- از قلم بریرہ فاطمہ ۔
" شاہذر اپنی لڑکھڑاتی آواز میں گویا ہوا جیسے وہ اپنے آنسوؤں کو گرنے سے روک رہا ہو "میں تکلیف میں ہوں ہارون شدید تکلیف میں، اپنی نیم گلابی آنکھوں سے ہارون کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا، میں احساسِ جرم میں مبتلا ہوں اور یہ اس قدر گہرا ہے کہ میں گُھل رہا ہوں ! میں اس احساسِ جرم سے پچھلے ایک سال سے لڑ رہا ہوں ، لیکن ، لیکن مجھے کہیں سے کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی ۔" شاہذر اپنے جملے ٹھہر ٹھہر کر دھیمے لہجے میں بول رہا تھا"۔ اب وہ خاموش ہوگیا تھا اور کمرے میں ایک گہری خاموشی چھا گئی ۔
• طه اور ہارون جو اپنی پوری توجہ سے شاہذر کو سن رہے تھے ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہوگئے تھے انہوں نے اس سے پہلے شاہذر کو کبھی اتنا کمزور نہ پایا تھا وہ حیران اور پریشانی کی ملی جھلی کیفیت میں تھے کہ طه نے ہی خاموشی کو توڑا اور گویا ہوا " بھائی ! احاسِ جرم آخر کس چیز کا ہے ؟
• شاہذر اب سمجھ نہیں پارہا تھا کہ آگے بولے یا نہیں بتانا سہی ہے کہ نہیں لیکن وہ اب رہ نہیں پا رہا تھا وہ بہت تکلیف میں تھا اسے الفاظ بھی مہیا نہیں تھے جُھکی پلکوں کے ساتھ بائیں آنکھ سے ایک آنسوں ٹپکا اور شاہذر کے ہونٹوں سے ایک جملہ نکلا " میں نے قتل کیا ہے "
• کیا ؟ بے یقینی کی کیفیت میں طه اور ہارون کے منہ سے بے اختیار نکلا وہ دونوں بے انتہا حیرانگی کی کیفیت میں تھے ، کمرے میں ایک بار پھر گہری خاموشی تھی ان دونوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا آگے کیا کہیں ، وہ بس ایک بت بنے بیٹھے تھے ۔
• آگے شاہذر نے ہی خاموشی کو توڑا اور گویا ہوا ، ہاں میں نے قتل کیا ہے لیکن وہ پاک ذات گواہ ہے میری یہ نیت نہیں تھی ، اب میں ایک شدید احساسِ جرم میں مبتلا ہوں جو میری ساری خوشیوں کو کھا گیا ہے ، جو مجھے اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، میں نے ایک معصوم کا قتل کیا ہے ، میں قاتل ہوں ! وہ اپنے ہاتھوں سے بالوں کو جکڑ کر بے اختیار رو رہا تھا ۔ اسکا دامن بھیگ چکا تھا ۔
• طه کو سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیسی کیفیت ہے آگے کیا بولے کیا کرے وہ خاموشی سے زمین تک رہا تھا ، کہ ہارون اپنی جگہ سے اٹھا پانی کا گلاس اور ٹشو پیپر شاہذر کی طرف بڑھا دیا ۔
• شاہذر نے پانی کا ایک گھونٹ بھرا اور پھر گویا ہوا ، میں پچھلے 1 سال سے پریشان ہوں میں سب کاؤنسلرز سے مل چکا ہوں تبلیغی جماعتوں میں جا چکا ہوں لیکن وہ سب مجھے وقتی طور پر ہی ٹھیک کر پاتے ہیں میں ہر گزرتی رات پہلے سے زیادہ غمزدہ ہوتا ہوں ، مجھے بہت ساری بیماریوں نے جکڑ لیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ بس اب یہ تکلیف ختم ہو کوئی ایک بیماری ہی وجہ بن جائے اور میری موت ہوجائے۔
• " شاہذر نے یہ جملہ کہا ہی تھا کہ طه اور ہاروں بے ساختہ کہہ اُٹھے " بھائی بس کریں یہ کیسی باتیں کررہے ہیں آپ ایسے نہ بولیں !
• میں تھک گیا ہوں، میں تھک گیا ہوں یار، بس برداشت نہیں ہورہا اب ۔ شاہذر بے زاری کی سی کیفیت میں کہہ رہا تھا ۔
•" ہارون اب کچھ حد تک اپنے حواسوں میں آ چکا تھا اور معاملے کی سنجیدگی کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا قدرے سنجیدگی کے ساتھ وہ شاہذر کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوا " دیکھیں بھائی ہمیں شروع سے سب بتائیں شاید اللہ پاک آپکو واپس یہاں لائے ہیں تاکہ آپکی اس پریشانی کو جو آپ کو کھا رہی ہے ختم کر سکیں، ہمیں بتائیں بات کیا ہے ، آپ جو کہہ رہے ہیں وہ بات چھوٹی تو نہیں ہے کسی انسان کا قتل کرنا اور پھر ترکی جیسے مضبوط قانون والے ملک سے بچ کر نکل آنا یہ عام بات تو نہیں جہاں تک میں سمجھ رہا ہوں آپ نے کسی کا قتل اپنے ہاتھوں سے تو نہیں ہی کیا ہوگا ہاں مگر آپ اسکی موت کا ذمہ دار خود کو ضرور ٹھہرا رہے ہیں کیا ایسا ہی ہے؟
•" شاہذر نے اپنے بازو سے آنسوؤں کو پوچھا پھر ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر زمین کی طرف دیکھنے لگا جیسے کچھ انکشاف ہوا ہو لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے اسنے اس سوچ کو جھٹک دیا پھر ہارون کی طرف دیکھتے ہوئے لرزتی ہوئی آواز میں گویا ہوا " ہاں ہاں ہارون بات تو یہ ہی ہے، یہ ہی ہے "وہ ایک جملے کو بار بار دہرا رہا تھا،" لیکن اس طرح نہیں ہے ، اس طرح نہیں ہے، جیسے تم سمجھ رہے ہو ، میں نے اسکا قتل اپنے ہاتھوں سے تو نہیں کیا لیکن وجہ میں ہی ہوں اور میں بخوبی جانتا ہوں ۔
• اچھا آپ ہمیں یہ تو بتائیں کون ہے وہ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ وہ آپکی وجہ سے مرا ہے بھائی ہمیں بتائیں پوری بات بتائیں، کب تک گھٹ گھٹ کے جیو گے ؟
• شاہذر نے ایک لمبی سانس بھری اور بغیر کسی تاثر کے گویا ہوا ۔
" وہ لڑکی نیہال ترکی کی رہنے والی ہم نے ساتھ تعلیم حاصل کی تھی ،وہ قدرے حسین وقعہ ہوئی تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ مغرور کسی کی ہمت نہیں تھی بلا وجہ کی ایک بھی بات اس سے کر پائے میں نے اپنے دوستوں سے شرط لگالی تھی کہ اسکو حاصل کر کے دکھاؤں گا اور 6 7 مہینوں کی بے انتہا محنت کے بعد میں اسکا دل جیتنے میں کامیاب ہوگیا تھا پہلے دوستی اور پھر اظہارِ محبت کیا میں نے ، ڈھائی سال کے عرصے میں وہ پوری طرح میری مٹھی میں تھی ، یونیورسٹی کے تیسرے سال میں اسنے مجھ سے نکاح کا مطالبہ کیا جو کے میں ایک سال تک ٹالتا رہا ، لیکن وہ میری محبت میں گرفتار تھی ، مجھے چھوڑ نہیں سکتی تھی اور میں اس سے اکتا چکا تھا یونیورسٹی کے آخری سال میں نے اس سے جان چھڑانے کے لیئے بول دیا کہ میری ماما نے کسی کو پاکستان میں پسند کرلیا ہے میں ماما کو منع نہیں کرسکتا میں پاکستان جا رہا ہوں تم کہیں اور شادی کرلو اور خوش رہو ۔ یہ کہہ کر میں نے رابطہ منقطع کردیا ، میرے یہ الفاظ اسے کسی گولی کی مانند لگے تھے وہ اس صدمے کی تاب نہ لاسکی اور موقعے پر ہی نروس بریکڈاؤن سے اس کی موت واقعہ ہوگئی " یہ کہہ کر شاہذر نے زاروں قطار روناں شروع کردیا اور آگے اسکی کہنے کی کچھ ہمت ہی نہیں تھی " ۔
• ہارون اور طه خود صدمے میں تھے وہ بھی اپنے الفاظوں کو کھو چکے تھے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہیں تسلی دیں؟ لیکن کس بِنا پر ؟ کام تو واقعی غلط تھا شاہذر 100% سزا کا حقدار تھا ، اور اگر غصہ کریں تو کیسے وہ انکا بھائی تھا وہ دونوں غم اور غصے کی درمیانی کیفیت میں پھنس گئے تھے ۔ !
"کسی کا دل توڑنا نا صرف ایک غیر اخلاقی حرکت ہے بلکہ ایک گناہ ہے ایک کبیرہ گناہ اللہ اس بندے سے منہ موڑ لیتا ہے ، شاہذر نہ صرف اللہ کا گنہاگار تھا بلکہ نیہال کے ساتھ ساتھ وہ اسکے غریب اور بوڑھے ماں باپ کا بھی گنہاگار تھا جن کی نیہال ایک امید تھی ، ایک سال تو بہت چھوٹی سزا تھی شاہذر کے لیئے " ، دنیا ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جب لوگ اپنی وقت گزاری کے لئے کسی معصوم کی زندگی تباہ کردیتے ہیں نیہال تو اس صدمے کو برداشت نہ کر پائی اور اپنی ساری تکلیف دوسروں کے کاندھوں پر ڈال کر خود چین کی نیند سو گئی لیکن کتنی ہی لڑکیا ہیں جو ایسے واقعات کے بعد مرتی تو نہیں ہیں مگر زندہ لاش بن جاتی ہیں ، نہ وہ زندوں میں ہوتی ہیں نہ مردوں میں ، مگر یہ حقیقت بھی نا قابلِ فراموش ہے کہ جو اللہ پر توکل کر جاتا ہے جو ایسے واقعات کے بعد اللہ کو پالیتا ہے ان کے لیئے زندگی پہلے سے زیادہ حسین ہوجاتی ہے ، پس تم اپنے رب پر بھروسا رکھو وہ الجبار ہے "ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا ۔ "
___________________________________________
YOU ARE READING
آزمائش 🍁
General Fictionایسی تکلیف جو تمہیں اللہ سے دور کردے ، " سزا ہے " اور ایسی تکلیف جو تمہیں اللہ پہلے سے زیادہ قریب کردے، " آزمائش ہے " ۔