part 12

2K 126 2
                                    

آپ آپ,یہاں کیا کر رہے ہیں ... چھوڑیں مجھے ....زرتاشہ نے چیختے ہوۓ کہا ..
آہاں جان یہر بار چھوڑ دیتا ہوں اس بار چھوڑنے کے لیے نہیں آیا .. آج تو ویسے بھی تمہے بچانے کے لیے نا تو تمہاری بہن ہے اور نا ہی تمہارا وہ شوہر جو ہر جگہ ڈھونڈتا پھر رہا ہے ... خود اس نے تجھے گھر میں بسایا ہوا ہے .. .. اس نے زرتاشہ کے زور سے بال کھینچتے ہوۓ کہا ....
آ امی... چھوڑو مجھے.... میں اتنا چیخوں گئ کے تم یہاں سے بچھ کر نا جا سکھو گے ... ااس نے زرتاشہ کے بال اور ایک کلائ پکڑی ہوئی تھی ..زرتاشہ کی 
درد کے مارے آنسو نکل آۓ .. اس وقت زرتاشہ میں پتہ نہیں کہاں سے ہمت آئی اس نے آس پاس نظر دوڑائی تو پاس ہی ایک گلاس پڑا تھا. زرتاشہ نے اس کے سر پر دے مارا ....
تم ذلیل عورت تو سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو آج بچ کر دیکھاو.. وہ اسے مختلف القاب سے نوازتا اس کی طرف بڑا وہ جو اوپر کی طرف جارہی تھی اس کا جلد سے جلد کسی کمرے میں بند ہونا مقصد تھا .. .. مگر اتنے میں اس کا ڈوپٹہ نیچھے گہر گیا .. اس نے ڈوپٹہ چھوڑ کر بس وہاں سے بھگ جانے کی کیی کے اس کی بازو کا  سرا ز بیر کے ہاتھا میں آگیا جسے اس نے زور سے کھینچا تو وہ اس کے کندھے سے الگ ہو گیا . اس پر زرتاشہ کی چیخ پورے گھر میں گونج اُٹھی ..جب کے زبیر مزاحیہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا کوئ نہیں آیا تجھے بچانے ... زرتاشہ کا غم سے برا حال تھا مگر اس وقت عزت بچانا زیادہ عزیز تھی اس سے پہلے زبیر زرتاشہ کی طرف بڑھتا ایک زور کا تھپڑ زبیر کی گال پر پرا مردانہ ہاتھ کا تھپڑ جس کے لیے وہ بلکل بھی تیار نا تھا دو قدم لڑکھڑا گیا ... زرتاشہ نے جیسے ہی شاہ کو دیکھا اس سے لپٹ گئی .. اس کا وجود ہچکھویوں کی زرد میں تھا ..  شاہ نے اپنق کوٹ زرتاشہ کع پہنایا اور پاس کھڑی زرش کو اس کو اوپر لے جانے کو کہا ...  اب اس کا رخ زبیر کی طرف تھا ...
تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو .. تم نے اسے لاوارث سمجھ رکھا ہے شاہ اس کی طرف بڑھا اور اس کی دھلائی کرتے ہوۓ مسلسل بول رہا  تھا .. تم نے ہمت کیسے کی میری بیوی پر نظر رکھنے کی ..
ہاہاہااہاہا نظر کی بات کرتا ہے تو ابھی تو نا آتا تو وہ طرف میری ہوتی ... زبیر نے بےغیرتی سے کہا بس اب شاہ کا پارہ ہائی ہو گیا اس نے زبیر کی وہ دھلقئی کی کے اب وہ بے ہوش زمیں پر پڑا تھا ..
شاہ نے فون نکالا اور کسی کو کال کی ...
ہیلو کہاں ہو جلدی سے میری گھر پہنچو .. ..
ٹھیک 5 منٹ بعد شہ کے بندے گھر کے باہر تھے ...
ہاں اس کو لے جاو اور اس کا اچھا خاصہ انتظام کرو کے آئیندہ کے بعد کسی کی طرف نظر بھی اٹھا سکے اور صبح تک اس کو گھر چھوڑ دینا ....... شاہ حکم دے کر زرتاشہ کے کمرے کی طرف چل دیا ....
وہ کمرے میں پہنچا تو زرتاشہ سوئی ہوئ تھی .. زرش پاس بیٹھی تھی زرش شاہ کو دیکھ کر اس کی طرف بڑھی ...
تو شاہ نے اسے خاموشی سے کمرے سے باہر آنے کا اشارہ کیا ......
سو گئ زرتاشہ .. شاہ نے سنجدگی سے سوال کیا ...
بھائی آپو تو سو گئ ہیں مگر .. زبیر بھائی بہت برے ہی پہلے بھی آپی سے بتمیزی کرتے تھے ایک دن آپی نے انھیں مارا بھی تھا وہ میرے ساتھ بھی بتمیزی کرتے تھ زرش نے روتے ہوۓ کہا ..
شش رونا نہیں ہے تمیارہ بھقئی ابھی زندہ ہے اب فکر نہیں کرنی میں ہوں نا .. اور اس بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا نا چاہیے ..
جی بھائی ... زرش نے کہا ...
اب تم بھی سو جاو میں نے گارڈ باہر بعلا دیا ہے میں تھوڑی دیر میں ہسپتل سے ہو کر آتا ہوں ....
جی ٹھیک ہے .... زرش کمرے کی طرف چل فی جبکہ شوہ کچن سے زرتاشہ کا تیار شدہ کھانا لے کر باہر کی طرف چل دیا ....
گھر میں بلکل خاموشی ہوئی تو زرتاشہ اٹھ کر بیٹھ گئی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی عزت کے لالے جب پڑے ہوں تو نیند کہاں آتی ہے آج کا واقع یاد کر کے وہ زور و شور سے رونے لگی ... اگر شاہ نا آتا اس سوچ کے آگے وہ سو چنا بھی نہیں چاہتی تھی....روتے روتے اس کی کب آنکھ لگی اسے نہیں معلوم .. مگر یہ الفاظ وہ بولنا نا بولی جو اس کے دل اور دماغ کا حال تھا.
میں الجھنے لگی ہوں ،،
میں بکھرنے لگی ہوں ،،
دل پی پڑے بوجھ کو ،،
آنسوؤں سے دھونے لگی ہوں ،،
خود سے لڑتے لڑتے تھک گئی ہوں ،، لوگوں کے بدلتے رویوں سے سہم گئی ہوں ،،
دنیا کے فریب سے دل اکتانے لگا ہے ،،
کہی دور چلی جاؤ یہ کہنے لگا ہے ،،
عجیب سوچوں کے جال میں خود کو جکڑنے لگی ہوں ،،
راہِ فرار کے راستوں سے خود ہی نظریں چرانے لگی ہوں ،،
میں تھکنے لگی ہوں ،،
میں ڈھلنے لگی ہوں ،،
میں الجھنے لگی ہوں ،،
میں بکھرنے لگی ہوں ،،

(شازمہ عامر )
....................... .......... .........   .................  . ..
رات کو سب گھر آۓ تو امی نے سوال کیا کے زرش اور زرتاشہ کہاں ہیں بیٹا ....
امی وہ سو گئ ہیں دونوں .. شاہ نے  جواب دیا ..
اوو بیٹا وقت بھی ہو گیا ہے میں بھی تھک گئیں ہوں گئیں منھیٰ بھی کمرے چلی گئ ہے اب تم بھی سو جاو میں بھی تھوڑا آرام کر لوں ...
جی امی !  آپ آرام کریں .. وہ ماں کا ماتھا چوم کر اوپر کی طرف چل دیا ...
شاہ اوپر آکر اپنے کمرے میں جانے کی بجاۓ زرتاشہ کے کمرے میں چل دیا ..
اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا زرتاشہ کو سوۓ ہوۓ پایا .. اس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجھی ہوئ تھیں .. جس سے وہ سمجھ گیا .. کے وہ سونے سے پہلے کافی دیر تنہا روتی رہی ہے شاہ کمرے سے جانے لگا جب اس نے زرتاشہ کی بڑبڑاہٹ سنی ......
امی ابو آپ لوگ مجھے بھی ساتھ لے جاتے ..
مامی بہت اچھی ہیں ابو ..... میں شاہ سے بہت پیار کرتی ہوں مگر وہ...... زرتاشہ اتنا بول کر خاموش ہوگئ .. شاہ بےچین ہوا اس کے وہم دن بدن سچ ہو رہے تھے اور اب اس کو یقین ہوگیا تھا کہ زرتاشہ صرف اس کی ہے ...
شاہ خاموشی سے کمرے سے نکل گیا ....
..۔.......................  ............  .....  . .....   ......ب....  ... 

  دلِ نادان از علمیر اعجاز Completed✅Where stories live. Discover now