قسط نمبر 7

14 3 0
                                    

وہ دونوں گھر آئے تو حدید لاونج میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا۔انہیں داخل ہوتا دیکھ کر وہ مسکرایا اور گود سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کر دیا۔
"ویلکم بیک" وہ مسکرا کر بولا لیکن ساتھ ہی اس کی نظر لیزا کے چہرے پر پڑی تو ایک دم پریشان ہوا۔ وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ عنایہ بولی
"حدید پتا ہے آج ہم واک پر گئے اور اب بہت تھک بھی گئے ہیں۔ اس لیے میں تو سوچ رہی ہوں سو جاوں۔۔" عنایہ اس کی گود میں چڑھتی بولی
"I also want to sleep. If you guys want something tell me.." لیزا نے نظریں جھکائے پوچھا
"No it's okay... you can go" حدید نے جواب دیا۔
لیزا اوپر کمرے میں آ گئی اور ناجانے کتنی دیر تکیے میں منہ چھپا کر روتی رہی
______
صبح عنایہ کی آنکھ کھلی تو دن کے بارہ بج رہے تھے۔ لیزا ابھی تک سو رہی تھی۔ وہ عموما" جلدی اٹھنے کی عادی تھی مگر آج بہت دیر ہو چکی تھی۔ عنایہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اس کے چہرے سے بال پیچھے کیے مگر اس کا چہرا لٹھے کی مانند سفید تھا اور ہونٹ نیلے ہو چکے تھے۔ وہ ایک دم گھبرا گئی۔
"لیزا۔۔۔ لیزا۔۔۔" عنایہ نے اسے زور زور سے ہلایا
"حدید۔۔۔ حدید۔۔۔۔۔" عنایہ چیختی ہوئی حدید کے کمرے کی طرف بھاگی۔ حدید اس کی آواز پر باہر کو لپکا۔
"عنایہ ۔۔۔کیا ہوا۔۔؟"
"حدید۔۔۔۔۔لیزا۔۔۔" حدید نے بس لیزا کا نام سنا اور کمرے کی طرف بھاگا
"لیزا۔۔۔لیزا۔۔۔۔۔" حدید نے اس کے چہرے کو تھپتھپایا۔۔
" ہمیں ہاسپٹل جانا ہے۔" حدید نے لیزا کو اٹھایا اور گاڑی کی طرف بھاگا۔ عنایہ نے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ حدید نے لیزا کو پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ عنایہ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔ حدید ریش ڈرائیونگ کرتا ہاسپٹل پہنچا۔
"Emergency.. Emergency.." کچھ لوگ بھاگتے پوئے آئے اور لیزا کو سٹریچر پر لٹایا اور ایمرجنسی میں لے  گئے۔
حدید عنایہ کو لے کر باہر ہی بیٹھ گیا۔
"وہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتی۔" عنایہ بولی۔ حدید نے اس کی طرف دیکھا۔
"تم اسے کیوں نہیں بتا دیتے کہ تم اسے پسند کرتے ہو۔۔؟" عنایہ نے حدید سے شکوہ کیا
"میں اسے کھونے سے ڈرتا ہوں" حدید نے آنکھیں بند کر کے سے پیچھے کو گرا لیا۔
"وہ بھی تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔۔۔۔" عنایہ نے حدید کی طرف دیکھتے کہا۔ حدید ایک دم سیدھا ہوا۔
"وہ بھی۔۔۔؟" حدید حیرانی سے بولا۔
"Are you with that girl...? ایک ڈاکٹر ایمرجنسی کے دروازے سے باہرنکلتے بولا
"Yes.... I am"  "حدید فورا اٹھ کھڑا ہوا
"She is fine now.. you can take her home once the drip is completed.." ڈاکٹر نے مسکرا کر جواب دیا
"But what happened to her...?"
"She is probably stressed.. you have to take care of her boy.. No medicines needed."
"Aah... Thankyou so much doctor.."
ڈاکٹر مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔ حدید بھی مسکرانے لگا۔ اب یقینا" کچھ اچھا ہونے والا تھا۔
"Ready.....?" اس نے عنایہ کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتے بولا
عنایہ کی حیرتے سے آنکھیں کھل گئیں
"Yeeeesssss.... yesss .. yessss" عنایہ اس کے گلے لگتے تقریبا" چیخی۔ پھر ایک دم اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ہنس پڑی۔
____
لیزا آنکھیں بند کیے لیٹی تھی جب عنایہ اس کے پاس آئی۔
"لیزا۔۔" عنایہ کی آواز پر لیزا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ کمزور لگ رہی تھی۔
"کیسی ہو؟"
"ٹھیک ۔۔۔۔۔۔ الحمداللہ" لیزا کی بات پر عنایہ مسکرا اٹھی۔
"عنایہ۔۔؟" کچھ  خاموشی کے وقفے کے بعد لیزا نے اسے پکارا
"ہمم۔۔؟"عنایہ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے بولی
"تھینک یو۔۔" لیزا کی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا
"کس لیے۔۔؟"
"تمہاری وجہ سے اب میں آزاد محسوس کر رہی ہوں۔ میں مسلمان ہوں۔ ایک اللہ کو مانتی ہوں۔ اب مجھے یہ اقرار کرتے ہوئے کوئی ڈر نہیں۔ اب مجھے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی مجھے ایکسیپٹ کرے گا یا نہیں۔ میرے لیے اللہ کافی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے کئی سال ضمیر کے بوجھ تلے گزارے ہیں۔ پر اب میں آزاد ہوں ۔ پر سکون ہوں اور اس کے لیے تمہارا شکریہ" لیزا نے اس کا ہاتھ دباتے کہا"میں خوش ہوں کہ اللہ تعالی' نے مجھے چن لیا"
"اور کسی اور نے بھی۔۔۔" عنایہ نے بہت ہلکی آواز میں کہا کہ لیزا کو ٹھیک سے سنائی بھی نہیں دیا۔
"کچھ کہا تم نے۔۔۔؟" لیزا نے اجنبیت سے پوچھا
"نہیں۔ میں بس کہ رہی تھی کہ اللہ کرے کہ تم جلدی سے ٹھیک ہو جاو"  عنایہ اپنی ہنسی کنٹرول کرتے بولی۔
"اب سے میرا نام ہانیہ ہے" لیزا بولی
"ہانیہ۔۔؟"
"مسلم نام"
"اووہ ۔۔۔ اوکے ہانیہ" عنایہ مسکرا کر بولی۔ ہانیہ نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر دروازے کے طرف ۔ پھر کچھ بولنے لگی مگر خاموش ہو گئ۔ عنایہ سمجھ گئی کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہی تھی۔
"وہ دراصل حدید کی ایک ارجنٹ کال آئی تھی تو اسے جانا پڑا۔۔" عنایہ نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا
"اوہ۔۔۔" گو کہ ہانیہ کو برا لگا تھا مگر وہ چپ ہو گئی۔
_______
عنایہ اور ہانیہ زکی کے ساتھ گھر آئے۔ زکی باہر سے ہہ واپس چلا گیا۔ رات ہو چکی تھی۔
"ہانیہ تم یہاں رکو۔۔ میں ایک منٹ میں آئی" عنایہ کہ کر وہاں سے بھاگ گئی۔ ایک دم سب لائٹس آف ہو گئیں۔ ہانیہ کو اندھیرے سے خوف آتا تھا۔ وہ ایک دم ڈر گئی۔
"ع۔۔عنایہ" بمشکل اس کے گلے سے آواز نکلی

رب العالی'Where stories live. Discover now