part 20

44 7 12
                                    

ہاشم اور رابیہ چند لمحے مزید ٹیرس پر گزارنے کے بعد نیچے کمرے میں آگئے جہاں سمیر اور زارا بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔زارا نے سمیر کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔۔جسے اُس نے فوراً ہٹا دیا جب وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔ہاشم نے ایک بےبس نظر زارا پر ڈالی(کیا ظلم کیا اِس کے ماں باپ نے اس پر)۔۔۔۔

"ہو گئ تم دونوں کی اہم بات؟؟" زارا نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔

"ہاں مگر تم دونوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے کا موقع نہیں ملا!" ہاشم نے وہی جواب دیا جس کی زارا توقع کر سکتی تھی۔۔۔وہ کسی صورت بھی اپنی  پریشانی ظاہر نہیں کرسکتا تھا۔۔۔

"تمیز تو تمہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔۔۔چوچے!!" زارا بلکل نارمل تھی۔۔۔مگر سمیر نہی۔۔۔وہ غصے اور بےچینی کی مشترکہ حالت میں مبتلا بیٹھا تھا۔۔شاید اُس کے دل کا ایک حصہ اُسے اشاروں ہی اشاروں میں بتا رہا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔۔۔۔

ان کے کمرے سے باہر قدم رکھو تو لاؤنچ خالی نظر آئے گا کیونکہ تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گۓ تھے اور رابیہ کے ابو بھی اپنے گھر کو روانہ ہو چکے تھے۔۔رابیہ نے رات زارا کے پاس ہی رکنا تھا۔۔۔لاؤنچ کے قریب ایک وسیع کمرے میں سارہ بیگم اور صدیقی صاحب سونے کی تیاری میں تھے۔۔۔کمرے میں نیلی مدہم سی روشنی تھی۔۔۔۔

"سارہ!" صدیقی صاحب بستر کے دوسرے کونے پر لیٹی اپنی بیوی کی مخاطب کیا۔۔۔جنہوں نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا "جی؟؟"

"ہم زارا کے ساتھ کچھ غلط تو نہیں کر رہے؟؟" صدیقی صاحب کسی سوچ میں گم۔۔۔بولے۔۔۔۔

"بلکل نہیں۔۔۔۔ہم اُس کے ماں باپ ہیں ہم اُسکا بھلا ہی چاہتے ہیں۔۔۔۔اور آج بھائی جان کی وجہ سے ہی تو وہ زندہ ہے۔۔۔۔۔ہم اپنی زبان سے مُکر نہیں سکتے" سارہ بیگم نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔۔

"مگر وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔۔۔۔علی سے شادی کرنے کے بعد خوش نہ رہ پائی تو؟؟" صدیقی صاحب زارا کو لے کر کافی پریشان تھے۔۔۔۔

"کیا بات کرتے ہیں حاجی صاحب۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی تو کرتے تھے اپنی اُس ۔۔۔۔۔ کزن کو پسند۔۔۔شادی مجھ سے ہو گئ۔۔۔تو کیا اپکی زندگی رک گئ تھی؟؟؟ ۔۔۔یہ سب کہانیاں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔آپ فکر نہ کریں کل ساری بات انکے سامنے کر دیں گیں۔۔زارا بچی نہیں ہے وہ سمجھ جاۓ گی۔۔۔" سارہ بیگم اب کی بار تھوڑا اکتا کر بولیں۔۔۔۔جس پر صدیقی صاحب چپ رہے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔یعنی وہ اپنی بیوی کی بات سے راضی تھے۔۔۔۔

°°°°°°°°°°°°°°°°°°

سیاہ رات ڈھیروں راز اپنے اندر سمائے گہری ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔آہستہ آہستہ لمحے گزرتے گۓ اور پھر گھنٹے۔۔۔۔سرد رات کی تیز فضاؤں میں پانی کی برستی بوندوں کا اضافہ کب ہوا۔۔کسی کو علم نہیں تھا۔۔۔سمیر اور ہاشم کے مشرقہ کمرے کی کھڑکی پر تیز بارش برس رہی تھی اُسی وقت  سمیر کے کانوں میں مؤذن کی آواز گونجی "الله اکبر الله اکبر" گویا سکون کا دریا اُسکے اندر سے بہ گیا ہو۔۔۔۔اس نے فوراً آنکھیں کھولیں اور اپنی بائیں طرف دیکھا جہاں ہاشم اپنا ایک بازو سر پر رکھے گہری نید میں تھا۔۔۔سمیر نے دوبارہ آنکھیں بند کیں اور اذان سننے لگا۔۔۔۔۔

دیوانیOpowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz