باب#1 پری کے خواب

594 25 35
                                    

استنبول کی گلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔
استقلال اسٹریٹ میں دوڑتی ہوئ شہزادی۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے گلابی ریشمی فراک کو سمیٹ کر بھاگتی ہوئ۔وہ پریوں جیسی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھورے کھلے بالوں کو ادا سے آگے کرتی ہوئ لڑکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بہار کے پھولوں جیسی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریسا۔۔۔۔۔پریسا۔۔۔۔
اس نے دور کہیں سے آتی ہوئ آواز سنی ۔
جیسے کوئ اسے بلا رہا ہو۔
پریسا۔۔۔۔پریسا
اچانک اس کے سر پر کسی نے زور سے کوئ بھاری چیز ماری۔
ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی تو وہاں کچھ نہ تھا۔نہ استنبول ,نہ استقلال اسٹریٹ اور نہ ہی اس کا وہ پریوں جیسا فراک۔
وہ اپنی یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بڑے آرام سے سو رہی تھی۔جب اس کی دوست نے اس کے سر پر کتاب مار کر اس کو خوابوں کی دنیا سے نکالا ۔
"کیاہے اریشہ؟کیا بدتمیزی ہے یہ؟"پریسا انتہائ غصے سےبولی۔
"بدتميزی seriuosly بد تمیزی یہ نہیں ۔بدتمیزی وہ ہے جو تم کر رہی ہو۔بھلا سیڑھیوں پر بھی کوئ سوتاہے؟"

"اُف اریشہ میں بہت خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی۔"
"لوجی! پھر ترکی پہنچ گئ ہو گی۔بس کردو اب۔"اریشہ اس کی روز روز کی حرکتوں سے تنگ آ چکی تھی۔
"کیوں بس کردوں؟ دیکھنا تم یہ پریسا عائث تمھیں ایک دن ترکی جا کر دیکھاۓگی۔"پریساں نے ایک مضبوط عزم سے ہوا میں ہاتھ ہلا کر کہا۔جس پر اریشہ کی ہنسی نکل گئ۔
"مطلب سچ میں ۔تمھارے والدین تمھیں اکیلے ٹھلنے جانے نہیں دیتے ۔ترکی بھجیں گے۔"انتہائ آرام سے اس نے پریساں کے عزم پر پانی پھیرا تھا۔
"یہی تو مسئلہ ہے ۔"وہ جو پرجوش سی کھڑی ہوئ تھی۔ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئ۔
"میں کیا کروں کیسے اپنے خوابوں کو پورا کروں۔اریشہ! مجھے جا نا ہے وہاں ۔مجھے میرے خوابوں کو پورا کرنا ہے۔صرف ایک بار ایک بار تو مجھے وہاں جاناہے ۔"
"کہا تو ہے تمہیں کئ دفعہ۔میرے انکل جبران کی travel agencyہے۔وہ تمہیں ترکی بھیج سکتے ہے۔"وہ اس کو solution بتا چکی تھی۔
"اریشہ ,اریشہ تمہیں میں ہزار بار بتا چکی ہوں۔بابا نہیں مانتے۔وہ تو اس بارے میں بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔وہ تو اس انتظار میں ہے کہ یہاں میری پرھائی ختم ہو۔اور وہاں وہ میری شادی حاشر سے کروادیں۔"پریسا نے ایک ہی سانس میں اپنی ہزار دفعہ بتائ ہوئ دکھی داستان پھر سے سنادی۔
"حاشر! اچھا وہ تمھاری پھپھو کا بیٹا ۔اچھا تو ہے وہ اس سے کیا مسئلہ ہے تمہیں ؟"
"مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ۔میں اس سے شادی بھی کر لو گی مگر ابھی نہیں ۔ابھی مجھے میرے خواب پورے کرنے ہیں بس"
"ہاں جی! اور خواب بھی وہ جن کا نہ تو کوئ سر ہے نہ پیر۔ ترکی کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر تو تم نے یہ خواب سجاۓ ہیں۔ یا وہ تمھارے ناولز۔
نہیں مطلب سچ میں کوئ ناولز پڑھ کر بھی کسی ملک کا دیوانہ ہوتا ہے کیا؟"
ابھی پریسا اسے اپنے خوابوں کی توہین کر نے پر اچھی خاصی سنانے والی تھی کہ ایک بھاری آواز نے اس کو متوجہ کیا۔
"آپ دونوں یہاں کیا کرہی ہے؟"
سر قاسم جو اپنی سختی کی وجہ سے پوری یونیورسٹی میں مشہور تھے ۔چشمہ لگاۓ ایک ابرو اٹھاۓ ان کے سامنے کھڑے تھے۔
وہ دونوں جو ابھی خوابوں کی تعبیر پر بحث کر رہی تھی ۔ سہم کر کھڑی ہوئ ۔
"سر وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔"فی الحال کوئ جھوٹ ذہین میں آرہا تھا ۔ کہ سر بولے۔
"پانچ منٹ ہیں۔ آپ دونوں کے پاس۔ پانچ منٹ کے اندر اندر آپ دونوں اپنی کلاس میں ہوں۔"
"جی سر! "
دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ۔ کتابیں سمیٹی اور بھاگیں۔

اِک پل کی خطا Where stories live. Discover now