یہ منظر ناروے کے شہر اوسلو کی ایک عالیشان یونیورسٹی کا ہے جہاں ہر شخص اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہے وہیں کالی ہڈی پہنے ایک نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے کوئی گانا گنگنا رہا تھا۔ اور اسٹوڈنٹس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ویسے تو وہ ہمیشہ سے ہی کسی کونے میں بیٹھا کرتا تھا لیکن اس کی آواز میں ایسا سحر تھا کہ اس کونے میں بھی رونق لگی ہوتی تھی۔ جب وہ گاچکا تو پوری کینٹین تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھی۔ اس نے سر کو ہلکا سا خم دے کر داد وصول کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اففففف یار اب یہ کسکا ایڈمٹ کارڈ ہے؟"
مومل سوچ ہی رہی تھی کہ جھماکے سے صبح والی لڑکی اسے یاد آگئی۔وہ جلدی سے بنش کو فون گھماتی ہے۔
"یار مومی تمہارا کارڈ میرے پاس آگیا اور میرا تمہارے پاس تو کل گھر آکر دے دینا اوکے؟؟"
اگلی طرف سے بنش بغیر کسی کی سنے اپنا ریڈیو پاکستان شروع کر چکی تھی۔
"اوو بہن زرا حوصلہ رکھو اور اپنی تیزگام کو بریک لگا کر میری بات سنو۔۔"
مومل نے اسے پھر شروع ہونے سے باز رکھا۔۔۔
"اچھا سنادو دن کے چھبیس گھنٹے تو سناتی رہتی ہو۔۔"
بنش نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ تمہارا کارڈ میرے پاس نہیں ہے اس مس ٹکّر کے پاس رہ گیا ہے اور مس ٹکّر کا میرے پاس ہے۔" مومل نے تفصیل سے بتایا۔
"اوہ اچھا یار ہم اب مس ٹکّر کو ڈھونڈے گے کیسے؟" بنش نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میرے خیال میں ایڈمٹ کارڈ میں نام ، ڈیپارٹ اور ماشاءاللہ سے فون نمبر بھی لکھا جاتا ہے ہے نا؟"
مومل نے ایک دفعہ پھر اسکی عزت افزائی کی تھی۔ "تو؟؟"
بنش کو ابھی بھی سمجھ نہیں آیا تھا، جبکہ مومل نے اس کےکڑھ مغز پر اپنا سر پیٹ لیا۔
"تو یہ کہ لڑکی کا نام زینہ احمد صدیقی ہے اور ہمارے ہی ڈیپارٹ اور کلاس کی ہے اسکا مطلب ہمیں زیادہ نہیں ڈھونڈنا پڑے گا۔"
"ہمم یار ویسے یہ زینہ کیا نام ہوا بھلا؟"
مطلب کہ بنش صاحبہ نے نام کے علاوہ کچھ سنا ہی نہیں تھا۔۔
"ایک کام کرو اسکا نمبر ملاؤ بلکہ اس کے پیرنٹس کا نمبر ملاؤ اور پوچھو کہ یہ زینہ کیا نام ہوا بھلا۔ اور میری جان بخش دے اللّٰہ حافظ۔۔"
مومل اس کے بھونڈے انداز سے تپ ہی تو گئی ہی۔۔۔ "
ہیں اس کو کیا ہوا؟ اور پھر بنش کو کوئی راستہ نہیں ملا تو اس نے سوجانا ہی بہتر سمجھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی انکھ مسلسل بجتے فون کی آواز سے کھلی پہلے تو اس نے سوچا کہ کال پک نہ کی جائے لیکن کال کرنے والا مستقل مزاج لگتا تھا۔ اس نے جھنجھلا کر فون اٹھایا اور اپنی نیند میں خلل ڈالنے والے کا نام پڑھا اور نام دیکھتے ہی اسکا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس نے یس دبا کر کال ریسیو کی۔
"ہیلو!!"
احد نے کال اٹھانے کے بعد کہا۔
"اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!!"
سامنے سے شرم دلانے کی حقیر سی کوشش کی گئی تھی۔ "وعلیکم السلام! کیسا ہے برو؟"
احد نے بے فکرے لہجے میں کہا۔
"تو ایک سال باہر کیا رہ لیا اب مجھے برو بولے گا۔"
ازلان نے شکایتی انداز میں استفسار کیا۔
"اوہوو چل جانی اب بتا کیسا ہے؟"
احد نے اپنی غلطی کو صحیح کیا۔
"میں ایک دم بنداس، جھکاس، مالامال اور پہلے سے زیادہ ہینڈسم ہوگیا ہوں تو بتا کہیں کوئی گوری تو نہیں پھسا لی تو نے؟"
ازلان نے تفتیشی افسر کی طرح پوچھا۔
"ابے نہیں یار تیرے بھائی کی ایسی قسمت کہاں ایک سال کے لیے تو اوسلو آیا ہوں باقی سیٹنگز پاکستان میں آکر ہی کروں گا."
انداز کچھ شرارتی تھا۔
"اوو بھائی بھابھی کے سامنے ایسا بولا نا تو ساری سیٹنگز بگاڑ دینی ہیں آپ کی جلاد صفت منگیتر صاحبہ نے۔۔" ازلان نے جیسے اسکو وارننگ دی۔
"ہاہاہا!!! بھائی کیوں ڈرا رہا ہے اس چڑیل کی نانی سے" احد نے مصنوعی خوف سے پوچھا۔
"اچھا چھوڑ اسے یہ بتا واپسی کب کی ہے پتہ ہے نا ہم سینئرز کی پشتینی روایت کو نبھانا ہے۔ کوئی فریشر نہیں بچنا چاہیے ازلان اینڈ گینگ سے"
"بھائی تو فکر ہی نہ کر فریشرز سے پہلے تیرا بھائی یونی میں موجود ہوگا۔"
احد نے ازلان کو تسلی دی اور چند مزید باتیں کر کے فون بند کردیا گیا۔
چلیں اب آپ کو "ازلان اینڈ گینگ" کا چھوٹا سا تعارف کرواتے ہیں۔ سب سے پہلے ہیں اپنے ازلان حمدانی جو حمدانی گروپ آف کمپنیز کے اکلوتے چشم و چراغ ہیں۔ اکلوتے ہونے کی وجہ سے تھوڑا شریر ضرور ہے لیکن بدتمیز اور سرکش بالکل نہیں 5.8 جتنا قد سرخ و سفید رنگت چہرے پر ہلکی سی بئیرڈ اور آنکھیں کانچ کی مانند شفاف اور سیاہ بلا شبہ وہ ایک وجہہ پرسنالٹی کا مالک تھا۔
اب باری آتی ہے عبد الاحد منان کی جو اذلان کی طرح زیادہ شان و شوکت نہیں رکھتا تھا لیکن کسی سے کم بھی نہیں تھا۔ منان صاحب کی کل تین اولادیں تھیں سب سے بڑا احد اس سے دو سال چھوٹی بنش اور سب سے چھوٹا عالیان۔ منان قریشی ویسے تو کمال شخصیت کے مالک تھے لیکن چونکہ وہ ایک آرمی ریٹائرڈ تھے اس لیے ان سے زیادہ اصول پسند کوئی نہ تھا انہوں نے اپنے تینوں بچوں کی تربیت اس نظم وضبط سے کی تھی کہ لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ اور اگر انہیں کوئی ہرا سکتا ہے تو وہ صرف انکا بیٹا عبدالاحد منان ہی تھا۔ احد نے ازلان لوگوں کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا لیکن دوسرے ہی سال ایک اسکالرشپ کے ذریعے ایک سال کے لیے ناروے چلا گیا تھا اب چونکہ ایک سال مکمل ہونے کو تھا تو وہ اب واپسی کی تیاریاں کر رہا تھا۔ وہ اپنے تمام دوستوں میں سب سے پرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ گندمی رنگت چہرے کے کھڑے اور تیکھے نقوش ماتھے کو چھوتے گہرے براؤن بال چھ فٹ سے نکلتا قد اور کسرتی بدن اس کی وجاہت کو چار چاند لگا دیتے تھے۔ اس کے علاوہ احد کو گانے کا جنون تھا۔ ہر موقع کی مناسبت سے اس کے پاس ایک گانا موجود ہوتا تھا۔اور اس کی آواز میں ایک سحر تھا جو سننے والے کو مدہوش کردے۔
اب باری آتی ہے ہمارے معیز شیخ کی جنکی آدھی زندگی لڑکیاں پٹانے میں نکل گئی اور آدھی کو یہ اشعار اور گانوں کے مثرے الٹ پلٹ کرکے ذائع کردیں گے۔ یہ اپنی گینگ میں سب سے بڑے بھی ہیں (عمر میں) اور سب سے چھوٹے بھی ہیں (قد میں) حالانکہ اس کا قد ازلان سے صرف ایک انچ ہی چھوٹا ہے لیکن چھوٹا تو پھر چھوٹا ہی ہوتا ہے نا؟ اور اس لیے اس کی گینگ والے اسکو چھٹکو کہہ کر پکارتے ہیں لیکن اگر کسی باہر کے بندے نے اسے چھٹکو کہنے کی غلطی کی تو وہ اوپر نہیں تو ہسپتال ضرور پہنچ جاتا تھا۔
تو اب آخر میں آتے ہیں تقی فرید خان ارے وہ ہی خان جو پٹھان بھی ہوتے ہیں اور جنہیں پشتو بھی نہیں آتی۔ فرید خان صاحب کی کراچی شہر میں اپنا گاڑیوں کا بزنس ہے اور ان کے بس دو ہی بیٹے تھے بڑا حسن جس کی شادی تین ماہ قبل ہی انجام پائی ہےاور چھوٹے اور لاڈلے تقی بھائی ویسے تو تقی ایک پرکشش شخص تھا لیکن ان بھائی صاحب کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس میں گلوکوز کی شدت سے کمی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ سب سے زیادہ دبلا پتلا سا تھا جبکہ چار آدمی کا کھانا اکیلا ہی ہذم کر جاتا تھا۔ بقول اس کی گینگ میمبرز کہ جب آندھی چلتی ہے تو ہم تقی کو کس کے پکڑ لیتے ہیں ارے بھئی کہیں اگلے پل ہوا کی سواری کرتا نہ پایا جائے نا۔۔۔۔
احد اور ازلان تو بچپن سے ہی دوست ہیں جبکہ معیز اور تقی سے انکی دوستی یونی کے پہلے سال میں ہوئی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
یاراں نال بہاراں( مکمل)✅ ❤️
Humorاز بشریٰ قریشی۔۔۔۔ اسلام وعلیکم!!!! امید ہے آپ سب بخیر و عافیت ہونگے۔۔۔ یاراں نال بہاراں میرا پہلا ناول ہے ۔ اس ناول میں آپ دوستوں کے الگ الگ پہلوؤں سے متعارف ہونگے۔۔۔ اور اس کو پڑھ کر آپ کی اداسی انشاء اللّٰہ دور ہوگی چہروں پر مسکراہٹ آجائے گی۔۔۔ ا...