قسط نمبر 8 (آخری قسط)

30 4 0
                                    

عنایہ اور ہانیہ زکی کے ساتھ گھر آئے۔ زکی باہر سے ہہ واپس چلا گیا۔ رات ہو چکی تھی۔
"ہانیہ تم یہاں رکو۔۔ میں ایک منٹ میں آئی" عنایہ کہ کر وہاں سے بھاگ گئی۔ ایک دم سب لائٹس آف ہو گئیں۔ ہانیہ کو اندھیرے سے خوف آتا تھا۔ وہ ایک دم ڈر گئی۔
"ع۔۔عنایہ" بمشکل اس کے گلے سے آواز نکلی
ایک دم اس کے ساتھ پڑے ننھےسے پودھے پر لگے چھوٹے چھوٹے بلب جل اٹھے۔ وہاں ایک کاغز گرا ہوا تھا۔
"Take 6 steps back without turning around" ہانیہ نے جھک کر اسے اٹھایا۔ بھورے بال کندھوں سے پھسل کر آگے کی طرف آگے آئے
اس نے مرون کیپری کے ساتھ سمپل مرون شرٹ پہن رکھی تھی اور بال کھلے تھے۔ وہ بالکل سادہ تھی۔ الفاظ پڑھ کر وہ کچھ حیران ہوئی۔  پہلے کچھ دیر سوچتی رہی پھر الٹے قدم بڑھانے شروع کیے۔ جیسے جیسے وہ قدم بڑھاتی۔ ایک ایک کر کے جگنو جتنے بلب جلتے گئے۔ چھ قدم پورے کیے تو وہاں ایک اور کاغز تھا جس پر پھول رکھے تھے۔
"Turn around with closed eyes and count ten" وہ مزید حیران ہوئی ۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور پیچھے مڑی۔ پھر دس تک گنتی کی۔ جیسے ہی اس نے دس کہا آتشبازی کی زور دار آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں۔
"I LOVE YOU" آسمان پر لکھا تھا۔ عنایہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ کیا یہ سب اس کے لیے تھا؟ پر کون کر رہا تھا؟
"HADEED LOVES HANIA SO MUCH" ایک اور بارآسمان ان الفاظ سے چمک اٹھا۔ ہانیہ پر حیرتوں کے پہآڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔ "حدید۔۔؟" اس نے سوچا
"WILL YOU BE MINE FOREVER..?" اس بار آسمان پر ابھرنے والی تحریر نے ہانیہ کا دل قید کر لیا۔۔؟
"کیا یہ سب سچ ہے۔؟ یا پھر ایک خواب۔۔۔؟ اگر یہ ایک خواب ہے تو میں اس سے نہیں اٹھنا  چاہتی۔" ہانیہ اپنے خیالوں میں گم تھی
"TURN AROUND"  اس بار وہ اس آواز پر اپنے خیالوں سے باہر آئی جس کو سن کر اس کی دھڑکنیں ہمیشہ بےقابو ہو جاتی تھیں۔
وہ پیچھے مڑی تو دیکھا بلیک جینز پر بلیک ہوڈی پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا تھا۔
"حدید۔۔۔۔" ہانیہ کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا۔ حدید مسکرا اٹھا۔
"ہانیہ۔۔میں جانتا ہوں میں نے بہت دیر کر دی مگر میں پہلے اس لیے نہیں کہ پایا کہ تمہیں کھونے سے ڈرتا تھا۔ میں جب پہلی بار لندن آیا تھا تب سے جانتا ہوں کہ تم مسلمان ہو۔ میں نے تمہیں مسلم سنٹر سے اکثر نکلتے دیکھا تھا۔ اور پھر میرا شک یقین میں تب بدلا جب تم روز رات کو چپ چاپ میرے کمرے میں اتی تھی اور آیت الکرسی پڑھ کر مجھ پر پھونکتی تھی۔ میں نے زندگی میں اگر کسی لڑکی کے لیے کچھ سوچا تو وہ تم ہو۔ تم نے مجھے نہیں بدلا مگر میں تمہاری زندگی کو بدلنا چاہتا ہوں۔۔تمہاری زندگی کے ہر محبت کے خانے کو اپنی محبت سے بھرنا چاہتا پوں۔ اپنے نام پر تمہارے دل کی بڑھتی دھڑکنوں کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔" ایک لمبا سانس لے کر اس وہ گہرے لہجے میں بولا۔۔
"کیا تم ہانیہ سے ہانیہ حدید بننا پسند کرو گی۔۔؟" حدید نے ہاتھ میں موجود مخملی ڈبی کو کھولا جس میں ایک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی تھی۔
ہانیہ کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کیا بولے۔ اس نے روتے روتے اثبات میں سر ہلایا تو حدید پورے دل سے مسکرایا۔ پھر وہ اٹھا اور اس کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی پہنائی۔
"میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں حدید"۔۔ ہانیہ نے اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو چھوا اور حدید کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ حدید نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ ہانیہ نے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا تو اس بار آسمان روشنیوں سے نہا گیا۔ آتشبازی سے آسمان بھر گیا۔ وہ خوبصورت منظر ہانیہ کی آنکھوں میں قید ہو گیا۔
تبھی اسے ہوٹنگ کی آواز آئی۔ عنایہ اور زکی انھی کی طرف آ رہے تھے۔
" YIIIPPPPPIIIIIII"عنایہ نے حدید کی طرف چھلانگ لگائی تو حدید نے اسے گود میں اٹھا لیا۔
"AHHMMM ....  AHMMM۔۔۔۔looks like someone is blushing" زکی نے ہانیہ کو چھیڑا تو وہ سب قہقہ لگا کر ہنس پڑے جبکہ ہانیہ جھینپ گئی۔
______
ہانیہ کی ایک پرسکون زندگی کا آغاز ہو چکا تھا۔ وہ اسلام بہت پہلے قبول کر چکی تھی ،گر سوسائٹی کے ڈر سے صراط مستقیم جاننے کے باوجود اس پر چل نا سکی۔ لیکن وہ جو رب العالی' ہے وہ تو صراط مستقیم کا بھی مالک ہے اور اس پر چلنے والوں کا بھی ۔ وہ تو نیت جانتا ہے۔ اور پھر جب وہ کسی بندے کو "کندن" سے "سونا" بنانا چاہتا ہے تو "کن" سے "فیکن" ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر معاشرہ چاہے جو بھی ہو، حالات چاہے جو بھی ہوں۔ پھر بس اللہ ہوتا ہے اور اس کا بندہ۔
"اور تمہارا انجام تمہارے آغاز سے بہتر ہو گا"
_الضحی'

رب العالی'Onde histórias criam vida. Descubra agora