باب#7 سچائی کا سامنا

150 16 29
                                    

وہ جو ہر دل عزیز تھا,وہ
ہر کسی کے قریب تھا
آج اپنی قیمت سب پر عیاں
کرگیا!!!
سب کے غموں کو اپنے دل میں
سموکر
وہ اپنوں پر خوشیوں کا آسماں
کرگیا!!!
کوئی بھی کسی کو دے نہ سکے
دکھ
وہ اپنی آنکھوں کو سب کا نگہبان
کرگیا!!!
وہ جسے پرواہ نہ تھی خود کی,,,,
دوسروں کی خاطر جینے والا خود کو مہماں
کرگیا!!!
ہر موڑ پر دیا ساتھ اس نے دوستوں
کا
وہ اپنی یاری سے لوگوں کو حیراں
کرگیا!!!
پھر اچانک ہی وہ کہیں گم ہوگیا
اس بات سے لوگوں کو وہ پریشاں
کرگیا!!!
جب ہوا علم زمانے کو کہ اب وہ
نہیں رہا
وہ شخص مَر کے سب کی زندگی ویراں
کرگیا!!!
(poetry by Shehla Anwer)

ولی کی ڈیڈ باڈی کو گھر لاۓہوۓ دو گھنٹے ہوچکے تھے۔رات کے ایک بجے تھے۔اور ہر طرف خاموشی تھی گہری خاوشی۔ ایسی خاموشی جس سے دم گھُٹنے لگے۔
ایک ہال نما کمرے میں ولی کی ڈیڈ باڈی کو رکھا ہوا تھا۔ اس سے کچھ فاصلے پر جولی میم خاموش بیٹھی تھی اور ان کے ساتھ ہی اسی حالت میں مسٹر عمار بیٹھے ہوۓتھے۔ ولی کے سر کے پاس وہ بیٹھا تھا جو اس کا اس دنیا میں سب سے بڑا ساتھی تھا آہل۔ ان سب کی خاموشی کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔ پیڈرو کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی تھی تو وہ وہی ہسپتال میں داخل تھا۔
ساتھ والے کمرے میں مرینا اور پریسا موجود تھی۔مگر اس کمرے میں خاموشی نہیں تھی۔
مرینا ٹہل رہی تھی۔اور ساتھ ساتھ بول رہی تھی۔
"کیا مطلب مَر گیا؟ ایسے کوئی مرتا ہے کیا۔بولو پری۔ ڈرامہ ہے یہ سب,بکواس ہے۔ابھی گھر سے نکلا اور مر گیا یہ کیا ہاں؟
ایسے نہیں مرتا کوئی بھی۔ہاں,ہوتے ہیں یہاں یو-ایس میں روز روز حادثے مگر پھر بھی ایسے کیسے مرگیا ولی؟" اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا۔اور ساتھ ساتھ وہ پاگلوں کی طرح چکر لگا رہی تھی۔
"ابھی میں نے دو تھپڑ لگانے اس کے اور اس نے فوراً اُٹھ جانا ہے۔prank کررہے ہیں۔ یہ لوگ میں مان ہی نہیں سکتی کے وہ مر گیا۔ میں ۔۔۔۔۔میں ابھی پیڈرو سے بات کرتی ہوں۔وہ مجھ سے جھوٹ نہیں بولے گا۔دیکھنا تم یہ۔۔۔یہ آخر میں ایک ڈرامہ نکلے گا ۔ددددیییکھنا تتتتمممم۔۔۔۔" اس کی آواز کانپنے لگی تھی۔پتہ نہیں وہ یہ سب بول کر پریسا کو تسلی دے رہی تھی یا خود کو؟
اسکی کمرے میں فرش پر پریسا بیٹھی تھی۔اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ مرینا کو خاموش کروا سکے۔ سیکنڈز میں ہوا تھا سب اس کو ولی کی تمام باتیں یاد آنے لگی تھی۔
"بلکل ٹھیک آپ ہمارے ساتھ ہوٹل چلے جہاں پر ہم ابھی رہ رہے ہیں۔ پھر سوچتے ہےکہ کرنا کیا ہے۔" جب وہ پہلی بار ولی سے ملی تھی۔تب اس نے اسے کہا تھا۔
"پریسا ہر جگہ کی اپنی خوبصورت ہوتی ہے۔یا میں یہ کہو کہ اصل خوبصورتی انسان کے اپنے اندر ہوتی ہیں۔ قدرت کی تو ہر شے ہی بےمثال ہے۔اگر آپ دل سے خوش ہو تو آپ کو انسانوں کی بنائی ہوئی چیزیں بھی اچھی لگتی ہے اور اگر خوش نہیں ہو تو پھر یہ قدرت کے حسین نظارے بھی پسند نہیں آتے۔" اسے یہ یاد آیا تھا۔جب ولی نے اسے اصل خوبصورتی کا مطلب بتایا تھا۔
"باقی لوگوں سے تو پھر بھی اتنا فرق نہیں پڑتا۔آپ نے اپنے پیرنٹس کو دُکھ دیا۔جو اچھا نہیں تھا۔" اُسے کچھ یاد آیا تھا۔ " جب اس نے اسے اس کی غلطیوں کا احساس دلایا تھا۔
"لو میڈم جی! یہ سب اللّٰہ کی طرف سے ہےوہ جسے چاہے زندگی دے۔جس سے چاہے لے لے۔ہم کون ہوتے ہیں۔ کچھ کہنے والے؟" قدرت کے حسین مناظر دیکھاتے ہوۓ اس نے پریسا سے کہا تھا۔
ولی اب آفیسر سے ہاتھ ملا رہا تھا۔اس کے بعد اس نے پریسا کو کہا۔
"چلو۔" وہ اس کے ساتھ پولیس اسٹیشن سے باہر آئی تھی۔
اور جب آخری دفعہ اس نے پریسا کو کہا تھا۔
"میں وعدہ کرتا ہوں پری تم پر اب کبھی کوئی آفت نہیں آۓ گی اور تم اپنی فیملی کے پاس سکون سے پہنچو گی۔" یہ کہا تھا اس نے جب وہ اس کو نئے سال کے حسین نظارے دکھانے کےلیے The abrill bridge لے کر گیا تھا۔وہ اب کہا گیا؟ اس نے تو ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا۔پھر کیوں کیا اس نے ایسے؟
یہ سب سوچ کر پریسا کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا۔اتنا اچانک یہ سب! ویسے تو اس کی زندگی میں سب کچھ unpridictable ہوا تھا۔مگر یہ۔۔۔یہ تو سب سے بڑھ کرتھا۔

اِک پل کی خطا Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ