باب#9 گزرے لمحے

167 20 40
                                    

"باہر شور کس چیز کا ہے؟" کمرے میں بیٹھی آبش بی بی نے پوچھا تھا۔
"پتہ نہیں امیّ شاید کوئی آیا ہے باہر۔" انم پھپھو جو ان کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔انہوں نے کہا تھا۔
تبھی مسٹر عمار,عائث صاحب کے ساتھ کمرے میں داخل ہوۓ۔
"امی" انہوں نے کانپتی آواز سے کہا تھا۔
"آبش بی بی کا منہ دوسری طرف تھا۔ان منہ موڑا بھی نہیں گیا۔ایسے جیسے اگر وہ پلٹ کر دیکھے گی۔تو پتھر کی ہو جاۓ گی۔
مسٹر عمار آکر ان کے پیروں کی طرف بیٹھ گئے اور رونے لگے۔انم پھپھو خود ہکابکا بیٹھی تھی۔
"بھابھی آپ لوگ بیٹھے ادھر۔" عائث صاحب نے میم جولی اور آہل کو کہا تھا۔
"مجھے معاف کردیں امی۔پلیز مجھے معاف کردیں۔" مسٹر عمار اپنی ماں کے ماؤں پکڑ کر رو رہے تھے۔مگر آبش بی بی میں اتنی ہمت نہیں تھی۔کہ وہ ان کو اٹھا کر گلے سے لگا لیں۔ وہ خود کو بےجان محسوس کر رہی تھی۔
"کچھ بولے امی, کچھ تو بولے۔ مجھے مار لے بےشک,مگر ایسے خاموش نہ رہیں۔ پلیز امی۔" مگر آبش بی بی کچھ جواب نہیں دے رہی تھی۔وہ بلکل خاموش تھی۔ وہ تو ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی۔پھر کچھ دیر بعد وہ بولی۔
"35 سال عمار 35 سال۔
بہت وقت لےلیا تم نے آنے میں ۔اتنی دیر بعد کون آتا ہے۔35 سال کا انتظار۔اب تو میں نے امید بھی چھوڑ دی تھی۔" وہ اب بولی تھی۔اور بولتے ہوۓ ان کی بھی آواز بھی کانپ رہی تھی۔
"امی پلیز "
"عائث اس کو کمرے میں لے جاؤ۔35 سال کا سفر کرکے آۓ ہیں۔ تھک گئے ہونگے۔" انہوں نے عائث صاحب کو کہا تھا۔
"بھائی آۓ میرے ساتھ۔"
"امی بات تو سنیں۔"
"بھائی بعد میں بات کرلیجئے گا۔ابھی توآئیں۔"عائث صاحب ان کو لے کر دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ اور پھر آبش بی بی کی تو جیسے جان میں جان آئی۔ان کو خود کو بھی نہیں پتہ چلا تھاکہ انہوں نے ابھی کیا کیا ہے۔

              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پری صیحح صیحح بتاؤ پورا۔کیا تھا ان کے گھر ؟ کیسے ہیں یہ لوگ؟" رامین مسٹر عمار کی فیملی کے بارے میں جاننے کے لیے کافی پرجوش تھی۔
"رامین ان کا یو-ایس میں بزنس ہے۔کافی بڑا بزنس لگ رہا تھا۔کیونکہ گھر کافی بڑا تھا۔گاڑیاں بھی تھی۔اور فیملی کا میں کچھ کہہ نہیں سکتی میں زیادہ دن نہیں رکی تھی وہاں گھر بہت بڑا دیکھائی دے رہا تھا۔مگر وہاں رہنے والوں کے دل اتنے بڑے نہیں لگ رہے تھے یا شاید وہ صورتحال ہی ایسی تھی۔میں کچھ کہہ نہیں سکتی اس بارے میں ۔" وہ سب کچھ یاد کرکے وہ پھر سے اداس ہو گئی تھی۔
"کیوں؟ ایسا کیوں؟ لگا تمھیں ؟"
"شاید ولی کی وجہ سے!"
"ارے ہاں تم نےپہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا۔یہ کون ہے ولی۔"
"ولی۔۔۔۔۔ مطلب مددگار۔ تم کیا لگتا ہے۔کہ ناموں میں طاقت ہوتی ہے یا ناموں کا اثر ہوتا ہے انسان پر؟" پریسا نے الٹا رامین سے سوال کیا تھا۔
"ہاں شاید کہتے تو ہے کہ انسان پر اس کے ناموں کا اثر ہوتا ہے۔ جیسے تمھیں یاد ہے ماما کی دوست کی جو بیٹی تھی۔اس کا انہوں نے کوئی عجیب سا نام رکھا تھا۔پھر وہ بچی کافی بیمار رہتی تھی اور ذدی بھی بہت تھی۔تو سب نے کہا تھا کہ اس کا نام تبدیل کردو۔
پھر اس کا نام انہوں نے عائشہ رکھ دیا تھا۔تو اس کی طبیعت کافی ٹھیک ہوگئی تھی۔ویسے مجھے کنفرم نہیں پتہ مگر کہتے ہیں۔ کہ نام کا اثر ہوتا ہے۔" رامین نے ایک چھوٹے سے سوال کا جواب ایک لمبی تقریر سے دیا تھا۔
"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔" جب رامین نے پریسا کو اپنی طرف گھورتے ہوۓ دیکھا تو کہا تھا۔
"نہیں نہیں اور کوئی تقریر کرنی ہیں۔ تو وہ بھی کردو۔ایک چھوٹی سے بات پوچھی تھی۔"
"اچھا اچھا بتاؤ کیا کہہ رہی تھی تم۔"
"رامین اس کا نام ولی تھا۔مسٹر عمار کا چھوٹا بیٹا آہل کا بھائی۔اور وہ بلکل اپنے نام کی طرح تھا۔ہر وقت مدد کے لیے تیار رہنے والا۔میں جانتی ہوں ۔مدد اللّٰہ کی طرف سے آتی ہیں۔ مگر اللّٰہ زمین پر کسی کو وسیلہ بھی تو بناتا ہے ہےنا۔
    وہ میرے لیے ایک وسیلہ بن کر آیا تھا۔ہر مشکل میں وہ پہنچ جایا کرتا تھا۔جیسے اللّٰہ تعالیٰ سپیشلی اس کو میری مدد کے لیے بھیجتے ہوں۔ جب بھی وہ میری مدد کے لیے آتا تھا تق میں یہی سوچتی تھی۔ اللّٰہ کہاں کہاں سے مدد بھیجتا ہیں۔
   رامین اس نے مجھے اللّٰہ پر یقین کرنا سیکھایا۔اس نے مجھے ماں باپ کی عزت کرنا سیکھایا۔وہ۔۔۔۔۔" یہ کہتے کہتے پریسا کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
"وہ اب کہاں ہے پری؟" رامین نے بہت دیھمی آواز میں پوچھا تھا۔
"وہ نہیں ہے رامین۔ وہ نہیں رہا۔ مجھے جب بھی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔تو وہ میری مدد کے لیے پہنچ جایا کرتا تھا۔ مگر جب اسے مدد کی ضرورت تھی۔میں ۔۔۔۔۔ میں نہیں تھی وہاں رامین۔ میں اس کی میت کو بھی نہیں دیکھ پائی۔ میں اس کی مدد نہیں کرپائی۔۔۔" یہ کہتے ہوۓ وہ رونے لگی تھی۔ رامین نے اسے گلے لگا لیا تھا۔کچھ دیر پہلے تک رامین کو لگتا تھا۔کہ پریسا بہت adventure کرکے آئی ہے۔ دنیا گھوم کر آئی ہیں۔ مگر اب وہ جان گئی تھی۔کہ اس سب کی اس نے بہت بڑی قیمت دی تھی۔

اِک پل کی خطا Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon