منھیٰ کو ڈاکڑ نے چھٹی دے دی ... اس کو گھر لے آۓ مگر مکمل ریسٹ کا کہا . گھر آنے کے بعد بھی سب منھیٰ کا بہت خیال رکھ رہے تھے. منھیٰ اب خاموش ہوگئ تھی اُس کو کچھ وقت لگنا تھا .
............................................۔... . .......... .....
شاہ مجھے اُمید نہیں تھی تو اس طرح کا ارادہ رکھتا ہے یا تیرے ارادے خراب ہیں .. آصم نے شاہ کی بات سن کر غصے سے کہا .. جب کے شہریار صرف خاموشی سے سن رہا تھا ..
میں نے جو کہہ دیا ہے بس اس پر عمل کرو میں اپنی بہن کے لیے غلط نہیں سوچ سکتا .. شاہ نے سنجدگی سے کہا اعر چہریار کو مخاطب کیا جو خاموشی سے انھیں سن رہا تھا .. شہریار کیا تم منھیٰ کو نہیں چاہتے ...
شہریار نے شاہ کی طرف دیکھا اور انتہائی سنجدگی سے کہا .. شاہ میں منھیٰ سے محبت کرتا ہوں مگر یہ غلط ہوا تو پھر اگر اس نے بعد میں ہمیں نا سمجھا . شاہ شہریار کی فکرمندی پر ہنسا اس کو گھوٹ گھوٹ کے مارنے سے اچھا ہے کہ محبت سے سلجھا لیں . اور اگر تمہاری محبت سچی ہوئی تو وہ ہر حال میں تمہیں سمجھے گئ.. شاہ آصم سے اکڑا ہو تھا اور شہریار یہ بات جانتا تھا اس لیے بولا .. ٹھیک میرا ایک دوست دبئ ہوتا ہے مگر اس کا ایک ہسپتال ادھر ہے تو وہ کچھ دن کے لیے آجاۓ گا . میں اس سے بات کرتا ہوں آپ لوگ بیٹھیں ...
............................. ..........................................
شہریار کے جانے کے بعد آصم اور شاہ میں مکمل خاموشی تھی جسے آصم کی آواز نے توڑا .
شاہ کیا تمہیں لگتا ہے کے میں منھیٰ کے اس حقل کا ذمےدار ہوں ...
شاہ خاموش رہا تو آصم دوبارہ بول پڑا ..شاہ وہ میری بہن ہے مجھے بھی عزیز ہے میرہ وعدہ ہے میں امی کو کبھی معاف نہیں کروں گا .. ابھی آصم بولتا شاہ نے اسے گلے لگا لیا ... آصم تو میرا بھائی ہے مجھے تجھ سے کوئی شکوہ نہیں بس میں منھیٰ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں . بس اب ہم اس پر دوبارہ بات نہیں کریں گے چلو اب گھر چلتے ہیں ...
........... . .......................................................
ماضی...
سلیمان صاحب اور عارف صاحب بھائی ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے .. رشید صاحب نے جب بچوں کی شادی کردی تو بیمار رہتے عارف صاحب اور سلیمان صاحب کی آگے پیچھے شادی ہوئی تھی . آصم اور شاہ میں چار میےنے کا فرق تھا . .......
شاہ ابھی ایک سال کا تھا جب دادا دادی کی وفات ہو گئ تھی اور عارف صاحب نے ماں باپ لی موت کا لحاظ کیے بغیر جائیداد میں اپنا حصہ مانگ لیا سلیمان صاحب بھائی تھے انھیں بہت دکھ ہوا مگر پھر مجبوراً انھیں حصہ دے دیا. وقت کا کام گزرنا تھا . جیسے جیسے وقت گزرتا گیا .. شاہ پانچ سال کا تھا جب سلیمان صاحب کی بہن یعنی زینب بیگم کی بیٹی تیں سال کی تھی جب بہن نے خواہش ظاہر کی اور پھر وقت کے ہیر پھیر تھی کے شاہ اپنی تین سال کی کزن سے نکاح جیسے بندھن میں بند گیا ..... خیر وقت کا کام تھا وہ بھی گزر گیا پھر شاہ کو خدا نے گڑیا جیسی بہن دی جس سے گھر میں رونق آگی ... مگر اس کے بعد قیامت بھی گزری ان پر . ... منھیٰ شروع سے سلیمان صاحب سے حد سے زیادہ اٹیجڈ تھی .... کچھ چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ شاہ سے آٹھ سال چھوٹی ہے . ابھی منھیٰ دس سال اور شاہ اٹھارہ سال کا تھا. جب ایک کار آیکسیڈنٹ میں سلیمان صاحب جان کی بازی ہار گے اور اس کم عمری میں شاہ مدد کے لیے چحچا کے پاس گیا جھنوں نے انھیں رکھ تو لیا مگر احسان کے طور پر .. شاہ اور آصم کی دوستی سے چحچی ٹکٹکی اور میاں سے کہہ کر اسے باہر ہڑھنے بھیج دیا وہ دونوں ہمیشہ بھائیوں کی طرح رہے تھے سیلمان صاحب کے ہوتے ہوۓ وہ روز ملتے تھے اور سکول کالج میں بھی اکھٹے پرھائی کی.. مگر وقت بدل گیا آصم رو دھو کر اہنے باپ کے ساتھ چلا گیا تو چحچی نے اپنی اصلیت دکھا دی منھیٰ اتنی چھوٹی تھی کے باپ کی دوری برداشت نا کر پا رہی تھی ناسمجھ بھی تھی .. شاہ کو پہلے دن ہی گھر سے نکال دیا کے کام کاج کرے نوکری ڈھونڈے ........ عائشہ بیگم بیمار رہتی تو زیادہ کمرے میں رکھتی وہ ابھی صدمے میں تھیں اس وقت اس دس سال کی بچی جو اکیلی ڈر سہم کے ایک کونے میں لگی تھی ایک دن چحچی نے اس سے پورے گھر کی صفائ کروائج وہ جو ہمیشہ گھر کی لاڈلی جسے آج تک کچھ نہیں کیا تھا ویسے بھی وہ بہت چھوٹی تھی ابھی وہ صفائی سے فارغ ہوئیتو اس کا یاتھ لگنے سے ایک حوبصورت واس زمین بوس ہوا جس پر چحچی نے اسے بے دردی سے مارنا شروع کر دیا کے وہ نڈھال ہوگئاور اس ہی کانچ پر گری چحچی کے دھکہ دینے سے . کانچ پر گرتے ہی منھیٰ کی چیخیں پورے گھر میں گونج اُٹھی عائشہ بیگم نے جب منھیٰ کو اس حقل میں دیکھا تو تڑپ اُٹھی اتنے میں شاہ اور چحچا بھی آگے ...
آپ نے میری گڑیا کو مارا آپ کی ہمت ابھی .. وہ اتنا ہی بولا ہی تھا کے چحچا نے اسے تھپڑ مارا دفعہ ہو جاو میری بیوی سے ایسے بات کرو گے بھائ کا بوجھ ہم کیون اُٹھیں نکل جاو گھر سے عارف صاحب نے چیخ کر کہا .. حچحی کے منہ پر طنزیہ مسکراہٹ تھی ..
بھائی صاحب پلیز دیکھیں میری بچی کا بہت خون بہہ گیا ہے ..
اوو بس بہن بہت ڈامہ لگا لیا آپ نے بھی خود کو اس نے حال میں پہنچایا ہے اب اس کا الزام بھی آپ میری بیوی پر لگا دیں ... نکل جاو اس گھر سے ..
شاہ نے اپنی نھنی گڑیا کا وجود بازوں میں اُٹھا یا .. اور امی کا ہاتھ پکڑ کر دروازے تک گیا اور مڑ کر بولا چاچو میں آپ کا احسان یاد رکھوں گا اور اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا وہ رو نہیں رہا مگر اس کی آنکھوں میں اس وقت الگ دیوانگی تھی ... اور ہاں ایک وقت آپ خود آیں گے میرے پاس ...
وہ یہ کہہ کر چلا گیا مگر منھیٰ کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی خون اس کی بازو سے مسلسل نکل رہا تھا شاہ اور عائشہ بیگم فورن اس کو اس ہی وقت ہسپتال لے گے .. وہاں پیسے پر ڈاکڑ نے ایشو بنایا . مگر منھیٰ کی حالت کے سامنے فورن ٹریٹمنٹ دینا پڑا کیونکہ وہ دس سال کی بچی تھی اور خطرہ یہ تھا کے اس کی جان بھی جاسکتی تھی ... تب منھیٰ کا دماغی توازن بری طرح متاثر ہوا تھا ڈاکڑ نے اس کا بہت دھیان رکھنے کو کہا مگر جب تک پیسے نہیں ملتے اسے جانے کی اجازت نا ملی .... اب شاہ کو کچھ سمجھ نا آیا ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کے ایک شخص کی آواز نتمے اسے اپنی طرف متوجہ کیا .
بھابھی آپ یہاں ..... اس آواز پر شاہ اور عائشہ بیگم نے سر اُٹھا کر دیکھا تو نوید صاحب کھڑے تھے وہ دبئ سے پاکستان کام سے آۓ تھے مگر طبیعت کی ناسازی کی وجہ کے ڈاکڑ کے پاس چیک آپ کے لیے اگے جیاں انھیں شاہ اور عائشہ بیگم نظر آگے ..
شاہ انھیں آنسو بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا .. ..
بھابھی کیا یوا ہے میرا یار تو ٹھیک ہے نا ابھی انھوں نے اتنا کہا تھا کے شاہ ان کے گلے لگ کر روپڑا .. انکل بابا چلے گے اور عائشہ بیگم نے انھیں تمام واقع ان کی وفات سے منھیٰ کی حالت کا بتایا .
نوید صاحب کو افسوس بھی ہوا اور شدت سے غصہ بھی آیا. مگر اس وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا تھا یہ وہ وقت تھا جب نوید صاحب انھیں اپنے ساتھ لے گے شاہ کو پڑھنے کے لیے باہر بھیج دیا اور آصم اور شاہ ایک بار پھر قسمت کی وجہ سے اکھٹے ہو گے منھیٰ ایک سال تھا ڑرانس میں رہی مگر نوید صاحب اور عائشہ بیگم کے پیار نے اسے صیحیح کر دیا تھا .. اور اس کے بعد جب جب چحچی سے کبھی سامنا ہوا شاہ اور آصم اس کے ساتھ ہوتے آصم نے پڑھنے کے بعد شاہ کے ساتھ کام شروع کیا تھا اور ماں باپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ......
یہ سب سچائی عائشہ بیگم زرتاشہ کو بتا چکی تھی مگر شہریار ابھی تک ناواقف تھا چحچی کے رویے سے منھیٰ کو جو اٹیکس ہوتے تھے وہ اب ٹھیک تھی مگر ماضی جب خطرناک ہو تو انسان کو پریشان کرتا رہتا ہے اور شاہ کا پیار اس کو سنوارتا تھا اب شاہ اسے شہریار کے حوالے کرنا چاہتا تھا کیونکہ پیار بہت بڑی طاقت ہے
.................................. .......... . ...........
YOU ARE READING
دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅
Short StoryFamily based 😍 sister brother love ❤️ Multiple couples🥀