Episode # 12

346 29 11
                                    

پچھلا ایک مہینہ ان سب کا امتحانوں میں گزر گیا اور آج بالآخر ان چاروں لڑکوں کی فئیرول تھی ان چاروں نے سفید شرٹ کے ساتھ بلیک کوٹ پینٹ پہنا ہوا تھا چونکہ فئیرول صرف فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کے لیے تھی تو ابھی لڑکیاں یہاں موجود نہیں تھیں۔۔۔۔ اور وہ چاروں اپنے ہاتھوں میں سرٹیفکیٹ تھامے تھوڑا غم، تھوڑی بشاشت چہروں پر سجائے اس وقت ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
"یار۔۔۔۔۔۔۔ چار سال گزر گئے لگتا ہے ابھی بھی ہم وہ ہی تقی اور معیز ہیں جو فارم جمع کروانے کے لیے لمبی لائن میں کھڑے تھے۔۔۔۔"
معیز نے کینٹین کی منڈیر (اپنے اڈّے) پر بیٹھتے ہوئے فضاء کا سکوت توڑا۔۔۔
"نہیں جو لائن میں زبردستی گھسنے والے اسٹوڈنٹس کی اسکول کے بچوں کی طرح ایڈمن سے شکایت لگا رہا تھا۔۔۔۔"
تقی نے معیز کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"بھائی تو بھی زبردستی بیچ میں گھسا تھا۔۔۔"
معیز نے تقی کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"اور۔۔۔ اور ایڈمن سے کیا بولا تھا اس نے۔۔۔۔؟"
احد اور ازلان نے انکے قدموں میں (کینٹین فلور) پر بیٹھتے ہوئے ٹکڑا دیا۔۔۔۔
"یہی کہ۔۔۔۔ سر یہاں غلط حرکتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔"
ان چاروں نے یک زبان معیز کا جملہ دہرایا اور دل کھول کر ہنس پڑے۔۔۔۔۔
"اور جب ہادی کے ابا کو منایا تھا ہم نے۔۔۔۔۔"
معیز کے کہنے پر وہ سارے ایک بار پھر یادوں میں کھو گئے۔۔۔۔
"جب اسکالرشپ کی آفر ملی تو صاحب بہادر کا سب سے پہلا جملہ کیا تھا۔۔۔۔؟"
تقی نے منڈیر سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"بھائی۔۔۔ ابّا نہیں مانیں گے۔۔۔۔"
ازلان کے کہنے پر پوری کینٹین ایک بار پھر قہقہوں میں ڈوب گئی۔۔۔۔۔
"ہائے۔۔۔۔۔ میری نیناں ، صائمہ، علینہ، فاریہ۔۔۔۔۔ کیسے رہیں گی میرے بغیر۔۔۔۔۔"
معیز نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔۔
"بھائی اب انہیں سبحان، ذیشان، ارسلان اور بس عدنان سے کام چلانا پڑے گا۔۔۔۔"
احد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی جس پر ان تینوں نے تاسف سے معیز کو دیکھا۔۔۔۔
"بس کر بھائی ایک برگر تو اپنے پیسوں سے انہیں کھلاتا تھا اور اگلے پورے ہفتے کے برگرز انکے پیسوں پر اڑائے ہیں تو نے۔۔۔۔"
تقی کو اس کے برگرز کی زیادہ فکر تھی۔۔۔
"اور اب کہاں روز روز دیدار یار ہوا کریگا۔۔۔۔۔؟"
ازلان نے اداسی سے کہا۔۔۔۔
"اوئے وہ یاد ہے سر ابرار کا 'گیٹ آؤٹ فرام مائی کلاس۔۔۔؟'"
احد نے ہنستے ہوئے پرانی یادیں تازہ کردیں تھیں۔۔۔۔
"ابے پتہ نہیں ہم سے ہی کیا دشمنی تھی انکی ہمیشہ ہم چاروں کو نکال دیتے تھے باہر۔۔۔۔"
معیز نے تاسف سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔
"لیکن ان کے ناک میں ہمیں' گیٹ آؤٹ' کہنے کا بھی الگ ہی مزہ تھا۔۔۔۔
تقی نے بھی یادوں کی کھڑکی پر دستک دیتے ہوئے کہا۔۔۔
"چلو بھائیوں اب میں نکلوں میرے میچ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔۔"
ازلان نے ایک لمبی سی انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"جا بھائی میں بھی چلا۔۔۔"
احد بھی کہتے ہوئے کھڑا ہوا۔۔۔۔
"اوہ ہیرو تیری سواری کہاں چلی۔۔۔۔؟"
تقی نے احد کو دیکھتے ہوئے کہا جو گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے ذرا ٹھہر کر اسکی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔
"بھائی بات یہ ہے والد جو ہیں ابا ہمارے انہوں نے کہہ دیا کہ بیٹا ادھر تیری یونی ختم ادھر مجھے آفس میں ملو تم اب میں غریب شخص نوکری کے لیے انٹرویو دینے جارہا ہوں۔۔۔"
احد نے شوخی سے کہا تو وہ تینوں اسے حیرانی سے منہ کھولے دیکھنے لگے۔۔۔
"ابے سالے کمینے!!!! میرے باپ کا بزنس کس لئے ہے جو تو کہیں اور جوب ڈھونڈے گا۔۔۔؟"
ازلان نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"نہ بھائی اب اپنی محنت سے کچھ کروں گا نا ورنہ لڑکی کی امّاں نے میرے ساتھ رخصت نہیں ہونے دینا ہے اسے۔۔۔۔"
احد کی خودداری اس وقت اپنے عروج پر تھی وہ کہہ کر وہاں رکا نہیں اور پیچھے ان سب کو حیرت میں ڈال گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ چاروں لڑکیاں اپنے پرانے اڈے پر بیٹھی اپنی باتیں کر رہی تھی کہ وفا کے پیچھے سے ایک انجانی آواز کے تحت وہ چاروں پیچھے مڑی۔۔۔
"Hey Sweetheart!!!"
پیچھے ایک مکار شکل کا لڑکا انہیں اپنی سرخ ڈوروں سے سجی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر انہیں ہی گھور رہا تھا وفا کے دیکھنے پر اس نے اپنی ایک آنکھ دبائی تو وفا کے تو سر پر لگی تلوؤں بجھی وہ تن فن کرتی اس کے پاس پہنچی اور نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے بیگ کی سائیڈ پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور مٹھی میں کچھ بھر کر اسکے منہ کے سامنے لے جا کر پھونک دیا۔۔۔
جہاں وہ لڑکا مرچوں کے مارے چلاتے ہوئے اپنی آنکھیں بار بار مسل رہا تھا وہیں پیچھے ان تینوں کا ہنس ہنس کے برا حال تھا۔۔۔۔
"سوئیٹ ہارٹ کسے بولا ہاں۔۔۔۔!!!"
وفا کے سر پر تو جیسے خون سوار تھا اس نے جابجا لڑکے کی کمر پر تھپڑ اور گھونسے برسانے شروع کر دئیے۔۔۔
"س۔۔۔سوری باجی سوری غلطی ہوگئی۔۔۔"
لڑکے نے لال پیلے ہوتے چہرے سے وفا کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔۔
"نہیں نہیں اب بولو ذرا سوئیٹ ہارٹ۔۔۔۔"
وفا نے اسکے گٹھنے پر اپنا پاؤں مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"ارے وفا یہ کیا کردیا تم نے۔۔۔۔"
تقی جو ازلان اور معیز کے ساتھ یونی وزٹ کرنے آیا تھا پہلے وفا پھر اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔۔۔
"سوئیٹ ہارٹ بولا ہے اس نے مجھے۔۔۔!!!"
وفا نے تیوری چڑھا کر کہا جس پر تقی کو بھی طیش آیا اور وہ غصے میں اس کی جانب بڑھا جو پہلے ہی زمین پر پڑے کراہ رہا تھا۔۔۔۔
"ابے سالے تیری ہمت کیسے ہوئی۔۔۔"
وہ اگے بڑھتا اس سے پہلے ہی وفا نے اسے روک دیا اور معیز اور ازلان نے اس لڑکے کو سہارا دیا اور وہ موقع پاتے ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔۔۔۔۔
"او گلوکوز کی بوتل تم تو رہنے ہی دو بھئی ورنہ تمہیں ہسپتال لے جانا پڑیگا۔۔۔۔"
"یار پٹاخہ یہ نہ بولا کرو مجھے۔۔۔"
تقی نے خجل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"نہیں تو کیا انسولین کی سرنج کہوں پھر۔۔۔۔؟"
وفا کے چمک کر پوچھنے پر وہ سارے ہنس پڑے تھے۔۔۔۔
"اوئے تم لوگ یہاں کیسے۔۔۔؟"
بنش نے ان تینوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
"یار۔۔۔۔!! دو مہینوں سے تم لوگوں کو نہیں دیکھا اب تو شکلیں بھولنے لگیں تھیں تو آگئے ہم۔۔۔۔"
معیز نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔۔
"اچھا اگر آ ہی رہے تھے تو احد کو بھی لے آتے۔۔۔۔"
مومل نے بے چینی سے کہا۔۔۔
"ارے باجی نام نہ لو اس کمینے کا۔۔۔!! قسمے یونی کا لاسٹ ڈے اور آج کا دن ہے بھائی جان سے کال اور میسج کے علاوہ ملاقات ہی نہیں ہوئی۔۔۔"
ازلان نے تپے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔
"بھائی میں تو اپنی علینہ سے ملنے آیا تھا۔۔۔"
معیز نے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔۔۔
"معیز بس کردو یہ تھڑک اب تو بزنس مین بن گئے ہو۔۔۔"
بنش نے جلے بھنے انداز میں کہا۔۔۔
"یار بگز بنی تمہیں نہیں پتہ لڑکیاں مرتی ہیں مجھے دیکھ کر۔۔۔"
معیز نے اسٹائل سے کہتے ہوئے اپنے ماتھے پر بکھرے بالوں کو اپنی انگلیوں سے پیچھے کیا۔۔
"ہاں تمہارے موزوں کی بدبو سے۔"
بنش نے ہنسی ہوئے کہا۔۔۔
"جی نہیں میری پرسنالٹی پر۔۔۔"
معیز نے اکڑ کر کہا۔۔۔
"ہو ہائے تم اتنے خوفناک ہو۔۔۔"
بنش نے بھی فل دادی اماں اسٹائل میں کہا۔۔۔
"اچھا بس کرو تم دونوں ہم آج لنچ باہر کریں گے سامان اٹھاؤ اپنا اور چلو۔۔۔۔"
ازلان آج کافی سنجیدہ موڈ میں تھا اور کہتے ہی لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی جانب چل پڑا تو ذن لوگوں کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا تیرا وعدہ۔۔۔۔۔
وہ آلو کا پراٹھا۔۔۔۔
بھوکا ہوں میں جلدی کرو۔۔۔۔
ورنہ بھوک سے میں آج ہی مر جاؤں گا۔۔۔۔"
تقی جو پچھلے پندرہ منٹ سے ہر ویٹر کو دیکھ کر ایک ہی گانا وہ بھی توڑ مڑوڑ کر اپنی بھونڈی آواز میں گائے جا رہا تھا وفا کے مارنے کے بعد چپ ہوا تھا۔۔۔۔
"یہ آج تمہارے اندر معیز کی روح کیسے گھس گئی؟"
وفا نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا جو کب سے گا گا کر ان سب کی عزت کا کچرا کر چکا تھا۔۔۔
"ہائے وفا جانی تم کیا جانو کہ یہ آلو کے پراٹھے کی خوشبو محسوس کرتے ہی انسان وادیِ ذائقہ میں اتر جاتا ہے۔۔۔۔"
اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا عجیب و غریب فلسفہ اس کے گوش گزارا۔۔۔۔
"انسان نہیں بس تیرے جیسے جن کے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے کیوں ازلان۔۔۔۔؟"
معیز نے کہتے ہوئے ازلان سے تائید چاہی لیکن وہ تو نجانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔۔
"ازلان!!!"
"ہاں کیا ہوا۔۔۔"
معیز کے دوبارہ پکارنے پر وہ اپنے خیالوں سے واپس آیا۔۔۔۔
"ابے تجھے کیا ہوا ہے ؟"
"کچھ نہیں بس سر میں درد ہے ذرا۔۔۔۔"
ازلان نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا لیکن زینہ کو وہ یونی میں بھی کچھ پریشان لگا تھا۔۔۔۔
واپسی پر ازلان زینہ کو گھر ڈراپ کرنے جارہا تھا جب زینہ نے ہی کب سے قائم خاموشی کی دیوار گرائی۔۔۔۔۔
"ازلان۔۔!!!"
اس نے ذرا ہچکچاتے ہوئے اسکا نام پکارا۔۔۔۔
"ہمم۔۔۔۔!!"
ازلان نے نظریں ونڈ سکرین پر جمائے کہا۔۔۔۔
"تمہیں کوئی پریشانی ہے ؟؟"
اس کا انداز ایسا تھا کہ ازلان سمجھ نہیں سکا کہ وہ سوال تھا یا اطلاع۔۔۔۔
"نہیں تو مجھے کیوں پریشان ہونا ہے۔۔۔"
اس نے بے نیازی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔۔
"تمہیں کوئی بات پریشان کر رہی ہیں تم بتانا نہیں چاہتے تو الگ بات ہے۔۔۔"
زینہ نے اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔۔۔۔۔
" زینی ایسی بات نہیں ہے یار۔۔۔۔۔! تمہیں نہیں بتاؤں گا تو کسے بتاؤں گا۔۔۔۔۔"
ازلان نے گاڑی اس کے گھر کے آگے روک کر اسکا رخ واپس اپنی طرف کیا۔۔۔۔۔
"تو بتاؤ نا پھر کیا پریشانی ہے۔۔۔۔"
زینہ فوراً سے سیدھی ہوکر بیٹھی۔۔۔۔۔
"یار میں ہادی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہوں میری تو اب کال ہی نہیں پک کرتا وہ منحوس۔۔۔۔"
ازلان نے اپنا سر سیٹ پر ٹکاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
"تو تم نے بنش سے بات کی اس بارے میں۔۔۔؟"
زینہ نے بھی تشویش سے کہا۔۔۔۔
"ہاں یار وہ کہتی ہے اسکی بھی تین تین دن تک ملاقات نہیں ہوتی۔ جب وہ گھر آتا تو یہ گھر نہیں ہوتی جب وہ ہوتی تو وہ نکل جاتا ہے۔۔۔۔"
ازلان نے مایوسی سے کہا۔۔۔
"اچھا کل چلتے ہیں اسکے گھر پتہ کرتے ہیں کیا مسئلہ ہے۔۔۔"
زینہ نے گاڑی سے اترے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
"ہاں اس کمینے کے دماغ کا بھوسا میں ہی نکالتا ہوں اب۔۔۔۔"
ازلان بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کو بھگاتا لے گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی کی سوئیاں اس وقت رات کے آٹھ بجا رہیں تھیں اور پورے کمرے میں اندھیرا گھپ ہو رہا تھا ایسے میں کمرے کے وسط میں بس ایک چنگاری نما روشنی جل رہی تھی جو یقیناً سگریٹ کی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا تو زمین پر بیٹھے شخص نے جھٹکے سے اپنا بیڈ کی پائنتی پر دھلا سر اٹھایا جبکہ سامنے کھڑا شخص بتی جلا کر کمرے میں پھیلے دھویں کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا پھر کچھ یاد آنے پر اس شخص کے قریب گیا جو اب کھڑا ہو چکا تھا اور بنا ایک لمحے رکے مقابل کے منہ پر زوردار گھونسا جڑ دیا۔۔۔۔۔۔
"سالے کمینے۔۔۔!!! سٹھیا گیا ہے کیا یا بھیجہ گرا آیا ہے کہیں۔۔۔ تجھے ذرا بھی ہوش ہے کہ تیری وجہ سے ہم سب کتنے ذلیل و خوار ہوئے ہیں ایک میسج کا جواب نہ دیا تو نے حتی کہ مومی کا بھی نہیں سوچا تو نے ۔۔۔۔۔"
ازلان بنا رکے بولتا چلا گیا اور وہ دم سادھے کھڑا رہا۔۔۔۔۔
"اب بھونکے گا یا دو اور لگاؤں۔۔۔"
ازلان نے ایک آئبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔"
احد کا لہجہ حد درجہ سرد تھا۔۔۔۔
"کمینے بچپن کا یار ہے تو میرا اب اتنا تو مجھے بھی پتہ ہے کہ تو نوکری کی وجہ سے دیوداس بنا گھوم رہا ہے۔۔۔۔"
ازلان نے استہزائیا انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"ہاں ہوں میں ناکارہ نہیں ملے گی مجھے کوئی بھی جاب اور نہ ہی کوئی بغیر رشوت کے مجھے نوکری دے گا۔۔۔۔"
احد سرخ آنکھوں سے جارحانہ انداز میں بولا۔۔۔۔
"دیکھ بھائی میں تجھے پہلے دن سے کہہ رہا ہوں ہماری کمپنی کے آدھے شئیرز میں تجھے دیدیتا ہوں ہم دونوں آرام سے ہینڈل کر سکتے ہیں۔۔۔۔"
ازلان نے مصالحت کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"مجھے اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا ہے میں اپنے باپ کی امید نہیں توڑ سکتا۔۔۔"
احد کے کہنے پر دروازے پر کھڑے وہ سارے بھی اندر آگئے اور تقی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
"بھائی تو میرے ساتھ پارٹنرشپ کرلے میری تو اتنی صحت ہی نہیں کہ اتنی بڑی کمپنی کا بوجھ اٹھا سکوں اور میں نے اپنے باپ کی آدھی جائیداد تو کھانے میں ہی اڑا دینی ہے ہم دونوں مل کر گاڑیوں کا کاروبار سنبھالے گے۔۔۔۔"
"اسے چھوڑ تو میری کمپنی میں آجا بھائی اگر کسی نے میٹنگ میں گاڑھی اردو بول دی تو میرا دم نکل جائے گا۔۔۔۔"
معیز بھی احد کو راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا جبکہ مومل تو احد کی جوگیوں والی حالت دیکھ کر بمشکل اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روکے ہوئی تھی۔جبکہ بنش کا بھی ایسا ہی کچھ حال تھا۔۔۔۔
"یار مان جا نا دیکھ تیرے لیے پی ایس ایل کا سیمی فائنل چھوڑ کر آیا ہوں پلیز راضی ہو جا۔۔۔۔"
وہ سارے ایک ساتھ بولنے لگے تھے اور احد کی شدتِ ضبط سے کنپٹیوں کی رگیں تن گئی تھیں۔۔۔۔۔
"شٹ اپ۔۔۔۔!!! جسٹ شٹ اپ!!! تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ میں کوئی بھکاری ہوں جو تم لوگوں کی دی ہوئی بھیگ قبول کروں ہاں۔۔۔!!!"
احد اپنی کنپٹیاں مسلتے ہوئے دھاڑا تھا جس پر مومل کا تو دل دہل گیا کیونکہ آج تک احد کا یہ روپ کسی نے نہیں دیکھا تھا اس وقت سب سکتے کی کیفیت میں تھے۔۔۔۔
"دیکھ تو غلط سمجھ رہا ہے ایسا نہیں ہے جیسا۔۔۔۔۔۔"
ازلان کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب وہ ایک بار پھر دھاڑا جس پر کب سے باہر کھڑے احد کے والدین بھی اندر داخل ہوئے۔۔۔۔
"ازلان تو ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل اس سے پہلے میں کچھ غلط کہہ دوں۔۔۔۔"
"یار میری بات۔۔۔"
ازلان نے ایک بار پھر بولنے کی کوشش کی لیکن بے سدھ۔۔۔
"ازلان۔۔۔۔۔۔ نکل جا۔۔۔۔۔"
احد نے دانت پیستے ہوئے کہا تو ازلان کو بھی طیش آگیا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے جارہا ہوں آئندہ میں مر جاؤں گا لیکن تیری شکل کبھی نہیں دیکھوں گا۔۔۔۔"
ازلان کے کہنے پر ایک لمحے کو ان دونوں کی نگاہیں ملیں۔۔۔دونوں میں ڈھیر سارے آنسوں۔۔۔ ڈھیر ساری یادیں۔۔۔ تھوڑا سا ملال۔۔۔ بہت گہرا دکھ۔۔۔اور ایک عجیب سا ڈر۔۔۔ ہاں کچھ چھوٹ جانے کا ڈر۔۔۔ کچھ گھم جانے کا ڈر۔۔۔۔ کچھ ٹوٹ جانے کا ڈر تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یاراں نال بہاراں( مکمل)✅ ⁦❤️⁩Where stories live. Discover now