ہو رہی تھی اس بات سے بےخبر کہ کوئی اس کا معصوم چہرہ اپنی آنکھوں سمو رہا ہے ...
اور طرح ایک ہنستی مسکراتی شام کا اختتام ہوا. (مگر اندر ہی اندر آصم کو اپنے ماں باپ کی بےخبری سے خوف زدہ تھا)
.....................۔.................................................................اگلی صبح عائشہ بیگم سب سے پہلے زرتاشہ اور زرش کے پاس گئ کیونکہ اُن کو ان سے خاص اُنسیت محسوس ہورہی تھی اور بنا ماں باپ کے بچے وہ بھی جب بیٹیاں ہوں تو یہ سماج کہاں کا چھوڑتا ہے .
........................................................................زرتاشہ بچے کیا میں اندر آجاؤں ؟عائشہ بیگم نے کہا
جی انٹی آہیں نا ! وہ جو زرش کو سوپ پلا رہی تھی اس کو شرمندگی محوس ہوئ کہ ان کے گھر کام کا کہا کر پیسے لے رہی ہے جبکہ کام کم کر رہی ہے .
آنٹی بس میں آہی رہی تھی اس کو سوپ پلا کر .
نہیں بچے تم اس کے پاس ہی روکو بس وہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی .
جی آنٹی ..........
بیٹا برُا نہ منانا مگر میں آپ کے خاندان اور گھر والوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں
جی آنٹی ...
......................................................................
زرتاشہ کی آپبیتی عائشہ بیگم سے
میری امی (زینب )اور ابو (سلیم )شادی بڑوں کی مرضی سے ہوئی مگر اُن کے ایک بھائی شاید ناخوش تھے ماما کے دو بھائی تھے سیلمان ماموں کے بارے میں اکثر بات کرتے مگر وقت کے ساتھ کوئی بات نہ ہوئی زرش کی پیدائش پر امی ابع نے سیلمان ماموں سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میرے چھوٹے ماموں نے کہا کے وہ سب مر گے ماما تب بہت روئیں مگر ماموں کا کچھ پتا نہ چلا پھر ماما بابا نے کوشش کی مگر سب نے یہ ہی کہا کے وہ لوگ اس دنیا میں نہیں اور آج سے تین سال پہلے امں اور ابا کا پلین کریش میں انتقال ہوگیا .....
اور پھر تائی ...اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتی عائشہ بیگم نے اُسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کے رودی ......
وہ عائشہ بیگم کے ساتھ لگی تھی اس کا وجود ہچکھیوں کے زد تھا .. کچھ دیر رو لینے کے بعد وہ عائشہ بیگم سے الگ ہوئی تو عائشہ بیگم نے اس کا منہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور اس کے ماتھے کو چوما .... آنکھیں تو ان کی بھی نم تھی زرتاشہ ان کے رویے پر حیران ہوئی ...اور سوچنے لگی کے اپنوں نے تو دربدر کر دیا اور پرائیوں سے اتنا پیار .......اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی یا بولتی عائشہ بیگم بول پڑی تم میری تاشہ ہو تم میری زینب کی بیٹی ہو ....اور نم آنکھوں سے مسکرا کر کچھ حقیقتوں سے واقف کر گئیں جس پر وہ حیران کے ساتھ ساتھ خوش تھی کے کوئی تو اپنا ملا ....
............۔...........................................................................
عائشہ بیگم واپس اندر آئیں تو بہت خوش تھی اُنھوں نے شاہ اور منھیٰ کو کہا کہ اُن کی دوست کی بیٹیاں ہیں اور آج سے اُن کے ساتھ رہے گے جب کے شاہ زرش کو دیکھ کر حیران ہوا اور خوش بھی اسے تو وہ معصوم بچی پہلے بھی منھیٰ کی طرح عزیز محسوس ہوئی تھی جب کے زرتاشہ کو دیکھ کر عجیب سا احساس ہوا مگر وہ سر جٹھک کر آفس چلا گیا ..
.............۔...........................................................................
رات کے کھانے پر شاہ کے گھر کے ساتھ وہ دونوں بھی موجود تھیں اور آصم بھی ..
اووو مزہ آگیا آنٹی مطلب میری تین بہنیں آج سے اور شادی پر تو اور بھی مزہ آۓ گا ... آصم جوش وخروش سے لگا تھا ... ابھی آصم کی بات منہ میں تھی کے زرش بول پڑی ..
آپ وہ اچھے والے بھائ ہیں نہ زرش نے دیکھ کر شاہ سے پوچھا تو وہ مسکرا دیا اور اثبات میں سر ہلایا .
میں سمجھا مجھے کہہ رہی ہو آصم نے ہنستے ہوۓ کہا تو سب مسکرا دیے ..
آپ اگر زبیر بھائی جیسے ہیں تو بہت بڑے ہیں کیونکہ وہ آپی اس سے پہلے کہ وہ منہ کھولتی زرتاشہ نے اس سے ڈپٹ دیا اور بہت مشکل سے مسکرائی .....
اور اب موضوع تبدیل ہوگیا ..
تائی شادی میں وقت کم رہ گیا ہے میں چاہتا ہوں کے کل امی کی طرف چلیں ...آصم نے بات کا آغاز کیا جو سن کر منھیٰ کا حلق تک کڑوا ہوگیا جب کے شاہ نے مجبوراً ہی سہی جانے کی حامی بھر لی منھیٰ اُٹھ کے جانے لگی کے آصم بول پڑا گڑیا تم بھی چلو ..
میں اور میرا خاندان اُن کے لیے اس دن ہی مر گے تھے جب بابا چلے گے تھے بھائی آپ اور شاہ بھائی کافی ہیں میرے لیے .... یہ کہہ منھیٰ کمرے کی طرف چل دی اور سلمہ بیگم کے گھر کل جانے کا ارادہ تھا سب کا ....
........................................۔۔..............۔.......................اسلام علیکم بھابھی !کیسی ہیں ؟عائشہ بیگم خوش اخلاقی سے سلمہ بیگم سے ملی .
مگر ہر بار کی طرح سلمہ بیگم کا منہ بن گیا.. اس سے پہلے کچھ بولتی آصم کو دیکھ کر چیخ اُٹھی اللہّ میرا بچہ آیا ہے میں تو مرتے مرتے جی اُٹھی ہوں. اس سے پہلے کے وہ آصم کو گلے لگاتی آصم نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا
ہم یہاں ضروری کام سے امی !تائی امی بات شروع کریں .
سلمہ دیکھو بچے بڑے ہوگے ہیں اور ہم نے آصم کی کچھ مہینے تک شادی رکھ دی ہے .
یہ کیا کہا رہی ہو تم عائشہ نکل جاؤ میرے گھر سے جادوگرنی میرے بچے کو قابو کر لیا تم نے عائشہ بیگم کی آنکھیں نم ہوگئیں آصم اور شاہ کا ضبط سے برُا حال تھا کہ شاہ غرایا ...
خبردار جو ایک لفظ بھی آپ اور بولیں آپ کو ہر بار معاف کر کے آج ہم پھر یہاں آۓ ہیں بس اب اور نہیں آصم میرا بھائی ہے اس کی خوشی کے لیے یہاں آیا ہوں صرف مگر یہ آخری دفعہ ہے.. شاہ عائشہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گیا .
آصم نے دکھ سے اپنی ماں کو دیکھا . آپ لوگوں کو شادی کا کارڈ مل جاۓ گا . مجھے دکھ ہے کہ میرے ماں باپ ایسے ہیں مگر شکر ہے کہ میں اپنے ماں باپ پر نہیں گیا . اُمید تھی کے کیا پتہ میری دوری نے آپ لوگوں کو سنوار دیا ہو مگر میں غلط تھا . اب میں چلتا ہوں اگر میری خوشی کا احساس ہوا تو خاموشی سے شادی میں شرکت کر لیجیے گا ......
اللہّ حافظ ....
.......۔...............۔...۔۔.۔........................................................
So guys heres a next epi 😇
Vote ,comment and follow more 😇
YOU ARE READING
دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅
Short StoryFamily based 😍 sister brother love ❤️ Multiple couples🥀