Episode 2

4.2K 155 19
                                    

رات کا پہر تھا اس کا شیطانی ذہن جلدی سے منصوبہ ترتیب دے رہا تھا بس اسے مدد درکار تھی وہ برہان کو فون کرکے پہلے ہی پتہ کر چکا تھا کہ ابہا کی کیا مصروفیت رہی ہے آج وہ دبے پاوں اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا اس کا رخ اب شہرام کے کمرے کی جانب تھا۔ اس نے اس کے کمرے کے باہر پہنچ کر ہلکی سی دستک دی تھی وہ جانتا تھا کہ شہرام اس وقت ضرور آفس کا کوئی کام کررہا ہوگا اندر سے کم ان کی آواز سنائی دی تو وہ دروازہ دھکیل کر اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔

شہرام اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
" ابشم تم سوئے نہیں ابھی تک؟"
اس نے ابشم سے پوچھا تھا۔
" شیش! بھائی آہستہ بولیں کوئی سن لے گا۔"
شہرام نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا تھا اور بھر اس کی جانب متوجہ ہوکر بولا تھا۔
" تم تو مجھے ایسے خاموش کرا رہے ہو جیسے میں تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہوں اور رات کے اس پہر تم کسی غلط نیت سے میرے کمرے میں آئے ہو۔"
شہرام نے جو نقشہ اس لمہے اس کی آمد کا کھنچا تھا اس پر بے ساختہ ابشم کو ایک جھرجھری آئی تھی۔
" لاحولا استغفرواللہ بھائی کیسی باتیں کررہے ہیں میں تو کسی اور کام سے آیا تھا یہاں۔"
ابشم نے جھنجھلا کر اسے اپنی آمد کی وجہ بتائی تھی۔
" اچھا کام بولو دیکھو میں کوئی بھی فضول حرکت نہیں کرونگا تمہارے ساتھ مل کر یاد رکھنا تم۔"
اس نے انگلی اٹھا کر پہلے ہی اسے وارن کیا تھا۔
" بھائی! میرے پیارے بھائی!"
اس نے شہرام کی گردن دبوچی تھی۔
" ابشم کیا مسئلہ ہے ضرور کوئی الٹی حرکت کرنی ہوگی۔"
شہرام نے شکی نظروں سے ابشم کو دیکھا تھا۔
" بھائی بس ایک دفعہ ہیلپ کردیں پلیز اس ابہا کو مزہ تو چکھانا ہی ہے اس نے مجھے دادی اور بابا دونوں سے ڈانٹ پڑوائی تھی دیکھیں ادھر یہ میری معصوم شکل آپ کے اس معصوم چھوٹے بھائی کی کیسے بابا نے عدالت لگائی تھی دیکھا تھا نہ آپ نے؟"
چہرے پر معصومیت طاری کیے وہ فل فارم میں شہرام کو ایموشنل بلیک میل کررہا تھا۔
" اچھا کرنا کیا ہے؟"
شہرام ہمشہ کی طرح ایک بار پھر اپنے چھوٹے بھائی کے آگے ہار گیا تھا۔
" بھائی کرنا یہ ہے کہ۔۔۔۔ اور پھر اس نے ساری پلینگ شہرام کے گوش گزار کی تھی۔۔"
جسے سن کر شہرام لمہے میں چکرا گیا تھا۔
" پاگل ہو کیا تم اگر وہ ڈر کی وجہ سے بے ہوش ویوش ہوگئی یا اس کا ہارٹ فیل ہوگیا تو ؟"
شہرام کے چہرے پر گھبراہٹ واضح تھی۔
" ارے بھائی آپ فکر مت کریں دنیا پر سے بوجھ اتنی جلدی ہٹنے والا نہیں ہے یہ ابہا مرتضی سب کو مار کر ہی مرے گی۔"
اس نے تو جیسے ہاتھ جھاڑے تھے۔

وہ دونوں کچھ ہی دیر میں سامان سمیت دبے پاوں کمرے سے باہر تھے اور پھر سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے مین ڈور کھول کر پورچ کروس کرکے گیٹ کی جانب آئے تھے جہاں چوکی دار بیٹھا اونگ رہا تھا پہلے تو اسے اونگتے ہوئے دیکھ کر شہرام کو غصہ آیا تھا لیکن ابشم نے اس کی بازو کھینچ کر گیٹ کی جانب توجہ مبذول کرائی تھی تو دونوں آہستہ سے گیٹ کھول کر باہر نکل آئے تھے باہر سناٹوں کا راج تھا ہر طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے مرتضی ہاوس کے سامنے تھے۔
" ابشم ایک بار پھر سوچ لو بابا یا دادی کو پتہ چلا نہ تو بڑا برا حال ہوگا ۔"
شہرام نے اسے ڈرانے کی کوشیش کی تھی لیکن وہ ابشم ہی کیا جو ڈر جائے۔
" کچھ نہیں ہوتا آپ نے بس یہاں رک کر دھیان رکھنا ہے میں بس ابھی آیا۔"
وہ شہرام کو وہاں کھڑا کرکے خود پھرتی سے گیٹ پھلانگا تھا اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس لمہے چوکی دار گیٹ پر موجود نہیں تھا ورنہ پھر برا ہوسکتا تھا۔
وہ گیٹ پھلانگ کر پچھلی طرف والی بالکونی کی جانب آیا تھا اس بالکونی میں ہی ابہا کے کمرے کی کھڑکی کھلتی تھی۔اس نے اپنے بندر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پائپ تھاما تھا اور اسی کا سہارا لے کر اوپر بالکونی میں چڑھا تھا۔ بالکونی میں پہنچ کر اس نے احتیاط سے اس کی کھڑکی کھولی تھی اور خود اندر کی جانب بڑھا تھا اندر پہنچ کر اس نے سائیڈ پر پڑی ہوئی رائیٹنگ ٹیبل پر بائیں جانب نیچے کی طرف وہ ٹیپ فٹ کی تھی جو وہ اپنے ساتھ بھر کر لایا تھا اور پھر سب کچھ واپس سیٹ کر کے وہ بالکونی کی جانب بڑھا تھا۔ اس لمہے اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی اس نے ایک نظر کروٹ میں لیٹی ابہا کو دیکھا اور پھر ایک نظر اس ٹیپ کو۔
" اب آئے گا مزہ بڑا شوق ہے تمہیں مجھ سے پنگے لینے کا اب پتہ چلے گا کہ ملک ابشم سے پنگا لینے کا انجام ہوتا کیا ہے۔"
وہ خود سے کہ کر جلدی سے واپس بالکونی کی جانب آیا تھا اور پھر اسی پائپ سے نیچے اتر گیا تھا اور پھر گیٹ سے باہر آگیا جہاں شہرام اس کا بے صبری سے انتظار کررہا تھا۔
" کہاں رہ گئے تھے تم اگر چوکی دار واپس آجاتا تو کیا کرتے ہم؟"
" اف بھائی ایک تو آپ ڈرتے بہت ہیں کچھ ہوا تو نہیں نہ کیا چوکی دار واپس آیا؟ نہیں نہ تو۔"
" چلو اب۔"
اس نے اسے چلنے کے لیے کہا تو دونوں اپنے گھر واپس آگئے۔
" لیکن اب ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ وہاں ہوکیا رہا ہے؟"
شہرام نے تجسس سے اس سے پوچھا تھا۔
" ایسے۔"
اس نے اپنی جیب سے اپنا موبائل نکالا تھا اور ساتھ میں ایک ریموٹ بھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہی تھی جب اچانک کمرے میں پُرسرار سی فون کی گھنٹی بجی تھی اسے نیند میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو۔ مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
اس کے کمرے میں تو لینڈ لائن فون تھا ہی نہیں تو یہ گھنٹی کی آواز کہاں سے آرہی تھی اس کے حواس لمہوں میں بیدار ہوئے تھے اس نے نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا تھا لیکن کہیں سے بھی کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا اسے لمہوں میں فلم میں بجنے والی گھنٹی یاد آئی تھی اور اسی کے ساتھ اسے اپنی جان ہوا ہوتی ہوئی محسوس ہورہی تھی گھنٹی کی مسلسل آتی ہوئی آواز ایک دم بند ہوئی تھی۔
وہ پوری کی پوری پسینے میں بھیگ چکی تھی ڈر کے مارے اس نے اپنے منہ پر کمفٹر زور سے لے لیا تھا کچھ لمہے خاموشی کی نظر ہوئے تھے اسے اپنا آپ اس لمہے فلم میں کام کرنے والا وہ کردار محسوس ہورہا تھا جو اسی طرح رات کو اپنے کمرے میں سو رہی تھی اور پھر گھنٹی بجی تھی۔کچھ لمہوں کے بعد کمرے کی پرسوز خاموشی میں گھنگھروں کی تیز چھنکار گونجی تھی ابہا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا اس نے ہمت کرکے پوچھا تھا۔
" کو۔۔۔کون ہے یہاں؟"
خوف کے باعث حلق سے اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی مگر گھنگھروں کی چھنکار مسلسل جاری تھی وہ اپنا بستر چھوڑ کر بیڈ سے نیچے اتری تھی اور چیختے ہوئے کمرے سے باہر بھاگی تھی۔
دوسری طرف ابشم اور شہرام موبائل پر اس کے خوف کا ایک ایک منظر دیکھ رہے تھے دونوں کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
" ابشم بس کرو اب وہ بیچاری بہت ڈر گئی ہے مزید نہیں کرو ۔"
شہرام نے اپنی ہنسی کو بریک لگاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" میرا ایک پرسنٹ بھی اس پر رحم کھانے کا دل نہیں کرتا ہے۔

Eid ka khaas milan completed✔Onde histórias criam vida. Descubra agora