"ان کو جانا ہی ہو گا عانی۔۔" حدید نے اس کے ہاتھ جنازے کی چارپائی سے اٹھاتے کہا۔
"نہییییں۔ حدید پلیز نہیں۔۔میرے پاس ان کے علاوہ کوئی نہیں ہی حدید۔۔ کچھ بھی نہیں ہے۔۔ حدید مت لے کر جاو انہیں۔۔" حدید عنایہ کی باتوں پر بہت تکلیف میں تھا۔ اس ننھی پری کو اتنی سی عمر میں کتنا کچھ سہنا پڑ رہا تھا۔
"حدید تم یہ گھر لے لو۔ ہماری گاڑی بھی لے لو۔ ماما کا سب زیور لے لو پر پلیز بی جان کو مت لو" عنایہ حدید کے آگے ہاتھ جوڑتے بولی
"عنایہ۔۔۔۔پلیز" حدید آنکھیں میچتے بولا
"حیدد۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔" عنایہ چیخی ۔ اور پھر سب چلا گیا۔ بی جان بھی چلی گئیں اور عنایہ۔۔ وہ وہیں رہ گئی۔
______
اگلے کئی ماہ عنایہ کے لیے نہایت مشکل تھے۔ وہ دن رات روتی رہتی۔ حدید نے اس وقت میں اس کا وہ ساتھ دیا جو اس کے سگے بھی نا دے سکتے۔ آج آٹھ مہینے ہو چکے تھے۔ عنایہ اب تھوڑی سی سنبھل چکی تھی مگر آج بھی ویسی ہی خاموش رہتی۔ چپ چاپ اپنے کام ساے کام رکھتی۔ حدید نے اسے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتا۔ اس نے اسے باپ کا سایہ دیا، بھائی جیسا ساتھ دیا، اور محبت شاید ماں سے بھی بڑھ کر دی۔
وہ دونوں آج آخری بار قبرستان آئے تھے۔ حدید نے کورٹ سے عنایہ کی کسٹڈی لے لی تھی۔ آج وہ دونوں لندن جا رہے تھے ایک نئی زندگی کہ آغاز کے لیے۔
"ماما آج میں جا رہی ہوں۔ آپ یہاں ہو مگر ہمیشہ میرے دل میں رہو گی۔ I LOVE U MAMA۔۔پتا ہے حدید بہت اچھا ہے۔ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ آپ اس کے لیے بہت دعا کرنا ماما۔۔ I MISS U SO MUCH...اللہ حافظ۔۔" پھر وہ قبر سے لپٹ گئی اور بہت دیر تک روتی رہی۔۔۔
"ماما۔۔۔ میرے کندھوں پر اب ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ میں اتنا بڑا تو نہیں ہوں پر حالات نے کر دیا ہے۔ شاید اللہ نے مجھے اس لیے عنایہ سے ملوایا تاکہ وہ میری فیملی بن کر میرے ساتھ رہے۔ آپ کے بعد اب کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن عنایہ نے میری زندگی بدل دی تھی ۔ وہ بالکل میری بہنوں جیسی ہے۔ اب میں بھی اس کو ہر خوشی دینا چاہتا ہوں۔ ہر خوشی جس کی وہ حقدار ہے۔ آپ پلیز میرے لیے دعا کرنا" پھر اس نے قبر پر پھول پھیلائے اور عنایہ کے پاس آیا۔ اسے گود میں اٹھایا اور پھر وہ دونوں بی اماں کی قبر پر گئے۔ عنایہ وہاں جاتے ہی قبر سے لپٹ گئی اور روتی رہی۔ کچھ بھی نہیں کہا۔ کیونکہ بی جان تو اس کی خاموشی کو بھی جانتی تھی نا۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اور حدید وہاں سے نکل آئے۔ گاڑی میں خاموشی چھائی رہی۔
______
ایک خالی بوتل کو جب ہم بھرنے لگتے ہیں تو وہ زور زور سے ہلتی ہے مگر جب وہ کچھ حد تک بھر جائے تو سنبھل جاتی ہے۔ اور جب مکمل بھر جائے تو اپنا سہارا خود بنتی ہے۔ ایسا ہی کچھ انسان کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اندر ساے بالکل کھوکھلا ہو جاتا ہے تو اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ اس وقت ایک معمولی سا دھکا بھی اسے گرانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پھر جب وہ چیزوں کو سیکھنے لگتا ہے تو ابتدا اس کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی اور نا ہی اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
_______
فلائٹ لینڈ ہو چکی تھی۔ وہ دونوں اب امیگریشن کروا کر اپنا سامان لینے جا رہے تھے۔ سامان لے کر وہ ائیرپورٹ سے باہر نکلے جہاں پر حدید کا ایک دوست ان کا انتظار کر رہا تھا۔
"زکی۔۔۔۔" حدید نے دور سے اسے آواز دی۔ زکی نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا۔ زکی ایک برٹش مسلم تھا۔
"Hey bro..how u going?"زکی نے اسے گلے لگاتے پوچھا
"Good... Alhamdulillah"حدید نے مسکرا کر جواب دیا۔
عنایہ انجان نظروں سے کبھی حدید کو دیکھ رہی تھی اور کبھی زکی کو۔
"Who is this little princess? Is she anaya?" زکی نے حدید سے پوچھا
"Yup... I told u earlier about her"حدید نے عنایہ کی طرف دیکھا پھر زکی کی طرف
"Hey baby girl.. I am Zaki... My friends call me Zack.. U can also do so" زکی اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھا اور اپنا ہاتھ آگے کیا
"Hi zaki... I'm Anaya... and as u r not my friend so i will call u Zaki instead of Zack" عنایہ نے مسکرا کر ہاتھ ملائے بغییر جواب دیا
"Woah... This baby girl rocks" زکی کی بات پر حدید مسکرایا۔ انھوں نے اپنا ملک بدلہ تھا مگر تربیت تو وہی تھی نا۔
زکی اس کے سامنے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"I think we should go now. I'm really tired after an 8 hours flight" حدید نے کہا
"Yaa sure.. But lets get to dinner first. Liza has prepared dinner for all of us" زکی نے بتایا
"Liza....? Your cousin? But why had she prepared the dinner..?" حدید نے شکایت کی۔
لیزا ایک غیر مسلم تھی کیونکہ اس کے والدین نے محض امریکہ کی نیشنیلٹی لینے کے لیے اپنا مزہب بدلا تھا۔ وہ پہلے مسلمان تھے مگر پھر دنیا کی خاطر دین بدل ڈالا۔ لیزا پیدا ہوئی تو وہ پیدائشی طور پر ایک غیر مسلم ہی تھی۔ لیزا سے حدید صرف ایک دو بار ہی ملا تھا وہ بھی صرف رسمی سلام دعا۔
"Oh come on.. she is a good chef.. and also I'm just tired of eating the mac burgers" زکی نے منہ بناتے کہا
"حدید پلیز گھر چلو اب۔۔ میں بہت تھک گئی ہوں" عنایہ نے حدید سے کہا تو حدید نے اسے گود میں اٹھا لیا۔
"Let's go" حدید نے کہا تو زکی بھی چل پڑا۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ زکی کے گھر پہنچ گئے جہاں لیزا ان کا انتظار کر رہی تھی۔
"Hi Hadeed... how are you?" لیزا ایک خوش شکل لڑکی تھی ۔ نیلی آنکھیں اور کمر تک آتے بھورے بال۔ اس نے نیلی جینز پر سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی
"I'm good. What about you...?" حدید نے بھی مسکرا کر جواب دیا
"I'm good too...By the way who's this little doll?" لیزا عنایہ کے سامنے بیٹھی۔
"She is Anaya.." حدید نے جواب دیا
"Oooh hi Anaya... Nice to meet you" لیزا نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو عنایہ نے بھی مسکرا کر ہاتھ ملایا
پھر وہ لوگ کچن میں گئے جہاں ایک ڈائننگ ٹیبل پر سب برتن لگا کر لیزا کھانا سیٹ کر چکی تھی۔
"U cook really well.." حدید نے مسکرا کر تبصرہ کیا۔ اب اسے ہر باتے پر مسکرانے کی عادت ہو چکی تھی اور یہ عادت اس نے عنایہ سے لی تھی جب بی اماں کی وفات کے چار ماہ بعد ایک رات عنایہ حدید کے پاس آئی اور اس کی گود میں سر رکھ کر بہت روئی۔ حدید نے اسے چپ نہیں کروایا ۔ وہ چاہتا تھا کہ عنایہ کے دل پر کسی بھی بات کا بوجھ نا ہو۔ ساری رات وہ یوں ہی بغیر کچھ بولے حدید کے سینے سے لگی روتی رہی اور حدید بھی اس کے سر پر بار بار پیار کرتا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا یہاں تک کہ وہ یوں ہی سو گئی۔صبح کو جب عنایہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ وہ ابھی بھی حدید سے لپٹی پوئی تھی۔ حدید نے اپنے ایک ہاتھ سے اسے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا اور دوسرے سے اس کے سر کو سہارا دے رکھا تھا۔ اس نے حدید کے چہرے پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ حدید جاگ رہا تھا۔
"تم سوئے نہیں۔۔؟" عنایہ نے اس کی سوجی ہوئی سرخ آنکھوں کو اپنی انگلی کے پوروں سے چھوتے ہوئے کہا۔
"تم سکون سے سوئی۔۔؟" حدید نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے اس کے چہرے سے ننھی بھوری لٹیں ہٹاتے کہا
"ہمم۔۔۔" اور عنایہ پھر سے اس سے لپٹ گئی۔
"حدید ۔۔۔۔" عنایہ نے اسے پکارا
"جی حدید کی جان" حدید نے پھر سے پیار سے جواب دیا
"اب ہم ان کے لیے کبھی بھی نہیں روئیں گے جو ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں" عنایہ نے اس کے گال پر اپنے ننھے ہاتھ پھیرتے کہا۔ حدید اس کی بات سن کر کچھ حیران ہوا۔
"میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں حدید۔ اللہ تعالی' نے مجھ سے میرے ماما بابا لے لیے۔ میری جان سے پیاری بی جان بھی لے لیں۔ " ایک لمحے کے لیے وہ رکی اور پھر حدید کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی "لیکن سب کو لے کر تمہیں دے دیا۔ جو جا چکے ہیں وہ واپس نہیں آ سکتے لیکن جو ہے مجھے وہ بھی بہت عزیز ہے۔ میں تمہیں کبھی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔" پھر وہ اس کی گود میں سیدھی ہو کر بیٹھی
"اب ہم ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں۔ میں بھی اب سے تمہارا بہت خیال رکھوں گی اور اب ہم ہمیشہ خوش رہیں گے" عنایہ مسکرا کر بولی۔
"پرامس۔۔؟" عنایہ نے اپنا ننھا ہاتھ آگے بڑھایا تو حدید نے اسے تھام لیا۔
"تم میری جان ہو۔ میری چھوٹی سی بیسٹ فرینڈ اور اب میں تمہاری آنکھوں میں کوئی آنسو بھی نہیں انے دوں گا۔ اب ہم اپنی ایک نئی اور بہت ہی اچھی زنگی کا آغاز کریں گے" اور اس کی بات پر عنایہ اس سے لپٹ گئی۔
YOU ARE READING
رب العالی'
Short Storyیہ کہانی ہے اللہ کے ان بندوں کی جن سے ان کے پیارے دور تو ہوئے مگر اللہ کی ذات اور قریب ہو گئی۔ حدید جو کہ ایک بہت سادہ اور کم گو لڑکا تھا اسے اکیس سال کی عمر میں ہی ایک ننھی جان کی ذمہداری سونپ دی گئی جس کے ماں باپ بھی اس سے جدا ہو گئے تھے۔ ان کا ر...