Episode 4

5.5K 257 155
                                    

عید کا خاص ملن
#writer
Aiman Khan

Link of episode 5

https://m.facebook.com/groups/1004074299760566?view=permalink&id=1694268940741095
                       قسط نمبر 4
اف بھیا آپ مجھے یہ بتائیں کہ اب میں کروں کیا کیونکہ ملک صاحب کے پاس تو میں ہرگز نہیں جارہا۔"
وہ شدید جھنجھلا کر کہ رہا تھا کیونکہ وہ اپنی تازہ ہونے والی بےعزتی نہیں بھولا تھا۔
" لیکن جانا تو تمہیں پڑے گا میرے بھولے بادشاہ ورنہ بابا تمہیں بخشیں گے نہیں ۔"
اس نے فائلیں بند کرکے ایک طرف رکھ کر سر کو دائیں بائیں کرتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" پلیز بھیا ڈو سم تھنگ!"
اس کے چہرے پر بیچارگی تھی۔
" نو جاو بابا کے روم میں۔"
شہرام نے اسے ہری جھنڈی دیکھائی تھی۔
" اوکے فائن۔"
وہ اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گیا تھا اب اس کا رخ حسن احمد کے کمرے کی جانب تھا۔اس نے حسن احمد کے کمرے کے باہر پہنچ کر خود کو مزید لعنت ملامت کے لیے تیار کیا کیونکہ کام تو اسے برحال کرنا ہی تھا اس نے دروازہ ناک کیا تھا اندر سے ان کی سیکڑی باہر آئی تھی ابشم اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
" ایکسکیوزمی مس آپ کے سر کا موڈ کیسا ہے؟"
اس نے ڈرتے جھجھکتے ہی پوچھا تھا وہ سیکٹری حسن احمد کی پرانی سیکٹری تھی اس لیے وہ ابشم کو بھی جانتی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
" سر ان کا موڈ تو آپ کو اندر جاکر ہی پتہ چلے گا۔"
سیکٹری کندھے اچکاتی ہوئی باہر نکل گئی تھی جبکہ ابشم نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا تھا اور دروازہ دھکیل کر اندر کی جانب چل دیا ۔اندر جاکر وہ خاموشی سے کھڑا ہوگیا تھا وہ ان کی نظر کا منتظر تھا۔
حسن صاحب نے اپنی عینک اتار کر ایک طرف رکھی اور سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھا جو شریفانہ طریقے سے کھڑا زمین کو گھور رہا تھا۔
" بیٹھو۔"
انہوں نے اپنے میز کے سامنے رکھی کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ سرجھکائے وہی بیٹھ گیا اس لمہے ملک ابشم حسن وہ شریف انسان لگ رہا تھا جس کی شرافت کی مثالیں پورا زمانہ دے رہا ہو لیکن اصل میں وہ کیا تھا یہ تو میز کی دوسری جانب بیٹھا اس کا باپ اور اس طرف وہ خود بیٹھا ہی جانتے تھے۔
" کیا ارادہ ہے پھر آفس اور کام کو سنجیدگی سے لینا ہے آپ نے یا نہیں؟"
وہ اپنے ہاتھ میز پر رکھتے ہوئے زرا سا جھک کر کہ رہے تھے۔
" بٗلا تو دھمکا کر لیا ہے آپ نے پھر یہ سوال پوچھنے کا تردد کیوں۔"
یہ صرف وہ سوچ ہی پایا تھا اگر کہ دیتا تو یقیناً حسن صاحب اس کی روح قبض کرلیتے۔

" آپ فکر مت کریں بابا میں آج سے ہی کام شروع کردونگا۔"
اس نے جلدی سے مودب بن کر کہا تھا۔
" مجھے امید تو تم سے کسی اچھے کام کی نہیں ہے لیکن پھر بھی تم کہ رہے ہو تو اعتبار تو کرنا ہی پڑے گا۔"
انہوں نے کرائیڈل سے ریسیور اٹھا کر شہرام کے روم کا نمبر ڈائل کیا تھا کچھ ہی دیر میں شہرام ان کے آفس میں موجود تھا۔
" جی بابا آپ نے بلایا مجھے؟"
شہرام نے حسن صاحب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" یہ ابشم آج سے تمہارے انڈر کام کرے گا پہلے اس کی پروگرس دیکھو اور پھر ہی اسے اپنا الگ روم ملے گا تب تک یہ تمہارے روم میں ہی بیٹھے گا۔"
انہوں نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
" جی بابا جیسا آپ کہیں۔"
اور پھر یکے بعد دیگر دونوں ان کے کمرے سے باہر نکل گئے تھے۔
" حد ہے بھئی صبح صبح نیند خراب کرکے آفس بھی بُلالیا اور الگ روم بھی نہیں دیا۔"
وہ منہ بسورتے ہوئے کہ رہا تھا شہرام کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
" کوئی بات نہیں تم کچھ دن کام کرو میں تمہارے لیے الگ روم کا ارینج کروا دونگا۔"
شہرام نے اس کے کندھے پر ہاتھ پھیلا کر کہا تھا اور دونوں اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ شدید تپی ہوئی گھر واپس آئی تھی حسب توقع نعیمہ بیگم گھر پر موجود نہیں تھیں جس شاپنگ کے لیے وہ کہ رہی تھیں وہ وہی گئی ہوئی تھیں اس بات کا اندازہ ابہا کو تھا وہ گھر آکر لاونج میں بیگ رکھ کر وہی صوفے پر لیٹ گئی تھی۔
" زبیدہ باجی!"
اس نے ملازمہ کو آواز دی تھی۔
" جی ابہا بیٹیا!"
وہ کیچن سے ہاتھ پونچھتی ہوئی آئی تھیں۔
" ایک گلاس ٹھنڈا پانی پلائیں پلیز۔"
" جی پر بیٹیا کھانا کب لگاو؟"
وہ ادھر ہی ٹھہر کر اس سے کھانے کی بابت پوچھ رہی تھیں۔
" مجھے بھوک نہیں ہے فل حال کوئی موڈ نہیں ہے میں روم میں سونے جارہی ہوں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔"
پانی کا گلاس خالی کرکے وہ میز پر رکھ کر اپنا بیگ سمبھالتی اوپر چلی گئی تھی۔

Eid ka khaas milan completed✔Where stories live. Discover now