تم صرف میری ہو قسط نمبر:01

1.5K 45 7
                                    

ناول:تم صرف میری ہو....
مصنف: زارون علی
قسط نمبر: 01

شام کے بڑھتے ہوئے سائے اور موسم کے بدلتے تیور دیکھ کر نور کی جان پر بن آئی تھی اُس نے حاشر کو کوسنے کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا رخ کیا تاکہ بارش تیز ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر حاشر کا انتظار کر سکے جو اُس کی بیس بار یاد دہانی پر بھی ابھی تک اُسے لینے نہیں پہنچا تھا۔ آج گھر جاتے ہی ابو سے شکایت کروں گی اور حارث بھائی سے بھی۔ نور نے تیز قدم اُٹھاتے یونیورسٹی میں موجود چند نفوس کو دیکھا جو اُسی کی طرح یا تو کسی کے انتظار میں بیٹھے تھے یا پھر لیٹ کلاس کے چکر میں اس وقت یہاں بارش میں خوار ہو رہے تھے۔
اُففف اللہ کیا مصیبت ہے تیز ہوتی بارش سے گھبراتے اُس نے بھاگ کر اپنا اور ڈیپارٹمنٹ کا چند قدم کا فاصلہ طے کیا اور وہاں قدم رکھتے ایک اور مصیبت اُس کے لیے تیار تھی۔ آج کا دن ہی منحوس ہے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ہر جگہ سناٹا دیکھ کر اُس نے واپس پلٹنے کا سوچا مگر اُس سے پہلے ہی اُسے میم فاطمہ اور میم حنا اسٹاف روم میں بیٹھی نظر آگئیں۔ شکر ہے کوئی تو ہے یہاں،دل میں کہتے اُس نے سامنے کلاس کا رخ کیا تاکہ اپنے بیگ سے موبائل نکال کر حاشر کا پوچھ سکے مگر قسمت یہاں بھی اُسے دغا دے چکی تھی۔ اُس کے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہوتے موبائل بس بند ہونے کے قریب تھا۔
اللہ یہ ساری مصیبتیں میری زندگی میں آج ہی آنی تھیں۔ خود کلامی کرتے اس سے پہلے کے وہ میسج ٹائپ کرتی سکرین آرجے کے نام سے بلنک ہوئی۔ "کہاں ہو؟؟ کہیں اپنے خالہ زاد کہ خیالوں میں کھو کر اپنے چار سالہ پرانے دوست کو تو نہیں بھول گئی؟؟" غصے والے اور شکی ایموجی کہ ساتھ سینڈ کیے گئے میسج پر اب نور نے آبرو اچکاتے آنکھیں نکالیں اور نقاب اُتارنے کی زحمت کیے بغیر ہی چیئر پر بیٹھتے میسج ٹائپ کرنے لگی۔ "یونی ہوں اور خالہ زاد سے ایک مہینے بعد شادی ہے ابھی ہوئی نہیں کہ اُس کے خیالوں میں کھو جاؤں اور رہی بات چار سال پرانے دوست کی اُس سے میں ایک گھنٹے میں گھر آکر بات کرتی ہوں"۔ ناراضگی والے ایموجی کہ ساتھ اُس نے حاشر کی بجائے آرجے کو میسج سینڈ کیا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (جو ان چار سالوں میں اُس کے لیے ایک اچھے دوست کے ساتھ ساتھ اپنی نرم اور خیال کرنے والی طبیعت کے سبب نور کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا تھا اور اُس نے آج تک کبھی نور سے کوئی غیر اخلاقی بات نہیں کی اور اب اُسکی شادی پر وہ سب سے زیادہ خوش تھا۔ ہر معاملے میں نور کا ساتھ دینا اُسکی ہر بات کو اہمیت دینا ہر تکلیف میں اُسکے ساتھ رہنا حتیٰ کہ اُس کے سر درد پر وہ ساری ساری رات جاگتا اور بے چین رہتا تھا اور با ر بار اُسے میسج کرتے اُسکی طبیعت کا پوچھتا جس سے نور اکثر تنگ بھی آجایا کرتی تھی پر اُسکا فکر کرنا ہر وقت اپنے لیے بے چین دیکھنا اب نور کو بھی اچھا لگتا ) اُس کا موبائل آف ہو گیا۔ اُففف اب کیا کروں میں موبائل ہاتھ میں لیے اُس نے متلاشی نظروں سے باہر دیکھا جہاں کچھ لوگ ڈیپارٹمنٹ میں وقفے وقفے سے داخل ہو رہے تھے۔ جو شکل سے تو یونی کے سٹوڈنٹ ہی لگ رہے تھے مگر پھر بھی نور کو ایک ساتھ تقریبا بیس کے قریب لوگ دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی تب ہی وہ اپنا نقاب ٹھیک کرتے گاؤن پہ لگی مٹی کو صاف کرتے بیگ اُٹھاتے کمرے سے باہر نکلنے لگی تاکہ دوبارہ سے گیٹ کے پاس جا سکے مگر جیسے ہی اُس نے قدم باہر کی جانب بڑھائے اُن میں سے ایک شخص (جس کا چہرہ باقیوں کی نسبت رومال سے ڈھکا ہوا تھا) اُسکی طرف آیا۔ "عالیان یہاں آؤ" اُس لڑکے نے اپنے ہی جیسے خوبرو نوجوان جو ہاتھ میں کچھ کاغذات پکڑے کھڑا تھا اُسے اشارہ کرتے کمرے کی طرف آنے کا کہا اور باقی کوآنکھ کے ذریعے سب پر نظر رکھنے کا کہا تب ہی دوشخص اسٹاف روم اور باقی دوسرے کمروں کی جانب بڑھے۔ نور نے یہ سب دیکھ کر بیگ سنبھالتے ہوئے جلدی سے باہر کا رخ کیا مگر اُس سے پہلے ہی رومال والے شخص نے اُسکے سامنے آکر اس کا راستہ روکا۔ "کیا مسئلہ ہے آپ کو؟" نور نے گھبراہٹ کے باوجود دلیری کا مظاہرہ کرتے اُس کی کالی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کوئی مسئلہ نہیں اور تم سے مجھے کبھی کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوسکتا"۔ عالیان کو اشارہ کرتے اُس نے نور کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ دو قدم پیچھے ہوتے کمرے میں واپس اُسی کرسی پہ جا بیٹھی جس پر وہ پہلے بیٹھی تھی۔
"پلیز مجھے جانے دو"۔ اس لڑکے کے ساتھ مزید پانچ لوگوں کو کمرے میں داخل ہوتے اور دروازہ بند کرتا دیکھ کر اب صحیح معنوں میں اُس کی جان نکلی تھی۔ اُس نے اُس نقاب پوش لڑکے کے آگے ہاتھ جوڑتے کہا تو وہ اُسکی خوف سے بھری آنکھوں کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
" گھبرانے کی ضرورت نہیں جب تک میں ہوں، یہاں کیا دنیا کا کوئی شخص بھی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا بس پرسکون رہو اور قاری صاحب آپ شروع کر یں"۔ اُس کے گلے سے اُس کا یونی کارڈ (جس میں اُس کے شناختی کارڈ کہ ساتھ ساتھ سکندر صاحب کی بھی ایک شناختی کارڈ کی کاپی موجود تھی جو نور نے اپنی بھلکڑ طبیعت کی وجہ سے اُس میں رکھی تھی تاکہ کل فارم فل کرتے وقت اُسے پریشانی نہ ہو)نکال کر ایک شخص جو شکل سے قاری یا کسی مسجد کا امام لگ رہا تھا۔ ان کو پکڑاتے ہوئے باقی سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود بھی نور کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گیا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟" نور جس کی خوف کی وجہ سے بولتی بند ہو چکی تھی۔ اُس نے گھٹی ہوئی آواز میں اپنے پاس اُسی نقاب پوش کو بیٹھتے دیکھ کر پوچھا جس کا چہرہ رومال کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی۔
" نکاح کر رہا ہوں تم سے"۔ کالی آنکھوں والے شخص نے جتنی تسلی سے جواب دیا نور نے اتنی ہی حیرت سے اُس کے ساتھ ساتھ اُن پانچ نفوس کو دیکھا جو کہیں سے بھی غنڈے یا چور نہیں لگ رہے تھے...

جاری ہے....

ناول تم صرف میری ہوWhere stories live. Discover now