Episode 6

457 23 0
                                    

یہ لو جی جن لوگوں کی شادی ہے وہ تو یہاں میگزین پڑھ رہے ہیں ۔"
وہ اس کے برابر میں لیٹتے ہوئے بولی تھی۔
" تو اب کیا کروں اٹھ کر ناچنا شروع کردوں؟"
رتاج نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" بنتا تو یہی ہے آپ کا ویسے کیوں نہ اس دفعہ ایک سرپرائز ڈانس آپ کا بھی ہوجائے؟"
" کیا پاگل ہوگئی ہو تم؟"
رتاج کو واقعی ہی اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہورہا تھا۔
" لے بھلا اس میں پاگل ہونے والی کونسی بات ہے اور شہرام بھیا کے لیے بھی سر پرائز ہوگا۔"
ابہا ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے کہ رہی تھی۔
" صیح کہ رہی ہیں ابہی آپی ایسا ہی ہونا چائیے اور میں نے تو الویرا آپی کو بھی فون کرکے سختی سے ڈانس پریکٹس میں آنے کا کہہ دیا ہے۔"
آئزہ جوش سے ان دونوں سے بولی تھی۔
" ارے واہ یہ تو تم نے بہت ہی اچھا کام کیا۔"
دونوں نے اسے داد دی تھی۔
" اچھا ابہا یہ بتاو کپڑے کیسے بنانے ہیں اور ہاں یہ جینز ٹاپ تو بھول جاو تم سمجھی میں تمہیں اپنی شادی پر نمونہ بن کر آنے ہرگز نہیں دونگی۔"
رتاج سختی سے اسے انگلی دیکھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔جس پر ابہا مسکرائی تھی۔
" ٹھیک ہے اس دفعہ جو آپ میرے لیے پسند کریں گی میں وہی پہنوں گی۔"
اس نے تو جیسے رتاج اور آئزہ کو یہ بات کہہ کر حیران ہی کردیا تھا۔
" تم سچ کہ رہی ہو ابہا؟"
رتاج نے بے یقینی سے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں جی اس دفعہ بالکل سچ آپ کی شادی پر آپ کو نئی ابہا ملے گی۔"
اس نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے آرام سے کہا تھا۔
" واہ ڈیٹس سرپرائزینگ۔"
رتاج نے آنکھیں نکالی تھیں۔
" بس بھی کردیں آپی اگر وہ کہہ رہی ہیں تو سچ مانیں اسے۔"
آئزہ نے بھرپور طریقے سے ابہا کی سائیڈ لی تھی۔
پھر کتنی دیر تینوں نے مختلف پلینگ کرتے ہوئے گزار دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہائے یار کیسا ہے تو؟"
معاذ نے ابشم کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔
" میں بالکل ٹھیک ہوں تو بتا؟"
ابشم نے اس سے پوچھا تھا۔
" میں بھی بالکل ٹھیک ہوں مجھے ایکچولی تجھ سے سوری کرنا تھا۔"
معاذ نے شرمندہ ہوتے ہوئے ابشم سے کہا تھا
" کس بات کے لیے ؟"
ابشم نے جانتے ہوئے بھی بے نیازی برتنا ضروری سمجھا تھا۔
" وہ جو اس دن شاہزیب نے ابہا کے بارے میں کہا۔"
معاذ نے اس کے آگے بات خود ہی ادھوری چھوڑ دی تھی۔معاذ ابشم کا ایک بہت ہی اچھا دوست تھا یونی ورسٹی میں ابشم،معاذ،دانیال اور شاہزیب کا ایک ہی گروپ تھا۔
" اٹس اوکے یار تیری غلطی نہیں تھی۔"
ابشم نے اسے گلٹ سے باہر نکالا تھا۔
" اچھا چھوڑ میں تجھے یہ کارڈ دینے آیا تھا۔"
ابشم نے شادی کا کارڈ نکال کر اس کے سامنے میز پر رکھا تھا۔
" ارے واہ شہرام بھیا کی شادی کا کارڈ۔"
اس نے کارڈ دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" ابشم یار مجھے بھی ایک بات بتانی تھی تجھے۔"
معاز نے ابشم کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" تو جلدی بول نہ اور میرے ساتھ ڈانس کرنا تونے بھائی کی شادی پر۔"
ابشم نے اسے پہلے ہی ڈانس کرنے کا کہہ دیا تھا۔
" ہاں ہاں کر لیں گئے اب میری بات بھی سن۔"
اس نے جلدی سے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
" وہ معما اور ڈیڈ نے میرے لیے لڑکی دیکھی ہے کوئی۔"
معاذ نے جلدی سے کہہ کر ابشم کی طرف دیکھا تھا جو منہ کھولے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
" اوے منہ بند کرلے یوں نہ ہو کہیں مکڑا چلا جائے۔"
معاذ نے اس کا منہ پکڑ کر بند کیا تھا۔
" یہ مکھی تو سنا تھا میرے منہ میں مکڑا کیوں جائے گا؟"
ابشم نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" کیونکہ تیرا منہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے مکڑا ہی سوٹ کرے گا۔
" معاذ نے قہقہ لگا کر اس سے کہا تھا۔
" بکواس نہ کر میرے ساتھ زیادہ اور تونے بولا تھا میرے ساتھ شادی کرے گا تو پھر اب کیوں خود پہلے کررہا ہے۔"
ابشم کو تو جیسے صدمہ ہی ہوگیا تھا۔
" یار بابا کے کسی کزن کی بیٹی ہے اور تونے اللہ جانے کب کرنی شادی میں تو کروں نہ۔"
اس نے بھی کندھے اچکا کر بڑے ہی آرام سے کہا تھا۔
" اچھا بھئی بس دیکھ لیا ٹائم پر ڈانس پریکٹس کے لیے پہنچی ورنہ میں نے تیری شادی سے پہلے ہی طلاق کرا دینی ہے۔"
ابشم نے اسے مکہ مارتے ہوئے کہا تھا۔
" لاحولا کیا بک رہا ہے۔"
معاذ کو تو جیسے سکتہ ہوتے ہوتے رہا تھا۔
" وہی جو تونے سنا۔"
پھر کافی دیر دونوں نے گپ شپ کی اور پھر کھانا بھی اکھٹے کھایا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شادی کی تیاریاں اپنے پورے جوبن پر تھیں وہ نئے سمسٹر کے سٹارٹ ہونے کی وجہ سے چھٹی نہیں کرسکتی تھی اس لیے اب بھی وہ جلدی جلدی تیار ہوکر یونی ورسٹی کے لیے نکلی تھی وہ بلیک اور وائٹ مکس لائینگ والے گھٹنوں تک آتے کرتے کو بلو جینز کے اوپر پہنے ہوئے تھی گلے میں بلیک سٹولر لپیٹے بالوں کو پونی ٹیل میں قید کیے وہ اپنی گاڑی ڈرائیو کررہی تھی جب اچانک سڑک کے بیچو بیچ ایک دم سے گاڑی بند ہوگئی تھی۔
" شٹ یہ اسے کیا ہوگیا میری اتنی اہم کلاس ہے اور یہ سڑک کے بیچ و بیچ بند ہوگئی۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی گاڑی سے باہر نکلی تھی اور آگے آکر بونٹ کھول کر گاڑی کا مسئلہ سمجھنے کی کوشیش کررہی تھی۔اس نے فون برہان کو ملایا تھا کہ اس سے میکینک کا نمبر لے گی لیکن وہ بھی کال رسیو نہیں کررہا تھا۔
" اف اب میں کیا کروں میری کلاس نکل جائے گی۔"
وہ حقیقی معنوں میں پریشان ہوگئی تھی وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر سوچ رہی تھی کہ اب اسے کرنا کیا ہے جب دور سے اسے ایک کالے رنگ کی سیوک آتی ہوئی دیکھائی تھی۔ وہ سیوک اس کے قریب آکر رکی تھی گاڑی کے رنگ کی طرح اس کے شیشے بھی کالے ہی تھے جس کے باعث اس کے اندر بیٹھے انسان کا اندازہ لگانا ایک مشکل کام تھا۔
ایک پل میں شیشہ نیچے ہوا تھا اور جس شخصیت کو اندر بیٹھے ابہا نے دیکھا تھا اسے دیکھ کر ہی اس کی جان پورے جی جان سے جل گئی تھی۔
" ہائے ڈارلنگ!"
اس نے آنکھوں سے چشمے اتارتے ہوئے ابہا سے کہا تھا جو اس سے بے نیازی اور لاتعلقی اختیار کیے بالکل سامنے دیکھ رہی تھی۔
" ہائے اب ہم سے ایسے منہ موڑو گی تم پنگے لیتے ہوئے تو زرا بھی نہیں سوچتی ہو۔"
رزم اب گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے اس سے کہہ رہا تھا۔
" بکواس بند کرو چیپ انسان اور جاو یہاں سے۔"
ابہا نے اسے وہاں سے جانے کے لیے کہا تھا۔
" سوچ لو میں چلا گیا تو کیا ہوگا سنسان سڑک،تم اکیلی لڑکی یہاں کوئی بھی تمہارے ساتھ کچھ بھی کرسکتا ہے۔"
جو نقشہ اس نے اس لمہے ابہا کے سامنے کھنچا تھا اس سے ابہا کو بے ساختہ جھرجھری آئی تھی۔
" بکواس بند کرو اپنی طرح ہر وقت ہی گھٹیا سوچتے ہو۔"
وہ اب مسلسل فون ملا رہی تھی لیکن نتیجہ سفر کا سفر۔
ابشم صبح صبح معاذ سے مل کر اب آفس جارہا تھا جب دور سے ہی روڈ پر دو گاڑیاں کھڑی ہوئی دیکھائی دی تھیں اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی تھی جس کے پاس ایک لڑکا کھڑا تھا اس لڑکی کی باڈی لیونگج ہی ابشم کو بتارہی تھی جیسے وہ اس سامنے والے لڑکے سے بیزار ہو جوں جوں وہ گاڑی آگے بڑھا رہا تھا اس کے ماتھے کے بلوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا تھا کیونکہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ ابہا تھی اور اس کے سامنے رزم کھڑا تھا ابشم نے غصے سے اپنی مٹھیاں پینچی تھیں اور گاڑی ایک جھٹکے سے ابہا کے قریب روکی تھی ابہا نے چونک کر رکنے والی گاڑی کی جانب دیکھا تو جیسے اس کی سانس میں سانس آئی تھی۔
" از دئیر آینی پرابلم ابہا؟"
ابشم نے گاڑی کا شیشہ نیچے اتارتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاں وہ ابشم میری گاڑی خراب ہوگئی ہے اور مجھے جلدی یونی ورسٹی پہنچنا ہے میری کلاس ہے۔"
شاہد زندگی میں پہلی بار ابشم اور ابہا اتنی نرمی سے ایک دوسرے سے مخاطب تھے یہاں اگر دادی ان دونوں کو دیکھ لیتی تو واقعی ہی بےہوش ہوجاتیں۔
" اوکے آجاو میں ڈراپ کردیتا ہوں گاڑی ڈرائیور صیح کراکے یونی ورسٹی ڈراپ کردے گا۔"
ابشم نے رزم کو نظرانداز کرکے ابہا سے کہا تھا۔
" اوکے۔"
وہ رزم پر ایک جتاتی ہوئی نظر ڈال کر ابشم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
اس کے بیٹھتے ہی ابشم نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی اور زن سے آگے بڑھا لے گیا ان دونوں کے جاتے ہی رزم نے اپنی مٹھیاں غصے سے پینچی تھیں۔
" اس ابہا کو تو اب میں چھوڑوں گا نہیں بہت سمارٹ سمجھتی ہے خود کو۔"
وہ نفرت سے سوچ رہا تھا۔
" یہ رزم آخر چاہتا کیا ہے تم سے؟"
ابہا کو امید نہیں تھی کہ ابشم اس سے یہ سوال کرے گا وہ مسلسل ابہا کی جانب ہی دیکھ رہا تھا۔
" آئی ڈونٹ نو کہ یہ مجھ سے کیا چاہتا ہے بس اس دن سے ہی پیچھے پڑا ہوا ہے۔"
ابہا غصے سے اسے کہہ رہی تھی۔
" ہاں تو سلطان گولڈن کی بہن کم بنا کروں نہ تو نہیں پڑے گا کوئی تمہارے پیچھے۔"
وہ آرام سے کہہ رہا تھا۔
" کون سلطان گولڈن؟"
ابہا نے ایک آبرو اچکا کر اس سے پوچھا تھا۔
" وہی جو گولڈن کپڑے پہن کر سٹنٹ کرتا تھا۔"
ابشم نے مسکراہٹ دبا کر اس سے کہا تھا۔
" تم ہو گے سلطان گولڈن کے بھائی سیدھی طرح لے کر جانا ہے تو جاو ورنہ میں ادھر ہی اتر جاوں گی۔"
ابہا منہ پھلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
ابشم نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی۔
" اترو جلدی نیچے!"
ابشم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے گاڑی سے اترنے کے لیے کہا تھا ابہا نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
" تم پر کبھی ٹرسٹ کرنا ہی نہیں چائیے تھا۔"
وہ یہ کہہ کر گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتری تھی پر سامنے اپنی یونی ورسٹی کا گیٹ دیکھ کر کافی حد تک شرمندہ بھی ہوئی تھی۔
" اپنوں پر ٹرسٹ کرنا اٹلیسٹ غیروں سے ڈرنے سے بہتر ہے۔"
ابشم نے سیدھا دیکھتے ہوئے اس سے کہا تھا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا تھا۔لیکن ابہا جیسے اس کے کہے گئے جملے پر ساکت ہوگئی تھی اس نے تو کبھی زندگی میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ابشم اس سے کبھی بھی ایسی کوئی بات کرے گا۔
" کیا ہوا ابہا یہاں کیوں کھڑی ہو اندر نہیں چلنا کیا؟"
الویرا نے اس کا کندھا ہلا کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
" ہاں چلو وہ تو بس میں ایسے ہی۔"
وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول کر اس کے پیچھے یونی ورسٹی کے گیٹ کی جانب بڑھ گئی تھی۔
شام کو ایک بار پھر سے سب ملک ہاوس میں اکھٹے تھے۔
" ہاں بھئی حسن سارے کارڈ بٹ گئے کہ نہیں؟"
دادی اپنی عینک درست کرتے ہوئے سامنے بیٹھے حسن صاحب سے کہہ رہی تھیں۔
" جی اماں تقریباً سب کو ہی بھجوا دیے ہیں جو رہ گئے ہیں وہ میں نے ابشم سے بول دیا تھا وہ بھجوا دے گا۔"
ابہا دادی کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی دوسری طرف رتاج بیٹھی ہوئی تھی جبکہ گھر کی خواتین نعیمہ بیگم سمیت روز کی طرح بازار گئی ہوئی تھیں۔
" اسلام علیکم! ایوری ون؟"
ابشم اور شہرام نے بیک وقت اندر آتے ہوئے سب کو سلام کیا تھا۔ابہا نے ایک نظر دادی کے پیچھے سے ابشم کے ترو تازہ چہرے پر ڈالی تھی جہاں اس کو دیکھنے کے باوجود صبح والی بات کا کوئی شائیبہ تک موجود نہیں تھا۔
" آئزہ ایک گلاس پانی کا پلاو۔"
اس نے کارپیٹ پر بیٹھی ہوئی آئزہ کے سر پر چیت لگا کر اسے کہا تھا۔
" جی بھیا!"
وہ اٹھ کر کیچن کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ شہرام نے ایک چور نگاہ رتاج پر ڈالی تھی لیکن دادی سے اس کی نگاہ مخفی نہ رہ سکی تھی۔
" اے کچھ خدا کا خوف کر تو شہرام بس دس دن تو رہ گئے ہیں شادی میں اور تو پھر بھی میری بچی کو دیکھنے سے باز نہیں آرہا ہے۔
" اے رتاج خبردار جو تو آئیندہ شادی سے پہلے اس کے سامنے بھی آئی تو۔"
دادی کی توپوں کا رخ اب رتاج کی جانب تھا جبکہ شہرام اپنے بابا اور چچا کے سامنے بے حد شرمندہ ہوگیا تھا۔
" جا ابہا اسے لے کر اندر جا اور تو نے دھیان رکھنا ہے کہ یہ شہرام اس سے نہ ملے۔"
دادی نے اب اپنے کندھے سے لگی ابہا کو کہا تھا۔
" جی نانو بالکل پکی نظر رکھوں گی میں ان دونوں پر۔"
اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا تھا اور معنی خیزی سے دونوں کی طرف دیکھا تھا جبکہ شہرام تو اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کو وہ واپس گھر آگئی تھی نعیمہ بیگم لاونج میں بیٹھی ہوئی تھیں تو وہ بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی اور ٹی وی ان کرلیا تھا۔
" ابہا کیا بات ہے بچے اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں تم بہت خاموش ہو۔"
نعیمہ بیگم نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

Eid ka khaas milan completed✔Where stories live. Discover now