Episode 1

7K 194 49
                                    

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے آخری سمسٹر کے آخری پیپر کی تیاری میں مشغول تھا جب اسے اپنے کمرے کی کھڑکی پر زور سے کچھ لگنے کی آواز آئی۔آواز بے حد تیز تھی لیکن چونکہ وہ بے حد مصروف تھا تو اس نے دھیان نہ دینا ہی مناسب سمجھا تھا ابھی وہ لیپ ٹاپ پر کچھ سرچ کرنے ہی لگا تھا کہ آواز دوبارہ اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ اب کی بار وہ شدید قسم کا جھنجھلا گیا تھا۔
" کس کو مصیبت آگئی ہے اس وقت جو جاہلوں کی طرح پتھر مار رہا ہے اس نے لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ پر رکھا اور سلیپر پہن کر کھڑکی کی جانب گیا پردہ ہٹا کر نیچے دیکھا تو اس کا غصے سے میٹر شاٹ کرگیا تھا ابہا اس کی کھڑکی پر دو پتھر بڑے ہی دھڑلے سے مار چکی تھی۔
" ابہا کی بچی کیا تکلیف ہے تمہیں کیوں جاہلوں کی طرح پتھر مار رہی ہو میری کھڑکی پر؟"
وہ غصے سے ابرو اچکا کر اس سے پوچھ رہا تھا جو اپنے ازلی حولیے بلو جینز پر بلیک کرتا پہنے بالوں کی پونی ٹیل بنائے دوپٹے سے بے نیاز غصے سے لال چہرہ لیے اسے گھور رہی تھی۔
" اچھا میں جاہل ہوں تو تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے جہالت میں پی۔ایچ۔ڈی کر رکھی ہے تم نے یہ سزا تھی جو تم نے معما سے میری شکایت لگائی تھی نہ میں تمہیں وارن کرنے آئی ہوں ملک ابشم حسن کہ اپنی خیر مناو تم ابہا مرتضی تمہیں چھوڑے گی نہیں۔"
وہ گلی میں چلا چلا کر اس سے کہ رہی تھی۔
" کیوں ابہا مرتضی کیا کوئی گوند ہے جو مجھے چپک گئی تو چھوڑے گئی نہیں ہوں۔۔"
وہ نتھے پھلا کر اس پر طنز کررہا تھا۔
" ابشم تم!۔۔۔"
وہ انگلی دیکھا کر سرخ چہرہ  لے کر واپس مڑ گئی تھی جبکہ ابشم کے طنز بھرے قہقے نے اس کا تب تک پیچھا کیا تھا جب تک وہ اپنا گیٹ عبور نہیں کرگئی تھی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ چھوڑے گی تو وہ بھی نہیں اسے ۔وہ غصے میں اپنے گھر میں داخل ہوئی تھی نعیمہ بیگم کیچن میں کھانا بنا رہی تھی اوپن کیچن میں سے انہوں نے ابہا کو غصے میں آتے دیکھا تھا سمجھ تو وہ بھی گئی تھیں کہ پھر سے ابشم کے ساتھ کوئی نیا جھگڑا کرکے آئی ہوگئی۔
" اب کیا نیا کارنامہ کرکے آئی ہو جو منہ لٹکا ہوا ہے تمہارا ضرور ابشم کے سر پر ہی توپ چلا کر آرہی ہو گئی پتہ نہیں کیا بیر ہے تمہارا اس معصوم بچے سے؟''
وہ اب پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوچکی تھیں۔
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 2
" معصوم اور وہ ؟ معما کیا ہوگیا ہے آپ کو کم از کم بات تو وہ کریں جس پر میرے جیسا بندہ یقین کرلے اس کا تو میں وہ حال کرونگی کہ یاد رکھے گا کہ پنگا کس کے ساتھ لیا ہے اس نے مینڈھا کہیں کا ہر وقت بھیں بھیں کرتا رہتا ہے۔"
وہ خود ہی اپنی بات پر قہقہ لگا کر ہنس پڑی اور پاس پڑی ہوئی فروٹ باسکٹ سے ایک سیب نکال کر بڑا سا بائیٹ لے کر کھانے لگی۔
" شرم کرلو ابہی کتنا بڑا ہے وہ تم سے مجال ہے جو تم اسے بھائی بول دو اور اوپر سے کیسے بدتمیزی سے اس کے بارے میں بول رہی ہو۔"
نعیمہ بیگم توے پر روٹی ڈالتے ہوئے افسوس سے اس سے کہ رہی تھیں ۔
" بھائی!۔۔"
اس نے لفظ بھائی کو تھوڑا لمبا کھنچا تھا۔
" آپ بھائی کی بات کرتی ہیں میں تو اس مینڈھے کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھو ہوں۔"
" چھوڑیں آپ اسے یہ برہان نہیں آیا ابھی تک؟"
" بس آنے ہی والا ہے تم بھی تو یونیورسٹی سے سیدھا اس بیچارے ابشم سے لڑنے چلی گئی تھی۔"
انہیں پھر مظلوم ابشم یاد آگیا تھا جبکہ وہ انجان تھیں کہ یہ ابشم کوئی معصوم وصوم نہیں ہے ایک نمبر کا لفتا انسان ہے ایسا صرف ابہا سوچ پائی تھی اگر معما سے کہتی تو یقینن اس کی جان نکال دیتی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اس کے جانے کے بعد وہ واقعی ہی دل کھول کر ہنسا تھا اسے ہمشہ ابہا کو تنگ کرکے اسے تکلیف پہنچا کر جیسے راحت سی ملتی تھی وہ کھڑکی بند کرکے واپس اپنے بیڈ پر آیا تھا جہاں اس کی کتابیں کھولی ہوئی پڑی ہوئی تھیں۔
" بھائی!"
آئزا اسے پکارتی ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی۔
" کیا ہے اب تمہیں کیوں گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہی ہو۔"
وہ اب منہ بنا کر اس سے کہ رہا تھا۔
" وہ دادو بلا رہی ہیں آپ کو اور معما نے کھانا لگا دیا ہے۔"
" اچھا تم چلو میں آتا ہوں۔"
آئزہ باہر نکل گئی تھی اور وہ نیچے جانے کے لیے اپنی کتابیں سمیٹنے لگا۔کتابیں سمیٹ کر وہ سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے پہنچا تھا دادو اپنے تخت پر براجمان تسبح کرنے میں مصروف تھیں اس کا پارا تب چڑھا جب اس نے دادو کے پاس بیٹھی ابہا کو دیکھا جو معنی خیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 3
وہ اسے نظرانداز کرکے سیدھا دادی کی جانب متوجہ ہوا تھا جو اس سارے عرصے میں اسے ایسے گھور رہی تھیں جیسے ابھی کہ ابھی کچا چبا جائیں گئیں اسے کافی حد تک معاملہ سمجھ میں آچکا تھا کہ یہ چھیلتر سی لڑکی ضرور دادی سے اس کی شکایت لگانے ہی آئی ہوگئی اس کے منہ میں لمہوں میں کرواہٹ گھل گئی تھی۔
" جی دادی آپ نے بلایا مجھے؟"
دادی نے پہلے کچھ دیر اسے کافی جی بھر کر گھورا تھا اور جب ان کا اسے گھورنےکا شغل ختم ہوا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔
" یہ سلینہ گنی گومزنی کون ہے؟"
دادی نے ایسے کانفیڈینس سے اس سے سوال پوچھا تھا کہ کچھ دیر تک تو ابشم چہرے پر حیرت لیے منہ کھولے دادی کو دیکھتا رہ گیا تھا اور پھر بھی جب کچھ بھی سمجھ نہ آیا تو بول پڑا۔
" یہ سلینہ گنی گومزنی کون ہے دادی؟"
چہرے پر ازحد معصومیت سجائے وہ حیرت سے دادی سے پوچھ رہا تھا ابہا کو اپنی ہنسی روکنا مشکل ہورہا تھا وہ بڑی ہی مشکل سے دادی کے پیچھے بیٹھی اپنے قہقوں کا گلہ گھوٹنے میں مصروف تھی ۔
" غضب خدا کا پتہ نہیں  لوگوں نے مسلمان لڑکیوں کے کیسے نام رکھے ہیں توبہ توبہ ہے تجھے کیا کوئی ڈھنگ کی لڑکی نہیں ملی تھی نام ہی ڈھنگ کا رکھ لیتی۔"
دادی تو اپنی فل فارم میں آچکی تھی۔
" دادی کیا آپ مجھے بتائیں گئی کہ یہ لڑکی کون ہے جس کا ذکر آپ اتنے نیک الفاظ میں کررہی ہیں؟"
اب کی بار اس نے جھنجھلا کر پوچھا تھا۔
" ارے تیری وہ کیا کہتے ہیں ۔۔۔ ہاں گگرل فرینڈ ہے نہ۔"
دادی کے منہ سے گرل فرینڈ سن کر ابشم حیرتوں کے سمندر میں غوتے کھاتے کھاتے بچا تھا۔
" دادی گگرل فرینڈ نہیں ہوتا گرل فرینڈ ہوتا ہے۔"
اس نے اپنی ہنسی دبا کر بڑی ہی مشکل سے ان کی اصلاح کی تھی۔
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 4
" ہاں تو جو بھی ہوتا ہے تیری تو ہے نہ وہ گومنی پتہ نہیں کیا اتنا اوکھا سا نام ہے اس کا۔"
اب کی بار ابشم قہقہ لگا کر ہی ہنسا تھا۔
" دادی وہ کرسٹن ہے اور اس کا نام سلینہ گومزے ہے۔"
اس نے دادی کے علم میں مانو اضافہ کیا تھا جس پر دادی تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئی تھی۔
" ہائے تجھے عیسائی لڑکی کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا تھا آلینے دے تیرے باپ کو تیری ساری کرتوتیں گن گن کر بتاتی ہوں اسے۔"
دادی اب اپنی عینک سے اسے گھورتے ہوئے کہ رہی تھیں۔
" اف دادی وہ ایک امریکن سنگر ہے۔"
" ہائے مراسی بھی ہے ابشم تیرا بیرا تر جائے آ لینے دے تیرے باپ کو بس اب تو۔"
دادی کی تو آنکھوں سے جیسے آنسو ہی نکل آئے تھے ابہا کا ہنس ہنس کر برا حال ہورہا تھا اس کا مزید اب وہاں بیٹھنا مشکل ہورہا تھا ابشم نے اپنا سر تھاما ہوا تھا اور وہ غصیلی نگاہوں سے ابہا کو دیکھ رہا تھا جس نے دادی کو پتہ نہیں کیا الٹی سیدھی پٹیاں پڑھائی تھیں۔
" اچھا نانو میں چلتی ہوں معما ویٹ کررہی ہوگئی۔"
وہ ان سے اجازت لے کر خود گیٹ کی جانب بڑھی تھی لان میں پہنچ کر وہ اس قدر ہنسی تھی کہ اسے اپنا پیٹ دکھتاہوا محسوس ہورہا تھا وہ نیچے بیٹھ گئی تھی ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے پانی نکل آیا تھا۔
" آئزہ نے اسے لان کی طرف جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا وہ اس کے پیچھے آئی تھی۔
" ابہی آپی کیا ہوا ہے آپ ایسے کیوں ہنس رہی ہیں ؟"
آئزہ نے اسے ہنستے ہوئے دیکھ کر حیرت سے اس سے پوچھا تھا۔
" ہاہا کچھ نہیں آئزہ میں تو بس ایسے ہی ہنس رہی تھیں چلو چلتی ہوں میں۔"
وہ کہ کر ملک ہاوس کا گیٹ عبور کر گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
لاہور کے ایک پوش علاقے میں وہ دو بڑے بڑے بنگلے بالکل آمنے سامنے تھے درمیان میں صرف ایک سڑک کا فاصلہ تھا دونوں بنگلے درختوں سے ڈھکے ہوئے تھے سائیڈوں پر خوبصورت لمبی لمبی کیاریاں بھی تھیں۔ دونوں گھروں پر ملک ہاوس بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا ایک کے باہر نیم پلیٹ تھی جس پر ملک حسن احمد لکھا ہوا تھا اور اس کے نیچے ہی ملک مبشر احمد درج تھا ملک ہاوس کی سربراہ کنیز فاطمہ بیگم تھیں جوکہ حسن احمد اور مبشر احمد کی والدہ محترمہ تھیں اور گھر کی اہم رکن اس گھر کا پتا بھی ان کی مرضی کے خلاف نہیں ہلتا تھا۔
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 5
ان کی ایک بیٹی تھی جس کا گھر ان کے گھر کے بالکل سامنے تھا انہیں اپنی بیٹی سے شدید محبت تھی اور اسی وجہ سے وہ اپنی نواسی سے بھی بے پناہ انسیت رکھتی تھیں ابہا مرتضی ان کی لاڈلی تھی۔
حسن صاحب کے تین بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹا بڑا بیٹا ملک شہرام حسن اور چھوٹا بیٹا ملک ابشم حسن اور ایک بیٹی تھی آئزہ حسن جبکہ ملک مبشر کے ایک ہی بیٹی تھی رتاج مبشر۔ حسن صاحب کی بیگم رزوانہ جبکہ مبشر صاحب کی بیگم شگفتہ تھیں رتاج ابشم سے بڑی جبکہ شہرام سے چھوٹی تھی۔
سامنے والے گھر پر مرتضی ملک لکھا ہوا تھا جس کا مطلب صاف تھا کہ اس گھر کے مالک مرتضی ملک تھے جن کی بیگم ابشم اور شہرام کی نعیمہ پھوپھو تھیں اور ان کے دو بچے تھے بڑی بیٹی ابہا اور اس سے تین سال چھوٹا برہان۔
ابہا مرتضی ایک خوش شکل لڑکی تھی بڑی بڑی بھوری آنکھیں جن پر خام دار پلکیں سجدہ ریز رہتی تھیں بھورے شولڈر کٹ بال جو ہر وقت اونچی پونی ٹیل میں قید رہتے تھے گوری اور صاف رنگت اور گلابی ہونٹوں والی وہ لڑکی مقابل کو زیر کرنے کا ہنر رکھتی تھی پوری سڑیٹ کی وہ رونق تھی حالاکہ لاہور کے پوش علاقوں میں لوگ ایک دوسرے سے زیادہ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے  لیکن ابہا مرتضی کو اس سوسائٹی میں ہر کوئی جانتا تھا کیونکہ اس کی حرکتیں ہی ایسی تھیں اسے آج تک کبھی کسی نے شلوار قمیض میں ملبوس نہیں دیکھا تھا وہ ہمشہ کرتوں اور جینز میں ہی پائی جاتی تھی وہ ملنسار تھی مگر ایک شخص سے اسے شدید والی نفرت تھی اور وہ کوئی اور نہیں ابشم حسن تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ ابہا اور ابشم کا ایک دوسرے سے کیا جھگڑا ہے مگر وہ ایک منٹ بھی کہیں اکھٹے نہیں رہ سکتے تھے بچپن سے سب دیکھتے آرہے تھے کہ وہ دونوں کیسے لڑتے ہیں شروع شروع میں سب نے بہت منع کرنے کی کوشیش کی تھی لیکن پھر بھی جب ان دونوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو سب نے کہنا چھوڑ دیا مگر اصل بات تو کوئی تھی بھی نہیں بس وہ ہمشہ ایک دوسرے سے ابتر رہنے کی کوشیش میں رہتے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام کو حسن صاحب آئے تو اس کی پیشی دادی نے ان کے سامنے کروا دی تھی سب گھر والے لاونج میں موجود تھے اور وہ ان کی عدالت میں سر جھکائے کھڑا تھا۔
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 6
" کیا بتا رہی ہیں اماں کہ تم کسی کرسٹچن لڑکی کے چکر میں ہو؟"
وہ چہرے پر غصہ لیے اس سے پوچھ رہے تھے بدلے میں وہ خاموش تھا اسے ابہا پر بے حد غصہ آرہا تھا جو ناجانے کیا آگ بھڑکا گئی تھی۔
" اب بولتے کیوں نہیں ہو بولو نہ خاموش کیوں ہو۔" وہ اب کی بار غصے سے بولے تھے۔
" بھائی جان ! آرام سے بات کریں بچے سے۔"
مبشر صاحب نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشیش کی تھی۔
" بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ امریکہ کی ایک سنگر ہے سٹار ہے سلینہ گومزے اور وہ اس ابہا کی بچی نے دادی کو بے وقوف بنایا اور ویسی دادی ہیں جنہوں نے اس کی بات پر یقین کرلیا اور پھر میری کوئی بات بھی نہیں سنی۔"
" ابہی نے مجھے خود بتایا تھا کہ اس کا کسی عیسائی لڑکی سے چکر ہے۔"
" دادی وہ جھوٹ بول رہی تھی آپ کو پاگل بنا رہی تھی بس۔"
" اماں ابشم ٹھیک کہ رہا ہے ابہی نے ایسے ہی مذاق کیا ہوگا آپ کے ساتھ ورنہ میں اپنے بیٹے کو جانتی ہو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے مگر عیسائی لڑکی سے اس کا چکر نہیں ہوسکتا۔"
رزوانہ بیگم بھی فوری بیٹے کی حمایت میں بولی تھیں۔
" جاو ابشم بیٹا تم اپنے پیپر کی تیاری کرو۔"
" جی چاچو۔"
وہ کہ کر وہاں سے نکل گیا تھا مگر بدلہ لینے کا جنون اس کے اندر بڑھ گیا تھا۔ اسے ابہا مرتضی سے بے حد نفرت کا احساس ہورہا تھا اور وہ اس کے ساتھ کچھ بہت ہی برا کرنے کا سوچ چکا تھا کچھ ایسا جو ابہا مرتضی کو ہلا کر رکھ دے گا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح صبح وہ یونیورسٹی کے لیے تیار ہورہا تھا بلیک پینٹ پر گرے شرٹ پہنے اپنے گھنے کالے سیاہ بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ آئینے میں اپنا جائزہ لے رہا تھا شہد رنگ آنکھیں سرخ و سپید رنگ کسرتی جسم وہ خوش شکل نوجوان تھا یونیورسٹی میں بے پناہ لڑکیوں کا نگاہ مرکز ملک ابشم حسن لڑکیوں سے دور ہی بھاگتا تھا اس لیے اس کی ابہا سے بھی نہیں بنتی تھی۔اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھائی اور اپنا بیگ لے کر نیچے ناشتے کی میز پر آگیا جہاں تقریبا سب بیٹھ کر ناشتہ کررہے تھے
[28/06, 1:12 pm] Aimankhan: 7
" اسلام علیکم صبح بخیر دادی جان!"
اس نے دادی کا ماتھا چوما اور شہرام کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اس کے بابا جان بھی موجود تھے وہاں جو آرام سے اسے ملاحظہ کررہے تھے۔
" صاحبزادے پیپر کی تیاری بھی کی ہے یا بس ایسے ہی؟"
انہوں نے پڑاٹھے کا لقمہ توڑتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
" نہیں بابا میں نے تیاری کی ہے میرا پیپر اچھا ہوگا انشاءاللہ۔"
اس نے سلائس منہ سے کترتے ہوئے پر امید لہجے میں ان سے کہا تھا۔
" آخری پیپر دو آج اور کچھ بزنس کی طرف بھی توجہ دو تمہارا بھائی اکیلا سمبھلتا ہے سب کچھ۔"
وہ اسے تنبہ کرتی ہوئی نگاہوں سے کہ رہے تھے مگر وہ ابشم ہی کیا جو ان کی کسی تنبہ پر کان دھرتا انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولا۔
" ارے بابا چاچو بھی تو ہیں نہ ساتھ اور پھر آپ بھی تو ہیں کہاں بیچارے بھائی کے کندھوں پر ہے بوجھ۔ ابھی آج ہی تو میں پیپر دونگا پھر کچھ ریسٹ کرونگا آفس جوائن کرنے کے بارے میں ابھی میں نے سوچا نہیں ہے۔"
اس نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور بیگ لے کر کرسی سے اٹھ گیا مبادا کوئی اور بات ہی نہ کہ دے۔
" بھائی جان بچہ ٹھیک ہی تو کہ رہا ہے ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں پھر ہم سمبھال ہی تو رہے ہیں سب کچھ۔"
مبشر صاحب نے ایک بار پھر سے اس کی طرف داری کی تھی جس پر حسن صاحب گہرا ہنکارا بھر کر رہ گئے تھے۔
" ساری عمر اس کا بچپنہ ہی ختم نہیں ہونا آج خیر سے اس کا سی ۔اے ختم ہوجائے گا اور ان کے ہیں کہ کھیلنے کودنے کے شوق پورے ہی نہیں ہورہے ہیں۔"
وہ سنجیدگی سے کہ رہے تھے وہ واقعی ہی ابشم کی وجہ سے بہت پریشان تھے جو زندگی کو سنجیدگی سے لے ہی نہیں رہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج وہ لائٹ بلو کرتا وائٹ جینز کے ساتھ پہنے ہوئی تھی بالوں کی حسب معمول پونی ٹیل بنائے بغیر کسی میک اپ کے بھی وہ ایسی لگتی تھی کہ لوگوں کی نظر ٹھہر جاتی تھی وہ ابھی ابھی یونیورسٹی پہنچی تھی ابہا کا دوسرا سمسٹر تھا وہ زولوجی میں اونرز کررہی تھی جبکہ ابشم اسی یونیورسٹی سے سی اے کررہا تھا۔ وہ جیسے ہی یونیورسٹی پہنچی اس کی نگاہوں نے الویرا کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ الویرا ابہا کی اکلوتی سہیلی تھی جو اس کے ساتھ سکول کے وقت سے پڑھ رہی تھی ابہا کو ہمشہ سے زیادہ دوست بنانے سے چڑ تھی اس لیے وہ ہمشہ کم ہی دوست بنایا کرتی تھی۔
[28/06, 1:13 pm] Aimankhan: 8
وہ ابھی کلائی میں پہنی ہوئی گھڑی دیکھ ہی رہی تھی کیونکہ پیپر شروع ہونے میں بس دس منٹ رہ گئے تھے جب اسے دور سے ابشم آتا ہوا دیکھائی دیا تھا اس نے دیکھا تھا کہ کیسے اس کے گیٹ سے اندر آتے ہی لڑکیاں اسے مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھی ان کی آنکھوں میں وہ ابشم کے لیے ستائش واضح دیکھ سکتی تھی ان کے چہروں سے حسرت ٹپک رہی تھی۔
" ڈفر لرکیاں اس مینڈھے میں پتہ نہیں کیا نظر آتا ہے انہیں جو ایسے اسے تاڑنے کھڑی ہوجاتی ہیں۔"
وہ خود سے ہی بڑبڑا رہی تھی تب تک اس کی نظر الویرا پر پڑ چکی تھی جو ان باقی لڑکیوں کے ساتھ ابشم کے دیدار میں مصروف تھی اسے بے ساختہ ایک جھرجھری آئی تھی وہ غصے سے اس کے سر پر پہنچی تھی۔
" اگر اشور جی کے دیدار سے فارغ ہوگئی ہوتو اندر پیپر کو بھی شرف بخش لیں ہم؟"
اس نے اس پر طنز کے خاصے تیر چھوڑے تھے جس پر الویرا اپنے ٹرانس سے باہر آئی تھی۔
" یار ابہی تمہارا یہ اینگری یگ مین کزن کتنا ہنڈسم ہے یار قسم سے جب چل کر آتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے ساری دنیا ہی جیسے رک گئی ہو دل چاہتا ہے اس سے نظر ہٹے ہی نہ بس۔"
وہ گالوں پر ہاتھ رکھ کر کھوئے کھوئے لہجے میں اس سے کہ رہی تھی جبکہ ابہا کو تو آگ ہی لگ گئی تھی۔
" آر یو سیریس الویرا؟ تمہیں اپنی آنکھیں چیک کرانے کی اشد ضرورت ہے وہ کہاں سے ہینڈسم ہے مینڈھا کہیں کا۔"
اس نے پھر سے اپنے جلتے ہوئے دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔اس کی بات سن کر تو الویرا کو غش آتے آتے رکے تھے۔
" تم پاگل تو نہیں ہو اتنے ہنڈسم بندے کو تم مینڈھا بول رہی ہو تمہیں پتہ نہیں کیا بیر ہے ان سے پورے یونی کی لڑکیاں فدا ہیں ابشم پر اور تم ہو کہ عجیب ہی ہو۔"
" اب اپنا یہ ابشم نامہ بند کرو اور چلو اندر خوامخواہ میں صبح صبح اس کی شکل دیکھ لی کہا بھی تھا معما کو یہاں میرا اڈمیشن نہ کرائے جہاں یہ مینڈھا پڑھتا ہے لیکن نہیں بھائی ساتھ ہوگا تو مجھے فکر نہیں ہوگی بھائی مائی فٹ اسے خوامخواہ میں میرا بھائی بنایا ہوا ہے ایک سمبھالا نہیں جاتا یہ دوسرا بھی آگیا ہے۔"
وہ بڑبڑاتی ہوئی ہی کلاس کی جانب بڑھ گئی تھی اس کا موڈ سخت خراب ہوگیا تھا۔
[28/06, 1:13 pm] Aimankhan: 9
وہ پیپر دے کر باہر نکلی تھی جب سامنے سے ایک لڑکا آیا تھا اور زور سے اس سے ٹکرایا تھا ابہا کا بازو زور سے اس سے لگا تھا۔
" اوئے اندھے ہوکیا دیکھ کر نہیں چل سکتے آنکھیں ہیں یا بنڈے فٹ کیے ہوئے ہیں جو تمہیں نظر نہیں آتا۔"
وہ پورے کوریڈور میں زور زور سے اس پر چلا رہی تھی جبکہ رزم راجپوت کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکی اس پر اس طرح چلا رہی تھی وہ کسی کی معمولی بات برداشت نہیں کرتا تھا تو اس کی اتنی باتیں کیسے سن لیتا اس نے ایک لمہے کی تاخیر کیے بغیر ابہا کو بازو سے تھاما تھا اور اسے دیوار سے لگایا تھا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
" تمہاری جرات کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی تم نے کیا سمجھا تھا تم مجھ پر چلاو گی اور میں چپ چاپ سن لونگا نیور میں سوری کرنے والا تھا کہ غلطی سے ہوگیا مگر تم یاد رکھنا میں اپنی بے عزتی کبھی نہیں بھولتا۔"
ابھی بھی ابہا کی کلائی رزم کی گرفت میں تھی اور وہ ایسے ہی دیوار سے لگی حیرت سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی ابشم نے کوریڈور میں کھڑے سٹوڈنٹس اور پھر اس کے بعد ابہا کو دیوار سے لگے اور اس کی کلائی رزم کے ہاتھ میں دیکھی تو اس کا خون ایک دم کھول اٹھا تھا وہ تیزی سے ان کی جانب بڑھا تھا اور رزم کی گرفت سے ابہا کی کلائی آزاد کرائی تھی۔
" ہاو ڈے یو ٹو ٹچ ہر؟"
اس نے چلا کر کہا تھا اور آج پہلی بار سب سٹوڈنٹس ملک ابشم حسن کو غصے میں چلاتے ہوئے سن رہے تھے اس کا سرخ و سپید چہرہ لال ہورہا تھا۔
" تم کون ہو جو یہاں ٹپک پڑے اس لڑکی نے مجھ سے چلا کر بات کی ہے انسلٹ کی ہے میری سب کے سامنے۔"
رزم نے ابشم سے کہا تھا جس پر ابشم کو اور غصہ آیا تھا۔
" تو اس کا کیا مطلب تھا تم اس کو ہاتھ لگاو آئیندہ اگر ہاتھ لگایا نہ تو ہاتھ توڑ دونگا۔"
ابشم نے اسے دھمکی دی تھی لیکن وہ اس بات سے انجان تھا کہ مقابل رزم راجپوت ہے۔
" میں تم دونوں کو چھوڑوں گا نہیں یاد رکھنا تم۔"
اس نے انگلی اٹھ کر تنبہی کی تھی جیسے ابشم نے ہوا میں اڑایا تھا مگر وہ انجان تھا کہ یہ جھڑپ اسے کتنی مہنگی پڑنے والی ہے۔
رزم وہاں سے جاچکا تھا جب ابشم دیوار کے ساتھ لگی ابہا کی طرف متوجہ ہوا تھا جو اس سارے معاملے سے بے نیاز کھڑی تھی جیسے ابشم اس کے لیے نہیں کسی اور کے لیے جھگڑ رہا ہو۔
" آئیندہ آگر تم مجھے فضول لوگوں کے ساتھ پنگے لیتی نظر آئی نہ تو دیکھنا پھر ۔"
اس نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا تھا۔
[28/06, 1:13 pm] Aimankhan: 10
ابہا نے اپنے ہاتھ سے اس کی اٹھی ہوئی انگلی نیچے کی تھی۔
" یہ حکم نہ کسی اور پر جاکر چلانا میں وہی کرونگی جو میرا دل کرے گا سمجھے نہ اور ڈرتی تو نہ میں اس سے ہوں اور نہ ہی تم سے مجھے اپنی حفاظت کرنی اچھے سے آتی ہے۔"
اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا۔ابشم کا ضبط بھی اب جواب دے گیا تھا۔
" لسن مس چمگادڑ کی شکل والی مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے مفت میں تمہاری مدد کرنے کا وہ تو بس پھوپھو کی عزت کی وجہ سے آگیا اور تم مت سمجھنا کہ میں نے تمہاری کل والی غلطی کی تمہیں معافی دے دی ہے ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے تمہارے ساتھ تو میں وہ کرونگا نہ ابہا مرتضی کے تم ساری زندگی ملک ابشم کو یاد رکھو گی۔"
وہ کہ کر وہاں رکا نہیں تھا تیزی سے نکل گیا تھا جب کہ ابہا کے منہ پر طنز بھری مسکراہٹ ابھری تھی جس میں ملک ابشم کا مذاق واضح اڑایا گیا تھا۔
ابشم کے جانے کے بعد وہ وہاں کھڑے سٹوڈنٹس کی طرف متوجہ ہوئی تھی جو سارا شو بڑی ہی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے ابہا کے ماتھے کے بل کچھ اور گہرے ہوئے تھے اور پھر ان بلوں کی جگہ غصے نے لے لی تھی وہ ان سب کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
" میلہ ختم ہوچکا ہے سب اپنی ٹکٹ کے پیسے یہاں جمع کرائیں اور اپنی اپنی تشریف کا ٹوکرا اٹھا کر لے جائیں۔"
اس نے کچھ ایسے انداز میں کہا تھا کہ سب شرمندہ سے ہوکر وہاں سے چلے گئے تھے۔
" ہوں جہاں دو لوگ کھڑے نہ ہوئے وہی تماشہ دیکھنے آجاتی ہے عوام۔"
وہ اپنی بھڑاس نکال کر الویرا کی جانب متوجہ ہوئی۔
" چلو اب تم بھی یہاں سے کہ کوئی جھولا لینا باقی رہ گیا ہے۔"
اس نے ایک تیر اس پر بھی پھینکا تھا جس سے وہ سٹپٹا گئی تھی۔
" توبہ ہے ابہا کبھی سکون بھی کر لیا کرو ہر وقت مرچیں ہی چباتی رہتی ہو۔"
وہ اسے لے کر یونیورسٹی کے گیٹ کی جانب  بڑھ گئی تھی۔
وہ غصے کی کیفیت میں ہی اپنی گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اسے ابہا پر انتہا سے زیادہ غصہ آرہا تھا ۔
" مجھے بھی کیا ضرورت تھی ہیرو بن کر اس کی مدد کرنے کی بھگتی خود ہی ایویں فضول میں میں اس رزم راجپوت سے الجھا چمگادڑ کہیں کی۔"
ایک بار پھر سے اس کے منہ میں کرواہٹ گھل گئی تھی۔
[28/06, 1:13 pm] Aimankhan: 11
اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور تیزی سے مین ڈور کھول کر اندر چلا گیا لاونج میں رتاج اور آئزہ دونوں چائے کے ساتھ کوئی ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھیں اسے ایسے غصے سے بھرے ہوئے آتے دیکھا تو دونوں ہی اپنی جگہ حیران رہ گئی تھیں کیونکہ وہ اٹلیسٹ یونیورسٹی سے اتنے خراب موڈ کے ساتھ واپس نہیں آتا تھا۔
وہ صوفے پر بیگ پھینک کر وہی پشت صوفے سے ٹکا کر ڈھیر ہوگیا تھا تھوڑی دیر تک وہ اسی پوزیشن میں رہا تھا جب پھر بھی وہ سیدھا نہ ہوا تو رتاج نے پریشانی سے آئزہ کی جانب دیکھا تھا جس نے کندھے اچکا کر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
" ابشم کیا بات ہے تم ایسے کیوں بیٹھے ہو چائے پیو گئے کیا؟"
اس نے آہستہ سے اس سے پوچھا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی جب اس کو غصہ آتا یا موڈ خراب ہوتا وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
" کچھ نہیں آپی میرا موڈ بس ایک شخص کی وجہ سے ہی خراب ہوسکتا ہے۔"
اس نے منہ بنا کر کہا تھا رتاج اور آئزہ نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا اور پھر دونوں ساتھ بولی تھیں۔
" اب کیا کردیا اس نے؟"
ابشم نے پوری آنکھیں کھول کر ان دونوں کو دیکھا تھا جن کے چہرے پر بیزاری واضح تھی۔
" کچھ نہیں کیا اس صدا کی معصوم چمگادڑ نے بہت معصوم ہے وہ۔"
وہ منہ بنا کر کہ کر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا جبکہ وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس دی تھیں۔
" ان دونوں کا کبھی کچھ نہیں ہوسکتا۔"
آئزہ نے ہنستے ہوئے رتاج سے کہا تھا جس نے اس کی تائید کی تھی دنیا ادھر کی اٗدھر ہوسکتی تھی مگر ابشم اور ابہا نہیں۔
وہ پھر سے اپنے ڈرامے میں مشغول ہوگئی تھیں۔
وہ اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگیا تھا اس کا خون کھول رہا تھا اسے جلد ہی کچھ کرنا تھا ورنہ بدلے کی آگ اسے اندر ہی اندر سلگا رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
نعیمہ بیگم اور مرتضی صاحب شام کو لاونج کے ساتھ بنے ڈائینگ ہال میں  بیٹھے ہوئے تھے پاس ہی برہان اپنی کوئی اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھا ہفتے کی شام تھی ابہا کے پیپر بھی ختم ہوچکے تھے وہ پاس ہی بلیک ٹی شرٹ گرے ٹراوز کے ساتھ پہنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھے ٹی وی پر کوئی ہارر فلم دیکھنے میں مصروف تھی اس کی مکمل توجہ ٹی وی کی جانب تھی۔ فلم میں کوئی ڈراونہ سین چل رہا تھا اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دیا ہوا تھا اور اپنے گٹھنوں کے گرد بازو حمائل کیے وہ بغیر کسی حرکت کے فلم دیکھ رہی تھی۔
[28/06, 1:14 pm] Aimankhan: 12
پاس پڑے ہوئے لینڈ لائن کی گھنٹی اس خاموش لاونج میں بہت زیادہ گونجی تھی اور اس کے ساتھ ہی ابہا کی چیخ بھی۔
نعیمہ بیگم نے آگے بڑھ کر ٹی وی لاونج کی لائیٹ جلائی تھی اور پھر ابہا کو گھورا تھا۔
" حد ہوگئی ہے بھئی لائیٹ بند کرکے تم یہ فضول سی فلم دیکھ رہی ہو اور ساتھ میں خوفزدہ بھی ہورہی ہو اگر اب چیخ ماری نہ تو ٹی وی بند کردونگی میں سمجھی نہ؟"
وہ اسے ابھی گھور ہی رہی تھیں جب فون کی گھنٹی ایک بار دوبارہ بجی تھی ابہا نے اپنی امڈتی ہوئی چیخ کو منہ پر ہاتھ رکھ کر بڑی ہی مشکل سے روکا تھا تب تک نعیمہ بیگم فون کی جانب بڑھ چکی تھیں وہ فون سن کر انہوں نے واپس کرائیڈل پر رکھا تھا تب تک ابہا ان کی جانب ہی متوجہ تھی۔
" کیا ہوا کس کا فون تھا؟"
اس نے پاپ کارن منہ میں رکھتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا تھا۔
"وہ تمہاری نانو تھیں فون پر کہ رہی تھیں دوپہر کو کھانا ان کی طرف کھانا ہے کوئی ضروری باتیں کرنی ہیں تو میرا اور تمہارے بابا کا ہونا ضروری ہے۔"
انہوں نے اسے فون پر ہونے والی گفتگو بتائی تھی۔
" یعنی کہ میں اور برہان گھر پر ہی رہے گئے نہ؟"
وہ جیسے خوش ہوگئی تھی کہ ابشم کی شکل دیکھنے سے بچ جائے گی لیکن نعیمہ بیگم نے اس کی خوشی لمہوں میں غارت کی تھی۔
" نہیں تم دونوں بھی ساتھ چلو گے انہوں نے سب کو کہا ہے آنے کے لیے۔"
ان کی بات سن کر اس نے منہ بنایا تھا اور دوبارہ اپنی فلم کی جانب متوجہ ہوگئی تھی جہاں ایک اور ڈراونہ سین چل رہا تھا۔
" معما پلیز لائٹ بند کردیں ایسے مزہ نہیں آئے گا۔"
اس نے انہیں لائٹ بند کرنے کو کہا تھا جس پر انہوں نے اسے گھورا تھا اور پھر لائیٹ بند کرکے دوبارہ ڈائینگ ہال کی جانب چل دی تھیں جہاں مرتضی صاحب برہان سے اس کی پڑھائی کے متعلق گفتگو کررہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

Eid ka khaas milan completed✔Donde viven las historias. Descúbrelo ahora