قسط نمبر 1

44 3 0
                                    

"اللہ تعالی' کہاں ہیں آپ۔۔؟"وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں قبر کی نرم مٹی سے کھیل رہی تھی۔ صبح کی پہلی کرن پھوٹ چکی تھی اور وہ اپنے معمول کی طرح وہیں قبر سے لپٹی بیٹھی تھی۔ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے سنہرے بالوں کو بار بار اس کی چہرے پر پھیلا دیتا جسے وہ اپنے مٹی والے ہاتھوں سے پیچھے کر دیتی۔
"میں سب سے پوچھتی ہوں اللہ تعالی' کہاں ہیں پر سب کوئی نا کوئی الگ جواب دیتے ہیں۔ اب میں آپ کے پاس کیسے آوں۔کیسے بات کروں آپ سے؟" وہ اب قبر پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچنے لگی۔
"ماما۔۔آپ کیسی ہیں۔مجھے پتا ہے آپ سکون سے سو رہی ہیں، پر آپ کب اٹھیں گی، مجھے پھرسے آپ کی گود میں سر رک کر سونا ہے۔پھر سے آپ سے قرآن پاک سیکھنا ہے۔۔کوئی آپ جیسا نہیں ہے ماما۔ آپ آ جائیں نا واپس۔" وہ آہستہ آواز میں اپنی ماں سے بات کر رہی تھی جو کہ ایک ننھے بچے کو ٹرک کی ٹکر سے بچاتے بچاتے خود اس کی زد میں آ گئی تھی۔ اس وقت عنایہ چار سال کی تھی۔
وہ آنکھیں ملتا وہاں سے گزر رہا تھا۔کافی دیر تک روتے رہنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں بہت جلن تھی۔ تبھی اس کی نظر سنہرے بالوں والی اس چھوٹی سی بچی پر پڑی۔"یہ چھوٹی سی بچی اکیلی اس وقت یہاں کیا کر رہی ہے۔"اس نے آس پاس نظر دوڑائی مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اس بچی کے پاس گیا۔ عنایہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا۔ وہ گڑیا جیسی بچی اپنی معصوم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"کون ہو آپ؟اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟" اس نے عنایہ سے پوچھا
عنایہ اسے دیکھ رہی تھی جو کالے رنگ کی شلوار قمیض پہنے ، آستین آدھے موڑے پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ عنایہ اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اسے غور سے دیکھ رہی تھی جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔
"آپ کا نام کیا ہے؟" نوجوان نے دوبارہ سوال کیا
"عنایہ" عنایہ نے جواب دیا۔ گھنی پلکوں کی جھالر تلے وہ اسے ابھی بھی یک ٹک دیکھ رہی تھی۔
"آپ یہاں کیا کر رہی ہو بیٹا۔۔؟ آپ کسی کے ساتھ آئی ہو کیا؟"
عنایہ نے نفی میں گردن ہلائی۔"میری ماما یہاں رہتی ہیں۔"
"کہاں۔۔؟"نوجوان کو لگا کہ اس کی ماں شاید یہاں کی صفائی ستھرائی کرتی ہو گی۔
"یہاں" عنایہ نے قبر کی طرف اشارہ کیا۔ نوجوان کا دل بھر آیا۔
"اور بابا۔۔۔؟"
"وہ بہت دور ہیں یہاں سے۔" 
"وہ کہاں؟"
"اللہ تعالی کے پاس ہیں جیسے ماما۔ پر ماما سے تو میں مل لیتی ہوں کیونکہ میں اسی شہر میں رہتی ہوں پر بابا دوسرے ملک میں کہیں ہیں"عنایہ کی باتیں اس کے لیے تھوڑی عجیب تھیں۔
"آپ کو یہاں اکیلے ڈر نہیں لگ رہا؟ "
"اس میں ڈرنے والی کونسی بات ہے۔ آخر میں سب کو یہں تو آنا ہے۔ ڈرنا تو بس اس سے چاہیے جو یہاں آنے کے بعد ہوتا ہے" عنایہ نے جواب دیا۔ وہ چھ سال کی بچی اپنی عمر کے لحاظ سے بہت سمجھ دار تھی۔ کچھ لمحے خاموشی کی نظر ہوئے۔
"میرے ماما بابا بھی یہیں ہیں۔" نوجوان نے دور دو قبروں کی طرف اشارہ کیا جہاں اس نے کچھ دیر پہلے تازہ پھول رکھے تھے۔
"آپ روز ان سے ملنے آتے ہیں؟" یہ عنایہ کی طرف سے پہلا سوال تھا۔
"نہیں۔۔۔ میں لندن میں رہتا ہوں۔ میرے بابا ماما پاکستان سے تھے۔  پر وہ شادی کے بعد لندن شفٹ ہو گئے۔ میں وہیں پیدا ہوا پر ہم پاکستان آتے جاتے رہتے تھے۔ پھر ایک بار یوں ہوا کہ میرے بابا ماما مجھے وہیں لندن چھوڑ کر ایک ماہ کے لیے پاکستان آئے تھے۔ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ فلائٹ میں اچانک کچھ خرابی ہو گئی اور فلائٹ کریش ہو گئی۔ " اس نے عنایہ کو پوری کہانی سنا دی جیسے اسے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کسی کی تلاش ہو
"آپ کے بہن بھائی کہاں ہوتے ہیں..؟" عنایہ نے پوچھا
"میرا کوئی بہن بھائی نہیں ہے"
"اور دوست۔۔۔"
"بہت کم۔۔۔سب لندن میں ہیں"
"تمہارے کتنے بہن بھائی ہیں۔۔؟" اس بار نوجوان نے سوال کیا
"میں بھی اکیلی ہوں"وہ مسکرا کر بولی۔۔
"خیر اب میں چلتی ہوں۔۔ بہت دیر ہو گئی ہے۔ بی اماں اٹھنے والی ہوں گی"نوجوان بھی اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔" نوجوان نے کہا
"نہیں میں کسی انجان کے ساتھ کہیں نہیں جاتی۔ آپ کا بہت شکریہ۔" کہ کر وہ وہاں سے چلی گئی ۔ نوجوان اس سے متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکا۔
_____
دن یوں ہی گزرتے گئے۔وہ دونوں روز قبرستان آتے اور باتیں کرتے۔
"عنایہ آپ کس کے ساتھ رہتی ہو۔۔؟" نوجوان نے سوال کیا
"بی اماں" عنایہ نے جواب دیا۔
"وہ کون ہیں۔۔؟"
"جب میں بہت چھوٹی تھی تب وہ ہمارے گھر آئی تھیں۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ ماما بابا کی ڈیتھ کے بعد میرے رشتےدار مجھے ایک یتیم خانے میں چھوڑ آئے تھے۔ وہ میری سب دولت اور پراپرٹی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن مجھے بی اماں مل گئیں۔ وہ مجھے اپنے سینے سے لگا کر بہت روئیں اور پھر مجھے اپنے ساتھ لے آئیں۔"
"تو اب تم کہاں رہتی ہو؟"
"اس سڑک کو پار کرو تو سامنے جو بنگلہ ہے وہ میرا ہی ہے۔"
"اور بی اماں۔۔؟ تمہارے رشتے داروں نے تمہاری پراپرٹی نہیں لی کیا؟"
"بی اماں ایک وکیل تھیں۔ انھوں نے میرا کیس لڑا اور ہم جیت گئے۔ انھوں نے سب میرے نام کروا دیا۔"
نوجوان مسکرایا اور وہ کچھ دیر بعد واپس چلے گئے۔
____
"تم میرے بابا ماما سے ملنا چاہو گی..؟" نوجوان نے پوچھا
"کیا تم مجھے ملواو گے؟" عنایہ نے حیرت سے پوچھا۔نوجوان مسکرایا۔ وہ دونوں اٹھے اور قبروں کی طرف چل دیے۔
"یہ ہیں میرے ماما بابا۔" ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا تو قبر پر پڑے تازہ غلاب کے پھولوں میں سرسراہٹ پیدا ہوئی۔ قبر کی تختی پر ان دونوں کے نام لکھے تھے
"عیسی' ہارون" اور "شانزے عیسی' ہارون"
ایک دم اس کے گلے میں ایک پھندا اٹکا۔ اور آنسو موتی کی صورت میں اس کے چہرے پر گرنے لگے اور وہ بیٹھتا چلا گیا۔ عنایہ سے اسے روتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔
"تم رو نہیں پلیز۔۔" عنایہ نے اس کے کندھے پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ رکھے
"میں انھیں بہت یاد کرتا ہوں۔" اس نے آنکھیں ملتے کہا
"ہم سب کو اس دنیا سے جانا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ اور اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتی ہوں۔" اس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اس کے آنسو پونچھتے کہا۔
"تم ان کے لیے پڑھائی کیا کرو۔ ان کو تمہارے آنسووں سے زیادہ تمہاری پڑھائی کی ضرورت ہے"

رب العالی'Where stories live. Discover now