part 10

2.1K 138 5
                                    

آخر وہ وقت آچکا تھا جب شاہ کے پلیں پر عمل کرنا تھا...
......................................................................
منھیٰ , بڑی امی کہاں ہیں .. آپ سب آصم نے گھر میں داخل ہو کر چیختے ہوۓ کہا ...
منھیٰ اب ٹھیک تھی اور اب یونیورسٹی بھی جارہء تھی مگر کچھ خاموش سی ہو گئ تھی آصم کی آواز سنتے ہی منھیٰ کمرے سے باہر آئی ..
کیا ہوا بھائی خیریت آپ آفس نہیں گے منھیٰ نے سنجدگی سے سوال کیا .. اتنے میں امی اور زرتاشہ بھی آگئیں .. منھیٰ جو پہلے سے بہت کمزور ہوچکی تھی آصم کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی .. آصم کے دل میں ہوک سی اُٹھی اُس نے سوچا کے وہ نا بتاۓ مگر کیا کرتا .. آصم کو خاموش دیکھ کر امی بول اُٹھی .. کیا ہوا ہے آصم بچے بڑی امی آپ لوگ میرے ساتھ چلیں آپ لوگوں کو سب وہاں جا کر  پتا چل جاۓ گا .  ..
بیٹا کیا ہوا ہے کہاں جانا ہے  . ..  آپ لوگ چلیں نا.

آصم کے کہنے پر زرتاشہ ,منھیٰ اور امی گاڑی کی طرف چل دیے اور آصم نے گاڑی ہسپتال کے راستے پر ڈال دی .
...............................................................
ابو آپ فکر نا کریں .... انشاءاللہّ سب ٹھیک ہو جاۓ گا .. آپ اس طرح کریں گے تو آپ کی طبیعت بھی خراب ہو جاۓ گی ... ..
تم فکر کی بقت کرتے ہو اندر میرا بیٹا پڑا ہو ا ہے اور پہلے ہی میری بچی اتنی مشکل سے سہی ہوئی ہے .. نوید صاحب کے ڈپٹنے کے بعد وہ خاموشی سے ایک کارنر میں کھڑا ہو گیا .. ...
................   ...............    ...................     .......
گاڑی جیسے ہی ہسپتال کے راستے پر روکی منھیٰ سے خاموش رہا نا گیا تو وہ بول پڑی بھائی زونی تو ٹھیک ہے نا .. ...
گڑیا زونی ٹھیک ہے بس تم اندر چلو .. یہ کہہ کر سب اندر چلے گے اندر ایک کمرے کے سامنے نوید صاحب اور شہریار کو کھڑے پایا .. تو منھیٰ کے ذہین میں جس شخصیت کا نام آیا اس کا سوچ کو اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گے .. اس نے کسی احساس کے تحت آصم کی طرف دیکھا تو وہ اس کو ہی دیکھ رہا تھا اور منھیٰ کی سوالیہ نظریں جس کا مفہوم وہاں موجود سب سمجھ رہے تھے آصم کے ہاں میں سر ہلانے میں اس نے بے یقینی میں وہاں موجود سب کو دیکھا .. عائشہ بیگم تو وہاں کرسی پر ڈھے دی گئ کیونکہ ان کا جان سے عزیز بچہ اندار تھا ۔ بستر مرگ پر زرتاشہ نے بہت مشکل سے اپنے آنسو روک کر منھیٰ اور امی کو سنبھلا .... . ابھی اس سے پہلے اور کوئی بات ہوتی ڈاکڑ کمرے سے باہر آیا ..تو سب سے پہلے منھیٰ ہی ڈاکڑ کی طرف لپکی.......
ڈاکڑ کیا ہوا ہے میرے بھائی تو ٹھیک ہیں نا ....
جی بس اکسیڈنٹ میں ان کو کچھ ظاہری اور اندرونی چوٹیں آہیں ہیں بس ان کو کچھ ڑیسٹ کی ضرورت ہیں مگر ابھی وہ انڈر اوبسرویشن ہیں .. ڈاکڑ نے پیشہ وارنہ انداز میں کہا اور جانے لگا کے ایک دم پلٹہ آپ میں سے منھیٰ کون ہے ..
جی میں ہی ہوں منھیٰ فوراً بولی ...
آپ پیشنٹ کی پاس چلی جائیں مگر باقی اور کوئی نہیں کیونکہ وہ بار بار آپ کو بولا رہے تھے. اور پھر جب روم میں شفٹ کریں گے تو آپ سب چلے جائیے گا ....
............۔......................................................................
آصم اور شہریار ڈاکڑ کے ساتھ چل دیے جب کے منھیٰ شاہ کے پاس چل دی ...
زرتاشہ بیٹا وہ اب بلکل ٹھیک ہے تم کیون رو رہی ہو ..
امی آپ لوگوں نے اُن کی مجھ سے زبردستی شادی کروائی .یہ سب اس کا ہی نتیجہ ہے .. زرتاشہ نے روتے ہوۓ کہا ... .نہیں ایسی بات نہیں ہے بچے .. میری بات کو سمجھو جو خدا کو منظور تھا وہ ہی ہوا ہے .امی نے اور نوید صاحب نے سمجھانے کی کوشش مگر وہ ان کی ہر بات کو نفی میں کر رہی تھی .....
شہریار جو ان فون رکھ کر گیا تھا .. اس پر ویڈیو بن رہی تھی ... اور وہ تینوں اس بات سے بے خبر تھے .. ..
اچھا ٹھیک ہے ہم سب سچ اس کو بتا دیے گیں بس وہ ٹھیک ہو جاۓ.. پھر کے تم ہی زر ابھی وہ بات مکمل کرتی کے آصم اور شہریار آگے.....
........................................................................
بھائی!!!!! منھیٰ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو شاہ کو غنودگی میں پایا .......... منھیٰ کی پکار پر شاہ نے اُٹھنے کی کوشش کی تو منھیٰ فوراً اگے کو ہوئی اور شاہ کی مدد کی منھیٰ کے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی جو شاہ نے محسوس کرتے ہوۓ اس کے ہاتھ تھام لیے ...
گڑیا میں ٹھیک ہوں مگر جو بات میں اب کرنے والا ہوں غور سے سنانا ... منھیٰ کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ..
گڑیا میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کیا پتہ میں آج ہوں کل نہیں ... ابھی وہ کچھ اور اول فول بولتا منھیٰ نے فوراً سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور زور و شور سے رونے لگی تو شاہ نے اس کو اپنے ساتھ لگایا .
بھائی آپ کو کچھ ہوا تو منھیٰ مر جاۓ گی .. منھیٰ نے ہچکیھوں کے درمیان کہا تو شاہ نے اسے اپنے آپ سے دور کیا ...
منھیٰ میری جان تمہیں میرے پر بھروسہ ہے نا .. منھیٰ نے اثبات میں سر ہلایا ...  تو میری ایک آخری خواہش سمجھ کر ... پوری کر دو اپنے بھائی ..
بھائی ایسے نا کہیں آپ کو کچھ نہیں ہو گا اور میں آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں بس آپ ٹھیک ہو جائیں ..  منھیٰ نے روتے ہوۓ کہا...
شاہ ہلکا سا مسکرایا اور اگلی جو بات شاہ نے کہی منھیٰ نے بے یقینی سے شاہ کو دیکھا اور شاہ کی اُمید بھری نظروں کو تاب نا لا سکی اور خامعشی سے سر جھکا لیا.شاہ نے پیار سے اسے گلے لگایا ...تو اتنے میں ڈاکڑ اندر آگیا ...
آپ ایس کریں کے باہر چلیں پیشنٹ کو روم میں شفٹ کریں گے تو آپ لوگ مل لیے گا منھیٰ خاموشی سے کمرے سے چلی گئ.
.......................................................................
منھیٰ کمرے سے باہر آئی تو سب نے منھیٰ کی طرف دیکھا اور منھیٰ ماں کے سامنے دیکھ کر بے اختیار ہوئی اور ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ....
منھیٰ بچے کیا ہو ا ہے .شاہ تو ٹھیک ہے نا ... منھیٰ نے آنسو صاف کیے اور بولی ...
امی بھائی ٹھیک ہیں بس وہ ایسے ہی ..... منھیٰ شرمندہ ہوئی
بھابھی بھائی ٹھیک ہیں آپ روہیں نہیں ...
.......................................................................
شاہ کو روم میں شفٹ کردیا گیا تھا سب کے ملنے کے بعد شاہ نے نوید صاحب کو مخاتب کیا ..
انکل میں آپ سے بہت ضروری بات کرنے والا ہوں سب کی موجودگی میں .....
ہاں بولو بیٹا ...... نوید صاحب کی اجازت ملتے ہی شاہ بولا ....
امی اور انکل میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی امانت اب کسی کے حوالے کرنے جارہا ہوں .
شاہ بیٹا کیا کہہ رہے ہو میری جان .امی نے فکرمندی سے کہا .. منھیٰ  چونکہ سمجھ چکی تھی اس لیے خاموش ایک کونے میں کھڑی رہی ....
منھیٰ میں چاہتا ہوں کے منھیٰ اور شہریار کا ابھی کے ابھی نکاح کر دیا جاۓ میرا کیا بھروسہ کل .... چپ کر جاو یہ کیا بول رہے.. تم بلکل ٹھیک ہو ...
امی پلیز جو میں کہہ رہا ہوں وہ مان لیں اور سب اس کے سامنے بےبس ہو گے....
.....................................................................
شاہ لاشعوری طور پر زرتاشہ کا منتظر تھا ان کے درمیاں کوئی بات نا ہوئی تھی ان کے نکاح کو 7 ماہ ہوگے تھے مگر کبھی کام کے علاوہ کوئی بات ناہوئی ..شاہ اب اس کے بارے میں سوچنے لگا تھا کیونکہ وہ اس کی بیوی ہے .. اور منھیٰ اور شہریار کے نکاح کے بعد اس کا مقصد صرف اس کی اپنی زندگی تھی
...... . ....... . .... ....................... ............   ........
شہریار اور منھیٰ کا نکاح کچھ ہی دیر میں ہوگیا . منھیٰ بلکل خاموش تھی شہریار کی خوشی دیدنی تھی مگر اس نت اپنے آپ پر جبر کیا ہوا تھا .. 
امی کی آنکھیں نم تھیں .. شاہ کو امید تھی کے اب زرتاشہ آۓ گی مگر مایوس ہوگیا ...
..........................................................

  دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅Where stories live. Discover now