last Episode

1K 57 30
                                    

آخری قسط
" آو ابہی ادھر بیٹھو!"
الویرا نے ڈریسنگ کے سامنے رکھے ہوئے سٹول کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ بغیر کچھ کہے اس سٹول پر آکر بیٹھ گئی۔
" کیا ہوا اتنی خاموش کیوں ہو؟"
الویرا نے اسے پھولوں کے زیور پہناتے ہوئے کہا۔
" تو کیا کروں؟"
ابہا نے اس کے ہاتھ سے پھولوں کا سرخ بوندا لیتے ہوئے کہا۔
" یہ مت کرو ابہا پلیز!"
الویرا نے اسے گجرے پہناتے ہوئے کہا تھا۔
" میرے نہ کرنے سے کیا ہوگا الویرا اسے مجھ سے محبت تو ہو نہیں جائے گی۔"
اس نے ٹیکا لگاتے ہوئے کہا تھا۔
" پھر بھی ابہا۔"
وہ ایک بار پھر سے منمنائی تھی۔
" کچھ نہیں ہوتا الویرا جو انسان کے نصیب میں ہوتا ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے میرے نصیب میں عالیان ہی تھا سو وہ مجھے مل رہا ہے۔"
الویرا نے اس کے سر پر گوٹے والا دوپٹہ ڈالا تو اس نے آئینے میں مکمل اپنا جائزہ لیا۔ کھلے ہوئے شولڈر کٹ بال درمیان میں مانگ نکال کر دونوں طرف سے آگے تھے بیچ میں موتیے اور گلاب کا ٹیکا لگا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ تھا کانوں میں بھی موتیے اور گلاب کے آویزے تھے ہاتھوں میں گجرے تھے پیروں کو ملٹی شیڈ کے کھسے میں قید کیے بغیر کسی بھی قسم کے میک اپ کے وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
" تم بہت حسین لگ رہی ہو ابہا!"
الویرا نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا تھا۔ جس پر ابہا مسکرائی تھی۔
" چلیں نیچے؟"
اس نے اسے نظر انداز کرکے کہا تھا۔
" ہاں چلو"
اور وہ پھر اسے تھام کر سیڑھیوں سے نیچے آگئی جہاں ساری خواتین موجود تھیں کیونکہ مایوں خالصتاً خواتین کا فنکشن ہوتا ہے اس لیے کوئی مرد نہیں تھا۔ اسے ان کے لاونج میں پڑے ہوئے جھولے پر بیٹھایا گیا لیکن آج وہ جھولا ویسے سجا ہوا نہیں تھا جیسے رتاج کی مایوں میں سجایا گیا تھا۔
" ماشاءاللہ میری ابہی بالکل چاند کا ٹکرا لگ رہی ہے۔"
یہ دادی تھیں جو بلائیں لینے سب سے پہلے پہنچی تھیں اس کے بعد باقاعدہ رسم کا آغاز کیا گیا تھا سب نے باری باری اسے ابٹن لگایا تھا انٹن کے زرد رنگ کے پیچھے اس کے چہرے کا زرد رنگ کافی حد تک چھپ گیا تھا پیلے جوڑے میں وہ سوگوار حسن لیے وہاں بیٹھے نفوس کے دل میں اتر رہی تھی تھوڑے بہت ہلے گلے کے بعد مہمانوں نے اجازت چاہی تھی تو وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی تھک تو وہ بھی گئی تھی بے وجہ کا مسکرانا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ اسے آج سمجھ میں آیا تھا۔

الویرا،رتاج آئزہ سب ہی تو اپنے گھر چلے گئے تھے وہ اکیلی رہ گئی تھی اسے اپنی آنکھیں تھوڑی بھیگی ہوئی محسوس ہوئی تھیں چاند رات کو وہ ابہا مرتضی سے ابہا عالیان بن جائے گی آہ زندگی! کتنی مختصر ہوتی ہے ایک وقت ہوتا ہے جب انسان چھوٹا لاپرواہ ہوتا ہے بچپن میں قدم رکھتا ہے پھر بچپن سے جوانی کی دہلیز لمہوں میں آجاتی ہے اور جس گھر میں اپنی زندگی کا ایک عرصہ گزارا ہوتا ہے اسے چھوڑ کر کسی اجنبی کے گھر جاکر رہنا یہ حوصلہ اور جگرا اللہ نے صرف عورت کو ہی دیا ہے ورنہ مرد میں شاہد کبھی بھی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ سب چھوڑ کر جاتا اس دفعہ کی عید ابہا مرتضی کے لیے سب سے بُری عید تھی کم از کم وہ تو ایسا ہی سمجھتی تھی۔
نظر آیا جو ماہ تاب عید کا
میری دھڑکنیں بھی تیز ہوئیں
مہتاب کو ڈھانپے بادل جو جھٹے
کچھ کیے ہوئے وعدوں کی پرچار ہوئیں
چمکا جو مہتاب اپنے جوبن پر پوری طرح
اس سے ملن کی میری رات ہوئی
                                       ( ایمن خان)
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

Eid ka khaas milan completed✔Donde viven las historias. Descúbrelo ahora