Episode 5

481 24 0
                                    

ابہا نے اسے دور سے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا مگر پھر بھی وہ اسے نظر انداز کرکے ویسے ہی الویرا کے ساتھ باتوں میں مگن رہی تھی مگر ابشم اس کے سر پر پہنچ گیا اور اس نے ابہا کو بازو سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا تھا آنکھیں غصے کی شدت سے لال انگارہ ہورہی تھیں۔
" کیا بدتمیزی ہے یہ چھوڑو میرا بازو تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی؟"
وہ اس کی گرفت سے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے غرائی تھی۔
" جسٹ شٹ اپ آواز نہ آئے تمہاری چلو میرے ساتھ۔"
وہ اسے بازو سے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے کر جارہا تھا ابہا کے ہاتھ پر ابشم کی گرفت بے حد مضبوط تھی ابہا اپنی پوری طاقت لگا کر اس سے اپنا بازو چھڑوانے میں کامیاب ہوئی تھی۔
" چھوڑو مجھے گھٹیا مینڈھے تمہاری جرات بھی کیسے ہوئی میرے ساتھ ایسے بی ہیو کرنے کی تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے ہاں تمہاری کوئی پرائیویٹ پراپٹی ہوں میں جس کا ہاتھ پکڑ کر تم لے کر جارہے تھے۔"
اس کا غصہ کسی طور بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
" بکواس بند کرو یو چمگادڑ آئیندہ اگر تم مجھے بغیر دوپٹے کے باہر نظر آئی نہ تو آئی سویر میں تمہارا بالکل بھی کوئی لحاظ نہیں کرونگا سمجھی۔"
ابشم نے انگلی دیکھاتے ہوئے ابہا سے کہا تھا۔
" کیوں تم ہوتے کون ہو مجھ پر روب جمانے والے جب میرے بابا کو کوئی پروبلم نہیں ہے میں جیسے مرضی کپڑے پہنو تو تمہیں کیا مسئلہ ہے اپنی یہ رسٹرکشنز اپنے تک رکھو سمجھے نہ مجھے اس سب میں انولو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ اسے غصے سے کہہ کر تیز تیز چلتی ہوئی مال سے باہر آگئی تھی ابشم نے اپنی مٹھیاں غصے سے پینچی تھیں اس کی رگیں غصے سے تنی ہوئی تھیں اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابہا مرتضی کی عقل میں یہ بات ڈال کر اسے دنیا کی غلیظ نظروں سے بچالے لیکن یہ جذبہ صرف وقتی تھا اس کے بعد اس نے کافی حد تک اپنے غصے کو قابو میں کرلیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

وہ انتہائی ریش ڈرائیو کرکے گھر پہنچی تھی ابشم کی آج کی ہمت پر واقعی ہی ابہا دنگ تھی گھر پہنچ کر اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور اپنا بیگ سمبھالتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی۔ نعیمہ بیگم لاونج میں ہی بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں ابہا کو غصے کی حالت میں آتے ہوئے دیکھا تو وہ ایک دم پریشان ہوگئی تھیں مگر ابہا ان کے پاس رکنے کی بجائے سیدھا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی تھی مگر انہوں نے اسے آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
" ابہی رکو!"
انہوں نے اسے آواز دی تو اس کے سیڑھیاں چڑھتے قدم ایک لمہے کے لیے تھمے تھے۔
کیا ہوا تھا الویرا کو سب خیر تو تھی نہ؟"
ان کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے وہ اس کے جانے کے بعد سے وہی پر بیٹھی اس کی واپسی کا انتظار کررہی ہوں لیکن ابہا کی اب کی غصے سے بھری ہوئی حالت دیکھ کر وہ حقیقی معنوں میں بےحد پریشان ہوگئی تھیں۔

" معما میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔"
وہ کہہ کر واپس اوپر جانے لگی تھی جب نعیمہ بیگم نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم ایک بار پھر سے روکے تھے۔"
" ابہا فوری نیچے واپس آو اور بتاو مجھے کہ کیا ہوا ہے ہر وقت اپنی مرضی کرنا اچھی بات نہیں ہوتی میری پریشانی کا تمہیں زرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔"
وہ سپاٹ لہجے میں اس سے کہہ رہی تھیں۔ ان کی بات سن کر ابہا مڑ کر واپس نیچے آگئی تھی اس کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک سنجیدگی لیے ہوئے تھے وہ چلتی ہوئی ان کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
" اب بتاو کیا ہوا ہے تم اتنا غصے میں کیوں گھر آئی ہو؟"
نعیمہ بیگم نے اس سے پیار سے پوچھا تھا۔
" جب تک میرا سامنا آپ کے اس مینڈھے بھتیجے سے نہ ہو جائے میرا تو جیسے دن ہی سکون کا نہیں گزرتا اب بھی وہی شاہکار مل گیا تھا۔"
وہ غصے سے بھرے لہجے میں ان سے کہ رہی تھی۔ نعیمہ بیگم نے ایک گہرا ہنکارا بھرا تھا اور پھر بولی تھیں۔
" تم تو الویرا سے ملنے گئ تھیں تو یہ وہاں ابشم کیسے آگیا؟"
نعیمہ بیگم نے الجھ کر اس سے پوچھا تھا جواب میں ابہا نے وہاں پر ہونے والا سارا واقعہ انہیں سنا دیا تھا کہ کس طرح ابشم اس کے مقابل آیا اور پھر دونوں کی کیا بات ہوئی اس نے ایک ایک بات لفظ با لفظ انہیں بتادی تھی۔
اس کی تمام باتیں سن کر نعیمہ بیگم نے ایک بار پھر سے گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون کیا تھا اور اپنی بیٹی کو وہ سمجھانے کے لیے خود کو تیار کیا تھا جو انہیں شاہد بہت پہلے سمجھا دینا چائیے تھا لیکن اس کی ضدی طبعیت کی وجہ سے وہ اسے سمجھا نہیں پائی تھیں ابہا غور سے اپنی ماں کے چہرے کے اتار چڑھاو جانچ رہی تھی جب وہ بولیں تو ان کے سرد تاثرات اور بے ربط جملے نے ابہا کو حیران کردیا تھا۔
" تو کیا غلط کیا اس نے؟''
نعیمہ بیگم نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔
" کیا مطلب ہے آپ کا کیا جو ابشم نے میرے ساتھ مال میں کیا وہ ٹھیک تھا؟"
ابہا آنکھیں بڑی کیے بے یقینی کی کیفیت میں گھری ہوئی ان سے پوچھ رہی تھی۔
" ہاں بالکل ٹھیک کیا اس نے اس کی جگہ اگر کوئی بھی غیرت مند مرد ہوتا تو وہ یہی کرتا حتی کہ تمہارا اپنا بھائی بھی ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔"
ان کا لہجہ سپاٹ تھا بغیر کسی لچک کے ابہا نے ایک بار پھر بے یقینی سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
" دیکھو بیٹا میں تمہاری ماں ہوں تمہارے لیے کبھی بھی غلط نہیں سوچ سکتی اور یہ جو لڑکیوں کی عزت ہوتی ہے نہ ایک نازک سے کانچ کی طرح ہوتی ہے جہاں ہلکی سی بھی دڑاڑ پڑجائے تو سارا کردار دھندلا جاتا ہے اور لباس ایک عورت کی شخصیت کا ایسا ہتھیار ہوتا ہے جس سے یہ معاشرہ عورت کا کردار بڑے ہی دھڑلے سے جانچتا ہے اگر عورت مغربی طرز کے لباس میں چلتی پھرتی نظر آئی تو اس معاشرے نے اسے بدکردار ماڈرن اور بے حیا کہنے میں لمہہ نہیں لگانا اور اگر وہی عورت اگلے لمہے برقے اور حجاب میں نقاب پہن کر آجائے تو وہی عورت پاک صاف ہوجاتی ہے جس کا کچھ لمہے پہلے والا مشکوک کردار ایک دم آئینے کی طرح شفاف ہوجاتا ہے۔"
وہ سامنے دیکھتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر روانی سے بول رہی تھیں اور شاہد ابہا مرتضی کو زندگی میں پہلی بار لگا تھا کہ اس کی ماں کے لہجے میں اللہ نے بے پناہ تاثیر رکھی ہے۔وہ ابھی ماں کے لفظوں میں ہی تھی جب وہ پھر سے گویا ہوئی تھیں۔
" میں جانتی ہوں کہ میری بیٹی مغربی طرز کا لباس زیب تن کر کے بھی کردار کے معاملے میں آئینے کی طرح شفاف ہے مگر یہ معاشرہ یا ابشم نہیں جانتے انہیں تمہارے کردار کی پاکیزگی کے لیے تمہارے لباس کا مناسب ہونا لازم ہے اگر تم اس لباس میں باہر جاوگی تو وہ تمہارے بارے میں جو مرضی اخذ کرسکتے ہیں اور ایک ماں ہونے کے ناطے کم از کم میرا ضمیر تو یہ برداشت نہیں کرے گا۔ اپنی بات کے بعد وہ مزید گویا ہوئی تھیں۔
" میں جانتی ہوں میری بیٹی بہت سمجھدار ہے اور میرے جملے اور لفظ وہ کیسے سمجھتی ہے یہ اس پر منحصر ہے۔"
وہ کہ کر اس کو سوچوں کے بھنور میں چھوڑ کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں اور آج زندگی میں پہلی بار ابہا مرتضی کو اپنے جسم میں گڑی ہوئی رزم راجپوت اور شاہزیب جیسے مردوں کی نظریں یاد آئی تھیں اور دوسرے ہی لمہے اس کے ذہن کی سکرین پر ملک ابشم حسن کا عکس لہرایا تھا اب اسے اس لمہے ابشم حسن برا نہیں لگا تھا وجہ وہ نہیں جانتی تھی لیکن ابشم کی شخصیت کو لے کر اسے ایک عجیب سے فخر کا احساس ہوا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ گھر آگیا تھا اس نے پارٹی اٹینڈ نہیں کی تھی شاہزیب کے ابہا کے متعلق کہے گئے جملے اس کی سماعتوں میں گونج رہے تھے وہ مسلسل اپنی سوچ کو جھٹک رہا تھا لیکن کسی طور بھی کامیابی نہیں ہورہی تھی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا تھا اور گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹا تھا۔
" تم کس حق سے مجھ پر رعب جما رہے ہو۔"
ابہا کا کہا گیا جملہ اس کے کانوں میں گونجا تھا۔
" ٹھیک ہی تو کہ رہی تھی وہ میں کس حق سے اس پر رعب جما رہا تھا مجھے کیوں شاہزیب کا اس کے بارے میں بات کرنا برا لگا تھا وہ جو مرضی کرے جو مرضی پہنے اس کی اپنی چوائس ہے۔"
وہ کہ کر آنکھیں موند گیا تھا ابھی اسے لیٹ تھوڑی دیر ہی گزری تھی جب آئزہ دروازہ دھکیل کر اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
" بھیا آپ کب آئے؟"
اس نے ابشم سے پوچھا تھا۔
" بس ابھی آیا ہوں تم مجھے ایک کپ چائے پلا دو پلیز۔"
اس نے آئزہ سے کہا تھا۔
" اچھا میں بناتی ہوں آپ نیچے آجائیں دادی آپ کو یاد فرمارہی تھیں۔"
آئزہ نے اسے دادی کے بلاوے کے متعلق کہا تھا۔
" اچھا تم چلو میں فریش ہوکر آتا ہوں۔"
وہ سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی تو وہ بھی اٹھ کر فریش ہونے کی غرض سے واشروم کی جانب چل دیا کچھ ہی دیر میں وہ فریش ہوکر گرے ٹراوزر کے ساتھ بلیک ٹی شرٹ پہنے ڈرئسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تھا جہاں اس کے گیلے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے نظر آرہے تھے اس نے ہیر برش سے اپنے گیلے بال پیچھے کرکے کنگی کیے اور خود پر پرفیوم کا اچھا خاصہ اسپرے کرکے  سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے آگیا۔

Eid ka khaas milan completed✔Waar verhalen tot leven komen. Ontdek het nu