"یہ آپ رکھ لیں۔ یہ میرا کارڈ ہے۔ اس پر میرا نمبر اور ایڈریس لکھا ہوا ہے۔ اگر کبھی آپ کو میری ضرورت پڑے تو بلا جھجک مجھے فون کر لیجیے گا۔ " عنایہ اس دن بی اماں اور حدید کے ساتھ پارک میں آئی تھی جب حدید بی جان کی طرف ایک کارڈ برھاتے بولا۔عنایہ ان سے کچھ دور کھیل رہی تھی
"اس کی کوئی ضرورت نہیں بیٹا۔ اللہ ہے نا ہمارا مددگار"بی اماں مسکرا کر بولیں
"میرے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے بی اماں۔ میرا بہت دل کرتا ہے میرے بھی گھر والے ہوں۔ میں ان کا خیال رکھوں، ان سے باتیں کرو، ہنسی مزاق لڑائی جھگڑا۔۔ مگر میرے پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ صرف آپ اور عنایہ ہی ہیں اور میں دل سے آپ لوگوں کو اپنی فیملی ہی مانتا ہوں۔ عنایہ بالکل میری چھوٹی بہنوں جیسی ہے" حدید بولا
"میں تمہاری بہن نہیں ہوں۔" عنایہ جو ان کے قریب آ رہی تھی بس آخری بات ہی سن پائی
"وہ کیوں۔۔؟" حدید نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"میرا بھائی صرف وہ ہے جو اللہ نے حقیقت میں بنایا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں"عنایہ نے دلیل پیش کی
"تو پھر دوست ہو؟ " حدید نے ایک اور سوال کیا۔ بلا شبہ یہ بچی اعلی' تربیت یافتہ تھی
"نہیں۔ ہر گز نہیں۔ اچھی لڑکیاں غیر مردوں سے دوستی نہیں کرتی۔"
"اچھا تو پھر کیا ہو؟"
"کوئی بھی نہیں ۔ اممممم" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی "ہاں ایک بات ہے"
"وہ کیا۔۔؟ حدید نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
"میں تمھاری ٹیچر بن جاتی ہوں اور تم میرے سٹوڈنٹ کیونکہ تم بہت بدھو ہو" کہ کر عنایہ کھلکھلا کر ہنس پڑی
"اففف لڑکی۔ تم کتنی چالاک ہو" حدید نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔ عنایہ نے اسے بدلے میں گھورا۔
"میں تو مزاق کر رہا تھا یار۔ تم تو بہت ہی اچھی ہو"حدید نے ایک دم ٹون بدلی تو سب ہنس پڑے۔
____
"آج میری برتھ ڈے ہے۔ " وہ دونوں آج پھر سے قبرستان میں تھے۔ ہر سو فجر کا ٹھنڈا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سورج آہستہ آہستہ نکل رہا تھا
"اوہ۔۔۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔؟"
"ماما بابا کے بعد یہ میرا پہلا برتھ ڈے ہے" حدید نظریں جھکائے بولا
"تم آج ان کو بہت مس کر رہے ہو نا۔۔؟" عنایہ اسے دیکھتے بولی
"ہممم۔۔۔۔۔" تبھی ایک آنسو حدید کے گال پر گرا
"تم رو مت حدید۔۔ مجھے بہت برا لگتا ہے جب تم روتے ہو"عنایہ بولی تو حدید نے اس کی طرف دیکھا
"چلو تم میرے ساتھ چلو۔ آج کا دن میں تم اور بی جان اکٹھے گزاریں گے"
"ٹھیک ہے" حدید اس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور وہ دونوں عنایہ کے گھر چلے گئے۔
"تم بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔ ایسا کرو تم سو جاو تھوڑی دیر پھر اٹھ کر ناشتہ کر لینا" عنایہ نے گھر پہنچ کر کہا۔ حدید نے اسے دیکھا تو وہ سمجھ گئی۔
"ارے ٹینشن کیوں ہے تمہارے سر پہ جب عنایہ ہے گھر پہ۔۔۔ ہمارے گھر میں گیسٹ روم ہے۔ تم وہاں سو سکتے ہو" عنایہ کی بات پر وہ ہنس پڑا تو عنایہ بھی ہنس پڑی۔ اس نے حدید کو کمرا دکھایا اور سونے چلی گئی۔
_____
حدید کی آنکھ زور دار آواز پر کھلی
"ہیپی برتھ ڈے حیدد" عنایہ جوش سے بولی۔ ہر طرف رنگ برنگے غبارے تھے اور سامنے بہت بڑے الفاظ میں "HAPPY BIRTHDAY" لکھا ہوا تھا۔ عنایہ کے بھورے بال کندھوں پر بکھرے تھے اور اس نے ایک خوبصورت پنک کلر کی فراک پہنی ہوئی تھی۔ بی جان نے ہمیشہ کی طرح چادر اوڑھی ہوئی تھی۔
"چلو نااا اب اٹھو بھی۔" عنایہ پھر سے پر جوش سی بولی۔
"یہ۔۔۔۔یہ سب آپ لوگوں نے کیا؟" حدید نے حیرانی سے پوچھا
"نہیں ساتھ والے فرحان انکل کی بلی نے" عنایہ منہ چڑھا کر بولی
"یاار یہ سب تو بہت بہت اچھا ہے۔۔ تھینک یو سو مچ ۔۔۔ تھینک یو ویری ویری مچ" حدید بہت خوش تھا
"ہمارا کہ ساتھ والے فرحان انکل کی بلی کا" عنایہ نے مسکرا کر پوچھا
"بلی کا" حدید نے مسکراہٹ دباتے کہا۔
عنایہ کو اس کی بات پر غصہ آ گیا۔ "جاو پھر اسی کے ساتھ مناو اپنی سالگرہ۔ ہنہ۔۔" کہ کر وہ وہاں سے جانے لگی تو حدید ایک دم بولا
"ارے ارے رکو تو سہی۔۔"
عنایہ نو اسے گھورا
"میں تو عنایہ بلی کی بات کر رہا تھا۔۔" عنایہ نے اسے گھورا
"اچھا اب پلیز سوری نا۔۔۔" حدید اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا تو عنایہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر ان تینوں نے حدید کی برتھ ڈے سیلیبریٹ کی۔
_____
وقت تیزی سے گزرتا گیا۔۔ حدید اکثر بی اماں کے پاس آ جاتا۔ عنایہ سے بھی اس کی دوستی بہت گہری ہو گئی۔ وہ اس سے اپنے دل کی ہر بات کہ دیتا۔ لیکن وقت کہاں ایک سا رہتا ہے۔ اونچ نیچ تو چلتی ہی رہتی ہے۔ اب بھے وقت ایک اونچ سے نیچ پر جانے کو تیار تھا۔
حدید اور عنایہ ، عنایہ کے گھر کے لان میں کھیل رہے تھی۔ ہلکی ہلکی سردی شروع ہو چکی تھی۔ بی اماں ان کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں پھر نماز پڑھنے کے لیے اندر آئیں۔ وضو کیا اور جائےنماز بچھایا۔ نماز پڑھ کر دعا کے لیے سر سجدے میں جھکا لیا۔
"میرے پیارے اللہ۔۔ میں بہت گناہگار ہوں، خطاکار ہوں۔۔جانے انجانے میں ناجانے کتنے گناہ ہو چکے ہیں۔ یاغفور رحیم آپ تو مہربان ہو نا۔۔ بہت بخشنے والے ہو، توبہ کو قبول کرنے والے ہو۔ یا اللہ مجھے معاف فرما دینا۔" بی اماں کو لگا کہ ان کے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھی ہے۔
(عنایہ اور حدید فٹ بال سے کھیل رہے تھے کہ زور سے بادل گرجے)
"اللہ تعالی' بشک توبہ کے دروازے تو موت کی آخری ہطکی تک کھلے ہیں نا۔۔ اللہ تعالی' میں آپ سے توبہ کرتی ہوں، اپنے ہر گناہ کی۔۔میرے گناہ بہت ہیں مگر آپ کی رحمت تو بے حد و حساب ہے نا۔۔مجھے معاف فرما دینا" درد کی ایک اور لہر بی اماں کے سینے میں اٹھی اور جیسے ان کے سینے میں گرہ لگتی گئی۔ آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔ آہستہ آہستہ جسم سے سکت ختم ہونے لگی
(عنایہ اور حدید موسم سے لطف اندوز ہوتے زور زور سے ہنسنے لگے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے لگے)
"یا اللہ اگر یہ میرے آخری لمحات ہیں تو میں آپ کا شکر ادا کرنا چاہتی ہوں جو آپ نے میری زندگی میں مجھے رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے۔" اب کی بار ان کا سانس تھمنے لگا۔۔ کھینچ کھینچ کر لینے پر بھی نا مل سکا۔ سر ابھی بھی سجدے میں تھا
(باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔ عنایہ اور حدید اندر بھاگ آئے اور اب اپنی پھولی سانسیں بحال کرنے لگے۔)
"اے میرے اللہ میری بچی آپ کے سپرد۔۔۔۔ می۔۔۔میری عنایہ کی حفا۔۔۔حفاظت فرمانا۔۔۔۔۔او۔۔۔۔اور اسس۔۔۔۔۔۔۔اسے ص۔۔۔۔صراط۔۔۔۔ممم۔۔مستقیم پر رکھ۔۔۔۔نا"
اب ان کا سانس بالکل بند ہو چکا تھا۔ اور پیروں میں اک سوئی سی چبھی
"اشھد اللہ الہ الا اللہ و اشھد انا محمد عبدہ ورسولہ" اور اب سب کچھ تھم گیا۔۔ سانس، دھڑکنیں، زندگی کی لکیر۔۔۔ اب سجدے میں اک بے جان وجود تھا۔
آدھا گھنٹا گزر گیا مگر بی اماں سجدے سے نا اٹھی۔ وہ لمبی دعا مانگتی تھی مگر آج کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی تھی۔ عنایہ اور حدید کو تشویش ہوئی وہ ان کی جانب بڑھے اور پنجوں کے بل بیٹھے۔
"بی جان۔۔۔" عنایہ نے آواز دی مگر بی جان ٹس سے مس نا ہوئی۔
"بب۔۔۔بی جان" عنایہ کی آواز کانپی مگر پھر سے کوئی جواب نہیں۔
"بی جان۔۔۔۔۔" اس بار حدید نے بھی آواز دی مگر کوئی فرق نا پڑا
"بہ جان۔۔۔۔" اس بار عنایہ نے ان کو ہلایا تو بی اماں ایک طرف کو گر گئیں۔
"بی جان" عنایہ ایک دم چیخی ۔ حدید کے پیروں تلی زمین کھسک گئی۔
"بی جان" اس بار حدید ناے بھے انھیں ہلایا اور ان کی نبض دیکھی مگر۔۔۔
"بی جان،،، بی جان" عنایہ بی اماں سے لپٹ کر رونے لگی
"بی جان اٹھیں نا۔۔۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو بی جان" عنایہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ کبھی بی جان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی، کبھی ان کے ہاتھ ملتی، کبھی ان کا منہ چومتی۔ آج بھی اس کے آنسو بی اماں کی چادر ہی جزب کر رہی تھی۔ وہ آج بھی اس کے ساتھ تھی۔
"حدید۔۔۔حدید بی جان کو اٹھاو نا۔۔" اب عنایہ حدید کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑنے لگی۔ حدید نے اسے سینے سے لگا لیا۔ آج پہلی بار اس نے عنایہ کو روتے دیکھا تھا۔ وہ بھی اب بی جان سے اپنی ماں کی طرح ہی پیار کرتا تھا۔وہ عنایہ کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ سب الفاظ دم توڑ گئے تھے۔
"بی جان آپ واپس آ جائیں نا۔۔میں آپ سے کوئی ضد نہیں کروں گی۔میں کبھی کوئی فرمائش نہیں کروں گی۔ کبھی باہر جانے کا نہیں کہوں گی۔" وہ اب جنازے کی چارپائی سے لگی سرگوشی میں رہ رہی تھی اور بی جان سے باتیں کر رہی تھی۔
"بی جان میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔ آپ تو میری جان ہیں نا۔۔پلیز آ جائیں واپس۔ میں خود آپ کا خیال رکھوں گی۔ آپ کو کوئی کام نہیں کرنے دوں، خود آپ کو دوائی دوں گی۔ آپ پلیز آ جاو واپس۔۔" عنایہ بول رہی تھی جب حدید نے آ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا۔ عنایہ اب بی جان کو جانا ہے۔ یہ الفاظ تھے یا تیر، عنایہ کا دل ناجانے کتنے حصوں میں ٹوٹ گیا
"نہیییییییں" وہ ایک دم چیخی۔ "کہیں نہیں جائیں گی بی جان۔۔۔ " عنایہ کی بات پر حدید کا دل چھلنی ہو گیا
YOU ARE READING
رب العالی'
Short Storyیہ کہانی ہے اللہ کے ان بندوں کی جن سے ان کے پیارے دور تو ہوئے مگر اللہ کی ذات اور قریب ہو گئی۔ حدید جو کہ ایک بہت سادہ اور کم گو لڑکا تھا اسے اکیس سال کی عمر میں ہی ایک ننھی جان کی ذمہداری سونپ دی گئی جس کے ماں باپ بھی اس سے جدا ہو گئے تھے۔ ان کا ر...