کوریڈور کا دروازہ کھولتا ہے......
اسکیوز می؟نرس حارث صاحب اور عائشہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے _ یہ اندر جو پیشنٹ ہیں منتہا شاہ کیا یہ آپکی رشتہ دار ہیں؟
جی جی ہماری بیٹی تھی دونوں ایک ساتھ کہتے ہیں....
تھی نہیں ہے وہ زندہ ہیں پر ابھی ان کو ہوش نہیں آیا نرس کا کہنا تھا......
اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر دونوں میاں بیوی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں.....
آپ دونوں کو ڈاکٹر اندر بلا رہی ہیں.....
کیا ہم اپنی بیٹی کو دیکھ سکتے ہیں؟عائشہ بیگم ترسی نگاہ سے پوچھتی ہیں.....
جی ہاں اندر آجائے.....
اندر جاتے ہی انہیں رونا آجاتا ہے ان کی معصوم سی بیٹی کا اب کیا حال ہوگیا تھا انہوں نے کبھی سوچا بھی نا تھا......
رنگ بلکل مرجھا سا گیا تھا آنکھوں کے گرد ہلکے نمایا ہو رہے تھے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی بال بکھرے ہوئے تھے آنکھوں کو مکمل بند کیا ہوا تھا
ان سے اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی.....
منتہا میرے بچے عائشہ منتہا کے معصوم چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی ہیں کیوں کیا تم نے ایسے اپنا خیال کیوں نہیں رکھا بتاو منتہا تو ہماری جان ہے میں نے کہا تھا نا آپ سے عائشہ ہماری بیٹی ہمیں نہیں چھور سکتی کبھی بھی حارث صاحب منتہا کو پیار کرتے ہوئے کہتے ہیں......
آپ دونوں میری بات سنے پیچھے سے ڈاکٹر مخاطب ہوتی ہیں.....
جی بولے ڈاکٹر صاحبہ؟
آپ لوگ تسلی سے میری بات سنے.....
ڈاکٹر سب خیر تو ہے نا حارث صاحب پریشانی سے پوچھتے ہیں....
جی نہیں آپکی بیٹی کا خون بہت زیادہ بہا ہے اور ان کو ہمارے پاس لیٹ لایا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم نے ان کو بچا تو لیا ہے پر....
پر کیا ڈاکٹر؟ بتائیں....
یہ قوما میں ہیں ڈاکٹر کا یہ کہنا تھا اور وہی عائشہ اپنا سر پکر کر بیٹھ گئی....
نہیں پر کیسے ڈاکٹر ہماری بیٹی تو بلکل ٹھیک ہے حارث صاحب نے کہا....
دیکھیے ہمیں یہ تو نہیں پتا کہ وہ کب تک ہوش میں آتی ہیں کیونکہ اس حالت میں بندہ مر بھی سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں چند دنوں میں ہوش آجائے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں 5 سال لگ جائے 10 سال لگ جائے یہ تو ان کی زہنی حالت پر ہے ہمارا کام تھا. آپکو بتانا آپ لوگ بس اللہ سے دعا کرے کہ ان کو جلدی ہوش آجائے میں چلتی ہوں اب........
اللہ یہ کیا ہوگیا میری بچی کے ساتھ عائشہ روتے ہوئے کہتی ہیں....
بیگم جو اللہ کو منظور ہو ہونا تو وہی ہے نا شاید یہی ہماری قسمت میں ہے بس اللہ سے دعا کریں.....
یا اللہ کچھ ایسا کردے کے میری بچی پھر سے پہلے جیسی ہوجائے عائشہ ہاتھ اتھا کے کہتی ہیں.....وقت کا کام تھا گزرنا اور وقت دھیرے دھیرے گزری جارہا تھا 8 مہینے گزر چکے تھے پر منتہا کی طرف سے کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی عائشہ اور حارث صاحب دن رات دعاؤں میں مشغول تھے ان 8 مہینوں میں کافی کچھ بدلا بھی تھا.....
بدلا یہ تھا کہ دینا فرانس سے ملتان اپنے آبائی گھر جا چکی تھی اور اس کی منگنی اس کے چچازاد سے ہوئی تھی پر اسے نا منتہا کا پتا تھا نا ان کو دینا کا ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتے ہی نا تھے دینا نے بہت کوشش کی منتہا کا پتا کرنے کی پر منتہا لوگ شفٹ ہو چکے تھے اور ان سب کے نمبرز بھی تبدیل ہو چکے تھے اس لیے اس نے بھی اپنی کوشش چھور دی ......
سب سے بری تبدیلی یہ تھی کہ میراب لندن پرھنے چلا گیا تھا منتہا کی یاد اسے یہاں رہ کر پل پل آتی تھی اس لیے اس نے یہاں سے دور رہنا ہی بہتر سمجھا میراب کے ابو نے امارا سے اسکی منگنی کروادی تھی اور اسے بھی نا چاہتے ہوئے یہ سب قبول کرنا پرا صرف اپنے ابو کی خواہش کی وجہ سے پر وہ منتہا کی حالت سے بکل انجان تھا.....
محبت انسان کو صرف رولاتی نہیں بلکے اسے مار بھی دیتی ہے اور منتہا کا اس وقت وہی حساب تھا.....
ESTÁS LEYENDO
سکونِ قرب💞 ✅ Completed
Historia Cortaخدا ڈھونڈنے سے واقعی مل جاتا ہے... مگر اس وقت جب آپکی تلاش سچی اور آپکی ہوتی ہے... اور جس تلاش کے کشکول میں کھوٹ کے سکے شامل ہوں پھر ان کو خدا نہیں ملتا...!! یہ کہانی ہے درد وفا...درد محبت سہنے والوں کی... محبت میں رسوای سہنے والوں کی ....یہ کہانی...