Episode 7

491 20 2
                                    

رات کو وہ کپڑے چینج کرکے ٹراوزر کے ساتھ ٹی شرٹ پہن کر بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں لپیٹ کر واش روم سے باہر آئی تو رتاج اپنی جیولری اتار رہی تھی اس کے چہرے سے ہی خوشی اور مسرت جھلک رہی تھی اس کا چہرہ دیکھ کر ابہا کے اندر ایک عجیب سے سوال نے سر اٹھایا تھا اپنی بیس سالہ زندگی میں اس کے اندر کبھی محبت لفظ کے بارے میں جاننے کی خواہش نے سر نہیں اٹھایا تھا لیکن آج اس کے دل میں یہ خواہش اٹھی تھی کہ وہ جانے کہ جب کسی انسان کو محبت ہوتی ہے تو اس کے اندر کیسے جذبات سر اٹھاتے ہیں۔
وہ قدم قدم چلتی ہوئی بیڈ پر رتاج کے پاس آگئی جہاں اب ایک طرف وہ لیٹ چکی تھی ابہا بھی دوسری طرف آکر اس کے برابر میں لیٹ گئی۔ اس نے غور سے رتاج کے چہرے کی جانب دیکھا تھا اور پھر مسکرائی تھی۔
" کیا محبت ہوگئی شہرام بھیا سے؟''
ابہا نے اس کی جانب کروٹ لیتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا جس پر رتاج نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا اور پھر مسکرائی تھی۔
" ہاں محبت ہوگئی مجھے۔"
اس نے مسکرا کے ہی کہا تھا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر ابہا بھی مسکرائی تھی۔
" آپی ایک بات پوچھوں آپ سے؟"
اس نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" ہاں بالکل پوچھو تمہیں اجازت کی کیا ضرورت ہے۔"
رتاج نے اس کے منہ پر آئے بال ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوئے کہا تھا۔
" یہ محبت کیسے ہوتی ہے؟ میرا مطلب ہے انسان کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟"
وہ پرسوچ انداز اپنائے ہوئے رتاج سے پوچھ رہی تھی۔
اس کی بات سن کر رتاج نے گہرا سانس بھرا تھا اور پھر گویا ہوئی تھی۔
" ابہا جب اچانک سے کسی انسان کو دیکھ کر آپ کے اندر اس کا ساتھ پانے کی خواہش سر اٹھانے لگے نہ اور آپ کا دل اس کی جانب ہمکنے لگے آپ کو اس کی کوئی برائی نظر نہ آئے اور دل صرف اس کی اچھائیوں پر گواہی دینا شروع کردے تو سمجھ لو محبت نامی پنجرے نے آپ کے وجود کو اپنی ناتواں قید میں ڈالنے کے لیے چن لیا ہے اور آپ عمر بھر کے لیے اس پنجرے کے قیدی ہی رہو گئے پھر فرار کی کوئی راہ آپ کو اس قید سے رہائی نہیں دلا سکتی کیونکہ جب تک اس سے رہائی کا وقت آتا ہے آپ کو اپنے اس پنجرے سے اتنی انسیت ہوجاتی ہے کہ آپ کو لگ رہا ہوتا ہے جیسے آپ نے اس سے ایک قدم بھی باہر نکالا تو آپ کو سانس نہیں آئے گی۔"
رتاج کے لفظ ابہا کی سماعتوں میں حیرانی کے ساتھ ساتھ شیرینی بھی گھول رہے تھے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ محبت ایک پنجرہ ہے جو انسان کو اپنی قید میں ڈال کر کبھی باہر نہ نکلنے کا پروانہ تھاما دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں مزید سوال مچلنے لگے تھے جیسے کہ کیا یہ سب کو حاصل ہوجاتی ہے اور اس نے یہ سوال پوچھنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگایا تھا۔
" نہیں محبت سب کے مقدر میں نہیں ہوتی مگر سب اس سے محروم بھی نہیں ہوتے اگر کسی کو اس کی دنیاوی محبت نہ ملے تو اللہ تعالی اسے اپنی روحانی محبت سے منور کردیتا ہے لیکن ابہا ہمشہ میری ایک بات یاد رکھنا زندگی میں اگر کبھی تم محبت جیسے جذبے سے آشنا ہوتو یاد رکھنا کہ محبت چھین لینے کا نام نہیں ہے اگر مل جائے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی کوئی نہیں ہوتی اور اگر نہ ملے تو یہ جذبہ ہی کافی ہوتا ہے کہ محبت آپ کی روح کو چھو کر گزری ہے۔"
ابہا نے جیسے سب چیزیں اپنے ذہن نشین کرلی تھیں محبت کی ایک ایک شاخ،ایک ایک صورت ابہا مرتضی کے دل کے مختلف گوشوں میں نشین ہوگئی تھیں۔
محبت من محرم ہے
یہ ایک بن باس کی جڑ ہے
مل جائے تو خوش قسمت انسان
نہ ملے تو بد بختی کوئی نہیں
( ایمن خان)
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح صبح مرتضی ہاوس میں ناشتے کا شور اٹھا ہوا تھا زبیدہ باجی اور نعیمہ بیگم کیچن میں کھڑی پراٹھے بنارہی تھیں رتاج ابھی تک سورہی تھی لیکن ابہا اٹھ کر نیچے آگئی تھی۔
وہ سیدھا کیچن میں ہی آگئی تھی۔
" گڈماننگ معما!"
" مارننگ بیٹا!"
" ہیلپ کراو آپ کی کوئی؟"
ابہا تو جیسے آج نعیمہ بیگم کو حیران کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
" تمہاری طبعیت ٹھیک ہے ابہی؟''
نعیمہ بیگم نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تھا۔
" کیا ہے بھئی میں ٹھیک ہوں بالکل۔"
" تم یہ سب چھوڑو اور جاکر اپنے بابا کو اٹھاو کہ ناشتہ کرلیں وہ آکر۔"
نعیمہ بیگم نے اس سے کہا تو وہ سر ہلاتی ہوئی باہر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
وہ مرتضی صاحب کے کمرے کے باہر رکی اور اندر جانے سے پہلے دستک دی  دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی تو مرتضی صاحب بیڈ پر ہی دراز تھے۔
" بابا کیا ہوا آپ ابھی تک نیچے نہیں آئے آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟"
اس نے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تھا۔
مرتضی صاحب اس کی فکر پر مسکرائے تھے۔
" ارے میری بیٹی کیوں اتنی پریشان ہورہی ہے میں بالکل ٹھیک ہوں بس سر میں ہلکا سا درد ہے۔"
" تو بابا آپ کا ناشتہ میں یہی لے کر آتی ہوں اور پھر اس کے بعد میں آپ کو میڈیسن بھی دیتی ہوں گھر میں شادی ہے پھر آپ نے انجوائے بھی کرنا ہے۔"
ابہا نے شرارت سے مرتضی صاحب کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
" ٹھیک ہے یہی لے آو۔"
انہوں نے مسکرا کر اس سے کہا تو وہ دروازہ کھول کر باہر آگئی تھی۔
" معما بابا کا ناشتہ کمرے میں ہی دے آتی ہوں ان کے سر میں کچھ درد ہے میں پھر انہیں میڈیسن بھی دے دوں گی۔"
ابہا نے یہ کہہ کر ایک پراٹھا اور املیٹ ٹرے میں جوس کے گلاس کے ساتھ سیٹ کیا اور ٹرے کیچن کاونٹر پر رکھ کر مڑنے ہی لگی تھی جب لاونج کا دروازہ کھول کر ابشم اندر آتا ہوا دیکھائی دیا تھا۔
وہ بلیک ڈریس پینٹ کے اوپر وائٹ ڈریس شرٹ پہنے ہوئے تھا جس کے کف اس نے کوہنیوں تک موڑ رکھے تھے۔
" اسلام علیکم پھوپھو!"
اس نے اندر آتے ہوئے مسکرا کر سلام کیا تھا ابہا نے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور پھر ناشتے کی ٹرے اٹھا کر باہر آئی تھی۔
" واہ پھوپھو آج تو چمگادڑیں بھی سگڑاپے کا مظاہرہ کررہی ہیں۔"
اس نے نعیمہ بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
" اور معما بھوکے لوگ صبح صبح ناشتہ کرنے ٹپک پڑے ہیں۔"
ابہا نے بھی لمہوں میں حساب برابر کیا تھا اور اس پر ایک نظر ڈالتی ٹرے اٹھا کر اوپر چلی گئی تھی وہ رات والے ٹراوزر شرٹ میں ہی ملبوس تھی۔
وہ مرتضی صاحب کو ٹرے تھما کر رتاج کو اٹھانے اپنے کمرے میں آئی تھی لیکن وہ پہلے ہی اٹھ کر واشروم میں جاچکی تھی۔
ابہا نے جلدی سے اپنا کمرہ سمیٹا تھا تب تک رتاج واشروم سے باہر آگئی تھی۔
" آجائیں آپی ناشتہ کرلیں۔"
اسے ناشتہ کرنے کا کہہ کر خود وہ مرتضی صاحب کے کمرے میں آئی تھی۔
" بابا ناشتہ ہوگیا ہے تو میڈیسن دے دوں آپ کو؟"
اس نے برتن سمیٹتے ہوئے ان سے کہا تھا جو بغور اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
" ہاں دے دو بیٹا۔"
انہوں نے اس سے کہا تھا۔ ابہا نے دراز میں سے سردرد کی گولی نکال کر ان کے ہاتھ پر رکھی اور انہیں پانی کا گلاس تھمایا تھا۔
گلاس خالی کرکے انہوں نے اسے تھمایا اور مسکرا کر شفقت سے اس کی جانب دیکھا۔
" یہاں آو میرے پاس۔"
انہوں نے اسے بازو سے تھام کر اپنے پاس بیٹھایا۔
" مجھے آج لگ رہا ہے جیسے ابہا مرتضی میری بہت سمجھدار بیٹی ہے یہ جو لوگ اسے لڑاکا کہتے ہیں نہ بالکل غلط کہتے ہیں۔"
مرتضی صاحب نے مسکرا کر کہا تھا ابہا بھی مسکرائی تھی۔
" میں بالکل بھی لڑاکا نہیں ہوں بابا پتہ نہیں کیوں سب میرے بارے میں ایسا سمجھتے ہیں۔"
وہ منہ بسورتے ہوئے ان سے کہ رہی تھی۔
" بیٹا اگر میں تم سے کچھ مانگو تو کیا تم مجھے دو گی؟"
انہوں نے بڑے مان سے اس سے کہا تھا۔
" بابا آپ حکم کریں۔"
ابہا نے بھی انہیں رضامندی دے کر مان بخش دیا تھا۔
" تم اچھی لڑکیوں کی طرح رہا کرو کسی سے بھی مت لڑا کرو اور ابشم سے تو بالکل بھی نہیں۔"
انہوں نے آہستہ آہستہ اس سے کہا تھا۔
" لیکن کیوں بابا اگر وہ مجھے کچھ کہے گا تو میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔"
وہ کہہ کر اٹھ کر چلی گئی جب کہ مرتضی صاحب صرف مسکرا کر رہ گئے تھے۔
" پاگل ہے بالکل باز نہیں آسکتی یہ لڑکی۔"
وہ کہہ کر دل ہی دل میں مسکرائے تھے۔

Eid ka khaas milan completed✔Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum