باب#8 واپسی

144 17 28
                                    

"کوئی تو کھولو دروازہ !
مجھے ایک موکا دے دیں پلیز۔
صرف ایک دفعہ بھروسہ کرلے پلیز ۔" پریسا کے رونے کی آوازے ابھی تک آرہی تھی۔رات گہری ہوتی جارہی تھی۔ مگر کوئی دروازہ کھولنے کو تیار نہ تھا۔وہ سب دروازے کے پاس ہی کھڑے تھے۔ایک مرتبہ تو عابیر بیگم نے التجائی نظروں سے عائث صاحب کی طرف دیکھا تھا۔لیکن ان کا گھورنا ہی کافی تھا اور وہ خاموش ہوگئی۔
"ریحان دروازہ کھولو۔" پریسا کی دادی نے کہا تھا۔سب ان کی طرف متوجہ ہوۓتھے۔
"امی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟" عائث صاحب نے حیرت سے اپنی والدہ سے پوچھا تھا۔
"جو میں کہہ رہی ہوں۔وہ ٹھیک ہے۔سمجھو تم!"
"میں سمجھو؟ آپ سمجھنے کی کوشش کرے امی۔ میں لوگوں کو پھر سے کیا جواب دوں گا۔" وہ ماننے کو تیار نہ تھے۔
"لوگوں کو کیسے جواب دوگے اس کی فکر ہے۔اور ماں کا کیا ہاں؟ اس کی جیسے مرضی نافرمانی کرو۔وہ ٹھیک ہے ہےنا۔" آبش بی بی غصے میں تھی۔
"امی میں آپ کی نافرمانی کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر آپ بھی تو میری بات سمجھے۔"
"آدھی رات کو بیٹی کو گھر سے باہر نکال کر تم کونسی اپنی مجبوری ختم کروگے۔مجھے بھی تو ذرا  پتہ چلے۔
وہ سزا کے قابل ہے۔مگر آدھی رات میں ایک لڑکی ذات کو گھر سے باہر کھڑا کرنا کہا کی عقل مندی ہے؟ ریحان کھولو دروازہ اور اب مجھے یہ دوبارہ نہ کہنا پڑے۔"آبش بی بی نے حکم صادر کیا تھا۔بھلا اس کی تعمیل کیسے نہ ہوتی۔ عائث صاحب غصے میں کمرے میں چلے گئے تھے۔
ریحان نے دروازہ کھول دیا تھا۔اور اب عابیر بیگم پریسا کو اندر لا رہی تھی۔
"عابیر بیگم! اس سے کھانے کا پوچھو ۔پھر سُلا دینا اس کو۔" یہ کہہ کروہ بھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس سے زیادہ وہ پریسا کو لاڈ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ویسے اتنا بھی بہت تھا۔
عابیر بیگم  کے گلے لگنے کے بعد پریسا ریحان کی طرف بڑھی تھی۔
"بھائی سوری۔"آنسو اس کی آنکھوں میں تھے۔
"غلطی کا احساس ہوجاۓ۔اتنا بھی کافی ہوتا ہے۔"ریحان نے کہا تھا۔وہ واقعی بہت اچھا بھائی تھا۔
"چلو اندر, ٹھنڈ ہورہی ہیں باہر۔"

               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ میرے ساتھ  تھامرینا۔میں بھی اسی کار میں تھا۔پھر میں بچ گیا اور وہ مر گیا ایسا کیوں؟ " پیڈرو اور مرینا اسی کار ریسنگ پلیس میں موجود تھے۔جہاں وہ اکثر آیا کرتے تھے۔ویسی ہی گاڑیاں ہر طرف, شور ربہ مگر وہ دونوں ایک سائڈ پر اُداس بیٹھے تھے۔اگر ولی ادھر ہوتا تو وہ لوگ کبھی ایسے نہ بیٹھتے۔
"مجھے تو خود ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ ایسا بھی ہوچکا ہے۔" مرینا نے جواب دیا تھا۔
"میں نے تو تم دونوں کے علاوہ کوئی اور دوست بھی نہیں بنایا مرینا۔میں کیا کروں اب۔"
"خدا کے لیے مت کہو یہ سب پیڈرو۔مجھے لگتا ہے کہ یہ سن کر مجھے کچھ ہوجاۓ گا۔ہم کیا کچھ نہیں سوچا تھا۔ہمارے plans, ٹرِپز سب  ادھورے رہ گیا۔میں ولی کے بغیر کبھی بھی ان جگہوں پر نہیں جاسکو گی جو ہم نے سوچی تھی۔" وہ دونوں واقعی کافی دکھی لگ رہے تھے۔ ایسے شخص کو کھونا آسان نہیں ہوتا جس کے ساتھ آپ نے اپنے بچپن کی ہر خوشی غمی گزاری ہو۔

اِک پل کی خطا Donde viven las historias. Descúbrelo ahora