آج کا پورا دن زارا اور اسکی فیملی کے لیے بہت اچھا گزرا ۔۔۔بارات 12 بجے تک ہال پہنچ گئ تھی جو کے کافی خوبصورت اور وسیع تھا۔۔۔مردوں اور عورتوں کا انتظام الگ الگ تھا جس کی وجہ سے زارا ہارس کو تنگ کرنے میں ناکام رہی تھی۔۔ مگر اُس نے ہاشم کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جو بھی ہو جاۓ اِسے (ہارس) سکون سے نہیں بیٹھنے دینا۔اور ہاشم کی تو رگ رگ میں شیطانیاں بسی ہوئی تھیں۔۔۔کھانا کھلنے کے قریب وہ ایک چکر عورتوں والی سائڈ پر لگا آیا اور آکر ہارس کو کہتا
"یار دھوکا ہو گیا ہے۔۔۔بھابھی تو تیری امی کی عمر کی لگتی ہیں۔۔۔اور اتنی لمبی ہے کہ بس دعا کر تو اُسکے کندھوں تک آجاۓ۔۔۔کیمرے نے دھوکا دے دیا ہمیں۔۔۔جو تصویروں میں شہزادی لگتی تھی اصل میں شہزادیوں کی امی ہے"۔۔۔۔ہاشم کی بات پر ہارس پریشان سا ہوگیا۔۔مگر جب اُس نے "حور" نامی اپنی حور کو اصل میں دیکھا تو دل اور دھڑکن دونوں بہال ہوۓ (ہاشم کو تو میں بعد میں دیکھ لوں گا)خیر الله الله کر کے فنکشن اچھے سے گزر گیا۔۔۔۔۔اور وہ کسی کی خوبصورت سی پری کو چُرا کر ہمیشہ کے لیے اپنے گھر لے آئے۔۔۔۔
یہ تمام باتیں موجود وقت سے کچھ کھنٹے پہلے کی ہیں۔اس وقت صدیقی صاحب کی گھر میں کافی چہل پہل تھی۔۔۔شام کے 7 بج چکے تھے۔۔۔سب عورتیں ہارس کے کمرے میں جمع تھے جہاں دلہن اپنے لال لہنگے میں بیٹھی تھی اور تمام مرد لاؤنج میں بیٹھے ہارس کی ٹانگ کھنچ رہے تھے۔۔آہستہ آہستہ وقت نے رفتار پکری اور گہری رات کے سائے ہر طرف پھیل گۓ۔۔۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°
رات گہری ہونے کے ساتھ ساتھ کافی سرد بھی تھی۔۔۔جہاں ہارس اور حور اپنے کمرے میں بیٹھے ساتوں جنم ساتھ رہنے کے وعدے کر رہے تھے وہیں ٹیرس پر کھڑے ہاشم اور سمیر مرضِ عشق پر تبصرہ کرنے میں مصروف تھے۔۔۔
"یار کاش اس وقت تیرے بجائے رابی میرے ساتھ ہوتی یہاں۔۔۔" ہاشم نے بے دھیانی میں اپنا ہاتھ سمیر کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔جسے سمیر نے "اووےےے" کہتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹایا۔۔۔
"چوچے یار کوئی خدا کا خوف کر میں کسی اور کی امانت ہوں۔۔۔"
"الله۔۔۔۔میں ایسا نہیں ہوں سمیر کے بچے۔۔۔۔"ہاشم غصے سے بولا "وہ تو بس رابی" اور پھر نزاکت سے۔۔۔۔۔
"ہاۓ یہ محبت بھی نہ۔۔۔سالی انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔۔۔" سمیر نے ہاشم کو اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا۔۔۔۔
" ہاں یار۔۔۔کیا بتاؤں۔۔۔مجھے نہ تیری بھابھی سے سئ(سہی) والا I lub joo ہو گیا ہے۔۔۔۔"ہاشم دور اُفق میں کسی نادیدہ ستارے کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
"اچھا اور میں نے سنا ہے تو نے مولوی بن جانا ہے۔۔۔ویسے سہی ہے۔۔۔گھر میں مولوی ہو گا تو بچوں(سمیر اور ہاشم کے) کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر نہیں جانا پڑے گا۔۔۔۔"سمیر نے شرارتی آنکھوں سے ہاشم کو دیکھتے ہوۓ اُسکی ٹانگ کھنچی۔۔۔۔جس پر ہاشم منصوعی سنجیدگی دیکھتے ہوۓ بولا "تیرے بچوں کی میں فیس لوں گا۔۔۔"
YOU ARE READING
دیوانی
Romanceیہ کہانی میری پہلی کہانی "وہ پاگل سی " کا دوسرا پارٹ ہے۔۔۔۔مگر اِسکو سمجھنے کے لیے ضروری نہیں کہ پہلی کہانی بھی لازمی پڑھی جائے۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ آپکو confuse ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ پاگل سی " میں ذارا ایک معصوم...