قسط نمبر 5

18 4 0
                                    

وقت کا یہی تو سب ے بڑا فائدہ ہے۔ یہ ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ زخم جسم کے ہوں یا روح کے وقت ان پر مرحم لگا ہی دیتا ہے۔ وقت اور انسان کا آپس میں سانجھا سا رشتہ ہے۔ جیسے کوئی بھی خاص وقت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا ویسے ہی انسان۔ اسی طرح جیسے وقت اپنا رخ بدلتا رہتا ہے ویسا ہی انسان ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ کوئی انسان شروع سے جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ انسان بھی وقت کی سوئی کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
___
رات کو عنایہ اور حدید زکی کے گھر ہی رک گئے کیونکہ کھانے سے فارغ ہوتے بہت دیر ہو گئی تھی۔ حدید اور زکی ایک جگہ جبکہ عنایہ اور لیزا ایک کمرے میں سو گئے۔ صبح چار بجے کے قریب لیزا کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا  کہ جہاں عنایہ سوئی تھی وہ جگہ خالی تھی۔ وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔ کمرے میں دیکھا پر وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ پھر وہ باہر ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا کہ عنایہ اور حدید صوفے پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
"Ooooh.. you are here" لیزا کی آواز پر ان دونوں نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھا ۔
"Aamm.. yup.. it's our Fajr time so we just offered the prayer and now we are reading our today's lesson" حدید نے جواب دیا
"Lesson...now..?" لیزا تھوڑی حیران ہوئی
"Holy Quran...we read our lesson daily as it makes our day blessed" عنایہ نے فٹ سے جواب دیا
"Oooh.. i see" لیزا نے مسکرا کر جواب دیا۔ وہ کم گو اور بہت سادہ تھی۔
"Okay.. i'm going back to sleep. See you guys"لیزا کہ کر وہاں سے چلی گئی اور حدید اور عنایہ پھر سے مصروف ہو گئے۔
پانچ بجے کے قریب عنایہ کمرے میں واپس آئی تو چپ چاپ بغیر کسی آواز کے بستر پر چڑھی اور لیٹ گئی۔
"  i know u r not sleeping, Liza"عنایہ نے بند آنکھوں سے کہا
"N....no...i was"لیزا بولی پر پھر اپنی حماقت پر شرمندہ ہوئی
"It's okay.."عنایہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
"I know u have not slept last night" عنایہ پھر سے بولی
لیزا بہت حیران تھی کہ وہ بچی اتنی سی عمر میں ہی بہت ذہین تھی۔
"Are u worried about something?" عنایہ نے سوال کیا
"N....no"لیزا اس سات سال کی بچی کے سامنے بول نہیں پا رہی تھی
"It's okay... if there is something you are worried about, you can share with me. I hope u will feel better" عنایہ نے کہا اور پھر کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔
"Thankyou"لیزا بس اتنا ہی کہ پائی اور پھر وہ بھی سو گئی۔
_____ 
عنایہ اور حدید اپنے گھر شفٹ ہو چکے تھے۔ لیزا Redbridge School میں انٹرنشپ کر رہی تھی اس لیے حدید نے عنایہ کو اسی سکول میں داخل کروا دیا۔ ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ لیزا اور عنایہ کی روز ملاقات ہوتی۔ لیزا کم گو تھی لیکن عنایہ اور وہ ہمیشہ کوئی نئی بات ہی کرتے۔ سکول میں سپورٹس ڈے (sports day) تھا۔ مختلف کھیلوں کے لیے بچوں کی ٹیمیں بنائی گئی۔ مسلسل پریکٹس سے عنایہ کا سانس پھول رہا تھا اور وہ تھک بھی چکی تھی۔ وہ اب آرام کرنے کے لیے ایک جگہ بیٹھی۔ بھورے بال پونی میں بندھے تھے اور گال سرخ ہو چکے تھے۔ کسی نے اس کے آگے پانی کی بوتل کی۔
"حدید۔۔۔" عنایہ چہک کر بولی
"تھک گئی ہو۔۔؟" حدید نے اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتے پوچھا۔عنایہ نے سر ہلایا۔
"مجھے بہت خوشی ہے کہ تم نے پارٹسیپیٹ کیا اور اب دل و جان سے محنت بھی کر رپی ہو۔ "  حدید نے مسکرا کر کہا
"لیکن اگر میں ہار گئی تو۔۔؟باقی سب بچے بھی تو محنت کر رہے ہیں" عنایہ نے دوسری طرف اشارہ کرتے کہا جہاں پر بہت سے بچے پریکٹس کر رہے تھے۔
"مجھے تب بھی تم پر فخر ہو گا۔ کیونکہ تم ان سے بہتر ہو جنہوں نے حصہ ہی نہیں لیا۔ ہار جیت زندگی کا حصہ ہیں۔ ضرورت بس سپورٹس مین سپیریٹ کی ہے۔ تم جیتنا چاہتی ہو تو بس جان لگا دو۔" حدید اس کے سامنے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ عنایہ کا نام پکارا گیا تھا۔ اب اس کی ریس تھی۔ وہ اس کے سامنے سے اٹھی اور مسکرا کر جانے لگی جب حدید نے اسے روکا
"عنایہ۔۔۔" حدید کی آواز پر عنایہ مڑی
"تمہیں سورج کی طرح چمکنا ہے تو سورج کی طرح جلنا بھی پڑے گا۔ Best of Luck" حدید نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ عنایہ کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ آگئی۔ اس کی بھوری آنکھیں چمکیں۔
"I can and I will" کہ کر عنایہ نے ایک مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور ٹریک کی طرف بھاگ گئی
سیٹی کی آواز پر ریس شروع ہوئی۔ عنایہ پورے جوش سے بھاگی ۔ ٹریک دو میٹر لمبا تھا اور اس پر کچھ رکاوٹیں بھی تھیں۔ عنایہ نے پہلی دو چھوٹی چھوٹی آسانی سے پھلانگ کر پار کر لیں۔ تیسری تھوڑی اونچی تھی۔ عنایہ نے چھلانگ لگائی پر اس کا پاوں اس میں اٹک گیا اور وہ گر گئی۔ ابھی ایک میٹر کا فاصلہ رہتا تھا۔
"آہ۔۔۔۔" عنایہ کا گھٹنا چھل گیا تھا۔
"انسان کو کوئی طاقت نہیں ہرا سکتی جب تک وہ خود ہار نا مان لے" حدید کے الفاظ اس کے ذہن میں آئے۔
"I can and I will" اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ عنایہ پھر سےبھاگنے لگی۔ پہلے سے بھی زیادہ تیز۔
اس ایک سیٹی کی آواز آئی اور وہ جانتی تھی کہ یہ کون ہے۔ "حدید" ۔ اور پھر وہ اور تیزی سے بھاگی۔ اتنا کہ اس نے ایک بچے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پھر دوسرا اور تیسرا۔ کرتے کرتے اس نے ایک میٹر کا وہ فاصلہ بھی تے کر لیا۔ سرخ ریبن اس کے سینے سے ٹکرایا اور پھر ہوا میں لہرا گیا۔
"Yessssss......."حدید نے اپنی سیٹ سے چھلانگ لگائی اور بھاگ کر عنایہ کے پاس آ کر اسے گود میں اٹھا کر گول گول گھومنے لگا۔ عنایہ زور سے ہنسی۔
لیزا بھی بھاگتی ہوئی آئی۔ وہ بھی بہت خوش تھی۔ اس نے عنایہ کو گلے لگایا۔
"I'm so proud of you"
پھر عنایہ کو سرخ ربن والا میڈل پہنایا گیا۔ وہ جیت چکی تھی۔ اس محنت کی وجہ سے جو اس نے کی تھی۔ اس حوصلے سے جو اسے حدید نے دیا تھا ۔ اس یقین سے جو اسے اللہ تعالی' پر تھا۔ بے شک وہ محنت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
" انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے"
_القرآن
_________
حدید اس وقت کام سے فارغ ہو کر گھر جا رہا تھا جب راستے میں اسے پریشان سی کھڑی لیزا نظر آئی۔ اس نے گاڑی اس کی طرف موڑی اور اس کے سامنے جا کر رکا۔ لیزا بہت پریشان لگ رہی تھی۔
"Hi liza... "حدید نے اسے پکارا
"Oh.... hi"لیزا زبردستی مسکرائی۔

رب العالی'Where stories live. Discover now