Episode 9

486 22 1
                                    

کھانا کھانے کے بعد سب لوگ ڈانس فلور کے پاس جاکھڑے ہوئے تھے جہاں جونیرز نے اپنے سینرز کے لیے ایک زبردست ڈانس پرفارمنس کرنی تھی تیز میوزک کے باعث ایک دوسرے کی آواز سننا نامعمکن تھا وہ بھی الویرا کے ساتھ ڈانس فلور کی طرف آرہی تھی جب اس کا فون بجا تھا اس نے ہاتھ میں تھامے ہوئے اپنے فون کی سکرین پر دیکھا تو معما کالنگ چمک رہا تھا مگر یہاں پر بات کرنا مشکل تھا۔
اس نے الویرا کو ڈانس فلور کی جانب چلنے کو کہا اور خود فون کان کو لگا کر ڈیپارٹمنٹس کی جانب آگئی جہاں شور قدرے کم تھا وہ کوریڈور میں چلتے ہوئے نعیمہ بیگم سے بات کررہی تھی جیسے ہی وہ کال ختم کرکے موبائل بند کرنے لگی تھی کسی نے اسے پیچھے سے کلاس روم میں دھکا دیا تھا اور دروازہ باہر سے بند کردیا تھا۔ یہ سب کچھ بہت اچانک ہوا تھا اتنا اچانک کے اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔
اس نے دروازہ زور زور سے پیٹا تھا باہر اسے ایک شناسا سا قہقہ سنائی دیا تھا اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ رزم راجپوت اس کے سامنے ہو اور وہ اس کا منہ توڑ دے مگر کبھی کبھی قسمت بہت خراب چل رہی ہوتی ہے ابہا مرتضی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
" کمینے،جاہل پاگل انسان دروازہ کھولو مجھے باہر نکالو یہاں سے میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔"
اس نے اندر سے دروازہ پیٹتے ہوئے اس سے کہا تھا جو ابھی بھی باہر کھڑا مسلسل ہنس رہا تھا۔
" بے بی سوری ابھی میں تمہارے ساتھ اندر نہیں آسکتا لیکن ڈونٹ وری جیسے ہی پارٹی ختم ہوگی اور سناٹا چھائے گا میں تم سے ملاقات کے لیے ضرور آوں گا تب تک کے لیے بائے بائے میرا انتظار کرنا تم۔"
باہر خاموشی چھا گئی تھی جس کا مطلب صاف تھا کہ رزم جاچکا ہے مگر اس کے الفاظ ابھی بھی کہیں تھے ابہا کی روح اس کے لفظوں سے فنا ہورہی تھی اس نے آگے بڑھ کر زور زور سے دروازہ پیٹا تھا مگر وہاں دور دور تک صرف موسیقی کا شور تھا  اس کی مدد کو نہ کسی نے آنا تھا اور نہ ہی کوئی آیا تھا وہ بے حد خوفزدہ ہوگئی تھی عزت کی قدرو قیمت اسے زندگی میں پہلی بار محسوس ہوئی تھی۔
عزت کے بغیر عورت کا وجود ہی کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں عورت عزت کے بغیر بالکل ایک خالی برتن کی ماند ہے جو کبھی بھی کہیں پر لڑک جاتا ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہوتا ابہا کو بھی چند لمہے پہلے والے لفظوں سے اپنا وجود بے وزن لگ رہا تھا اسے نہیں معلوم تھا آنسو دھیرے دھیرے نکل کر اس کے گال بھگو رہے تھے عزت جانے کا خوف اس پر غالب آگیا تھا اور اس کا وجود خوف سے لرز رہا تھا وہ دھیرے دھیرے دروازے کے ساتھ نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی اسے اچانک اپنے ہاتھ میں پکڑے فون کا خیال آیا تھا۔
اس نے جلدی سے الویرا کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر جب قسمت خراب ہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے سگنل نہیں آرہے تھے بار بار کوشیش کرنے کے باوجود بھی کال نہیں ملی تھی وقت سرکتا جارہا تھا باہر رات اپنے پر پوری شان سے پھیلا رہی تھی اور اسی کے ساتھ ابہا کا چڑیا جتنا دل لرز رہا تھا۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ تقریبا رات کو بارہ بجے گھر پہنچا تھا وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا لاونج سے عجیب شور و غل کی آوازیں آرہی تھیں۔ پارٹی تو رات دس بجے ہی ختم ہوگئی تھی مگر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا تھا اس لیے آنے  میں بھی دیر ہوگئی تھی مگر اب گھر میں کیا چل رہا تھا اس بات سے وہ بالکل انجان تھا۔ اس نے لاونج میں قدم رکھا تو سب کی پریشان نظریں اس کی جانب ہی اٹھی تھیں۔
" ارے ابشم تو آگیا پتر ابہا کدھر ہے؟"
دادی نے ایک ہی سانس میں اس سے سوال پوچھ ڈالا تھا۔
اس نے حیرت سے پہلے دادی اور پھر باقی گھر والوں کی جانب دیکھا تھا نعیمہ بیگم کو تو جیسے ابہا کو ابشم کے ساتھ نہ دیکھ کر سکتہ ہی ہوگیا تھا۔
" کیا مطلب ہے آپ سب کا وہ میرے ساتھ کب گئی تھی میں تو دوستوں کے ساتھ تھا۔"
اس نے بوکھلاتے ہوئے کہا تھا کیونکہ اس کے گھر نہ پہنچنے سے پریشان تو وہ بھی ہوگیا تھا۔ نعیمہ بیگم کے آنسو ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوگئے تھے۔
" اس کا فون بھی نہیں مل رہا ہے وہ کہہ کر گئی تھی کہ میں ساڑھے دس تک گھر آجاوں گی پھر اب تو بارہ بج رہے ہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔"
نعیمہ بیگم روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
" نعیمہ تم فکر مت کرو یونی ورسٹی میں ہی ہوگی۔"
مرتضی صاحب نے انہیں دلاسہ دیا تھا۔
" پھوپھو آپ فکر مت کریں میں ابھی یونی ورسٹی جاکر چیک کرتا ہوں مل جائے گی وہ آپ پلیز رونا بند کریں۔"
ابشم نے نعیمہ بیگم سے کہا تھا۔
" مرتضی انکل آپ پلیز پھوپھو کو سمبھالیں میں برہان کو ساتھ لے جاتا ہوں۔"
اس نے مرتضی صاحب سے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
ابشم اور برہان یونی ورسٹی کی جانب چل دیے تھے آج زندگی میں پہلی بار ابشم کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ابہا کے ساتھ کچھ غلط ہونے کا خیال ہی اس کا سارا خون نچوڑنے کے لیے کافی تھا۔ وہ اندھا دھند گاڑی بھگا رہا تھا اسے کوئی ہوش نہیں تھی کہ سڑک پر آگے کیا آرہا ہے اور کیا نہیں اس لمہے اس کے ذہن کی سکرین پر ایک ہی نام گردش کررہا تھا اور وہ تھا ابہا مرتضی جو ناجانے کہاں تھی۔ اس نے گاڑی ایک جھٹکے سے یونی ورسٹی کے سامنے روکی تھی اور نیچے اترا تھا چوکیدار اسے روکنے اس کی جانب بڑھا تھا۔
" یونی ورسٹی بند ہوگئی ہے بیٹا تم اندر نہیں جاسکتے۔"
انہوں نے اس سے کہا تھا۔
" پلیز انکل اندر میری کزن ہے آپ ایک بار مجھے دیکھ لینے دیں آپ کی مہربانی ہوگی۔"
اس نے منت بھرے انداز میں چوکیدار سے کہا تھا۔
" لیکن بیٹا اندر کوئی نہیں ہے پارٹی کے بعد سب لوگ جاچکے ہیں۔"
چوکیدار نے پھر سے اس سے کہا تھا۔
" ایک بار دیکھ لینے دیں بھلے ہی آپ میرے ساتھ اندر آجائیں۔"
اس نے اب کی بار بہت مشکل سے خود پر ضبط کیا تھا۔
" ٹھیک ہے تم دیکھ لو جاکر۔"
چوکیدار نے اسے بولا تو وہ برہان کے ساتھ یونی ورسٹی کے اندر آگیا۔
" برہان تم اس طرف کے ڈیپارٹمنس چیک کرو اور اسے آواز بھی دینا اور میں دوسری جانب جاتا ہوں جیسے ہی وہ ملے مجھے فون کرنا اوکے۔"

Eid ka khaas milan completed✔Where stories live. Discover now