باب#2 فرار

217 19 27
                                    

29نومبر2018ء
یو-ایس میں اس وقت دن کے دوبج رہےتھے۔آج برف باری نہیں ہوئی اس لیےموسم کافی خوشگوار تھا۔اتنے میں ایک گاڑی, بنگلے نماگھر کے سامنے آکر رکی۔ یہ یقیناً کوئی پوش علاقہ تھا۔اردگردبلکل سناٹہ تھا۔کچھ ہی سیکنڈ بعد گھر کاگیٹ کھلا اور گاڑی گھر کے اندر داخل ہوئی۔
گاڑی کا دروازہ کھلا اور اندر سے وہ نکلا۔گہرےگرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس, مغرور ناک جو بلکل اپنے باپ پر گئی تھی۔ ہاتھ میں گھڑی, بال جیل سے پیچھے کیے ہوۓ وہ 31,32 سال کا کوئی business man لگ رہا تھا۔ وہ آہل عمار تھا۔
"موم, ڈیڈ گھرپر ہیں؟" بہت روکھے انداز میں اس نے سامنے کھڑے ملازم سے پوچھا تھا۔ یوایس میں ملازم رکھنا آسان نہ تھا۔مگر جی امیروں کا پیسہ بولتا ہے۔
ملازم نے ہاں میں سر ہلایا۔ تو وہ تیزی سے اندر چلا گیا۔اندر وہ ایک دروازے کے سامنے آکر رک گیا جس میں سے شور کی آوازے آرہی تھی۔
"میری سب سے بڑی غلطی تم سے شادی کرناتھی۔" کسی مرد کی آواز آئی تھی۔یہ شاید مسٹر عمار تھے۔
"ارے ہاں! مجھے تو کل وزیراعظم نے بلوایا ہے نہ تم سے شادی کرنے پر انہوں نے مجھے گول میڈل جو دینا ہے۔" آگے سے میم جولی نے بھی ٹکا کر جواب دیا تھا۔
"تم اپنی بکواس بند کرو!"
"زبان سنبھال کرمسٹر۔ آج اگر تم یہاں ہوتو میری وجہ سے۔" جولی نے تنک کر کہا۔
"غلط, اگر آج میں یہاں ہوں تو اپنی انتھک محنت کی وجہ سے۔تم بھولو مت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ابھی مسٹر عمار اپنی محنت کے قصے سنانے ہی والے تھے کہ زور سے دروزہ کھلا اور وہ اندر آیا۔ وہ یقیناً شدید غصے میں تھا۔
"آہل بیٹے تم اس وقت!" بوب کٹ بالوں والی جینز شرٹ میں ملبوس جولی فوراً کھڑی ہوئی۔
"آپ دونوں بزنس بند کیوں نہیں کردیتے؟ آرام سے گھر بیٹھے اور لڑتے رہیں۔ آپ دونوں آخر ضرورت ہی کیا ہے کام کرنے کی؟ کافی پیسہ جمع ہوگیاہے۔آرام سے گھر بیٹھیں اور کھائیں۔" اب بولنے کی باری اس کی تھی۔
"ارے نہیں بیٹے میں توآفس آنے ہی والا تھا۔بس یہ فضول عورت ۔۔۔۔۔۔۔"
"پلیز ڈیڈ! اب اور لڑائی نہیں ۔آپ دونوں آفس پہنچیں۔مجھے بزنس میٹنگ کے لیے ڈیوڈ کے آفس جاناہے۔میری غیر موجودگی میں آپ دونوں کا آفس میں ہونا ضروری ہے۔" یہ کہہ کر وہ رُکا نہیں اور باہر چلا گیا۔
"دیکھو, دیکھو یہ ہے میرا بیٹا اور تمھارا وہ نالائق بیٹا کہاں ہے؟ ہوگا اپنے کسی آواره دوست کے ساتھ۔" مسٹر عمار پھر سے شروع ہوگۓ تھے۔
"اُس بے چارے کی ابھی تو پڑھائی ختم ہوئی ہے۔اس کو اپنی زندگیenjoy کرلینے دو۔اپنی جوانی میں تو تم۔۔۔۔۔۔۔"
اور بحث پھر سے شروع ہوگئی۔دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی غلطی مان لے تو دنیا کے سارے مسئلے حل نہ ہوجاۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اس بار تو تم گۓ۔" کسی نے پْرجوش آواز میں کہا تھا۔
"تمھاری بھول ہے جانی!"
"تو سب تیار! ایک, دو, تین گو۔۔۔۔۔۔۔"
اور اس آواز کے ساتھ ساری ریسینگ کارز racing cars تیزی سے چل پڑی۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں وہ مختلف قسم کی آوازے نکال رہے تھے۔اور اردگرد بہت سے تماشائی جمع تھے۔
یہ شاید کوئی ویران علاقہ تھا۔جہاں پر نوعمر لڑکے اور لڑکیاں مختلف چیزوں پر شرط لگا کر اپنی زندگیاں داؤپر لگاتے تھے۔
ان میں وہ دو بھی تھے۔جو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے تھے۔ اور آخر کار نیلے رنگ والی کار کی جیت ہوئی۔
"یاہو! میں پھر سے جیت گیا۔ کیوں بے لنگور اب بول۔" وہ نیلی, بلی جیسی آنکھوں والا لڑکا تھا۔جو بلکل اپنی والدہ پر گیا تھا۔ وہ ولی عمار تھا۔ کالے بال جیل کہ مدد سے کھڑے کیے ہوۓ, گورا رنگ اور ہر چیز سے بیگانہ۔
اتنی ہی دیر میں دوسری گاڑی سے وہ نکلا جو اس کا بہترین دوست تھا۔ پیڈرو سپائک۔
"یار, کیا بکواس ہے۔ میری گاڑی خراب ہوگئی تھی درمیان میں ۔" اس نے ہارنے پر ہمیشہ کی طرح بہانہ بنایا۔
"بس شروع کردیا بلی نے رونا۔"
"ولی, پیڈرواب بس کرو, گھر چلتے ہیں۔ میری ماما مجھے باربار کالز کررہی ہے۔" کسی پریشان آواز نے کہا تھا۔ یہ مرینا ولیم تھی۔زرد رنگ کے بالوں کو آدھا گلابی رنگ کئے۔ہلکی سبز آنکھوں والی لڑکی , وہ واقعی پریشان لگ رہی تھی۔
اتنے میں ولی کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔
"کہاں ہوتم! " ایک رعب دار آواز نے کہا تھا۔آواز سن کر وہ تیر کی طرح سیدھا ہوگیا اب پریشان ہونے کی باری اسکی تھی۔
"جی آہل بھائی ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔
میں یونیورسٹی میں ہوں۔ بس آخری اَسائمنٹ جمع کروانی تھی۔اسی کے لیے آیاہوں ۔"
"دس منٹ میں آفس پہنچو۔" اور بس فون بند۔ ولی نے گہرا سانس لیا اسکا جھوٹ پکڑا نہیں گیاتھا۔

اِک پل کی خطا Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang