انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں احد کھڑا تھا۔۔۔۔۔
ایک ضبط کا بندھن تھا جو ان دونوں نے کب سے باندھ رکھا تھا لیکن احد کو وہاں دیکھ کر وہ جانے کب ٹوٹا وہ خود بھی نہیں جان سکے۔۔۔۔۔
وہ دونوں بچوں کی طرح اس سے لپٹ کے بلک بلک کر رو پڑے۔۔۔۔
"ڈاکٹر کیا کہتے ہیں۔۔۔۔؟"
کمال ضبط تھا احد کا بھی جو وہ تھامے ہوئے تھا اور اس وقت وہ کمزور نہیں پڑ سکتا تھا۔۔۔۔
"و۔۔وہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر اسے خون نہیں ملا تو۔۔۔۔۔"
آگے کہنے کی اب ہمت نہ تقی میں تھی اور نہ ہی احد مزید سن سکتا تھا۔۔۔۔
"ٹھیک ہے میں جاتا ہوں۔۔۔۔"
احد نے ان دونوں سے نظریں چرا کر کہا اگر نظروں کا تبادلہ ہوتا تو شاید احد کی آنکھوں کی نمی وہ دیکھ لیتے۔۔۔
"تو دیگا خون۔۔۔!؟"
معیز نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔۔
"ہاں تو۔۔۔ جب جانیں ایک ہیں، روح ایک ہے، تو یہ بلڈ گروپس تو معمولی سی بات ہے۔۔۔۔"
احد کے ہونٹوں پر ذرا سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی اور وہ نرس کے ساتھ اندر کی جانب چل دیا۔۔۔۔۔
...........................................................
تقریباً آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر باہر آیا تو وہ لپکتے ہوئے ان تک پہنچے۔۔۔۔۔
"آپریشن کامیاب رہا لیکن اگر بارہ گھنٹوں تک پیشنٹ کو ہوش نہیں آیا تو آئی ایم سوری ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔"
ڈاکٹر جس طرح آیا تھا اسی طرح واپس بھی جاچکا تھا جبکہ پیچھے سے آتی زینہ اور ان تینوں کے چلتے قدم رکے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ میں سے چھ گھنٹے گزر چکے تھے لیکن ازلان ابھی تک ہوش و حواس سے بیگانہ ہسپتال کے بیڈ پر پڑا تھا مشینیں ابھی بھی اتنی تھی اور اسکی طبیعت میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
زینہ جب آنسوؤں کو بہاتے اور دعائیں مانگتے تھک گئی تو اس کے ذہن میں جھماکے سے ازلان کے کبھی کہے گئے الفاظ گونجے۔۔۔۔۔
" ارے یار کچھ نہیں ہوتا مجھے اگر میں موت کے منہ میں بھی چلا جاؤں تو احد جانی کی ایک آواز مجھے وہاں سے کھینچ لائے گی۔۔۔۔۔"
ازلان نے زینہ کو خود سے لگاتے ہوئے کسی بات پر دلاسہ دیا تھا۔۔۔۔۔
"ا۔۔۔احد دیکھو نا از۔۔۔ازلان کو کیا ہو گیا ہے تم۔۔۔ تم کہو نا اس سے کہ اسکی زینی اسکے بغیر مر جائے گی تمہاری تو ہر بات سنتا ہے نا وہ پلیز کہو اسے ایسے تو نہ تنگ کرے سب کو۔۔۔۔"
زینہ اس وقت احد کا بازو پکڑے اس سے اپنی محبت کی زندگی مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔
"زینی میں کیسے۔۔۔۔!؟"
وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ باقی سب کا حال بھی مختلف نہ تھا۔۔۔۔
"ہاں اس۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ تم اسے ایک بار آواز دو تو وہ موت کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔۔۔۔ "
زینہ نے اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
احد کو زینہ کی حالت پر افسوس بھی ہورہا تھا اور ازلان پر غصہ بھی شدید تھا کہ اسکی وجہ سے سب پریشان ہیں وہ بڑی مشکل سے ڈاکٹر سے اجازت لے کر تھوڑی دیر کے لیے اس کے پاس گیا تھا۔۔۔۔۔۔
اپنے بھائیوں جیسے دوست کو اس طرح ہوش کی دنیا سے غافل دیکھ کر ایک آنسوں اس کی آنکھ سے ٹوٹ کر شرٹ کے کالر میں جذب ہوا تھا اور پھر وہ طیش کے عالم میں اس تک پہنچا اور بغیر سوچے سمجھے اس کے بازو پر ایک زبردست گھونسہ جڑا۔۔۔۔
صدشکر کہ اس ہاتھ پر زیادہ چوٹیں نہیں آئیں تھیں۔۔۔۔
"کیا ہے بے۔۔۔۔ اور کتنی فوٹیج کھائے گا۔۔۔۔چین نہیں پڑ رہا تجھے ہاں اگر میں نے کہہ دیا کہ جا تو واقعی میں نکل پڑا سالے۔۔۔۔۔۔۔"
وہ جابجا اپنے آنسوں اور مکے اسکے بازو پر برسا رہا تھا۔۔۔۔
"یہ بھی نہ سوچا کہ تیرے بھائی کو تیری ضرورت تھی کمینے تو۔۔۔۔۔ تو نے یہ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔مجھے اپنی محبوبہ کہتا ہے اور یہ حال کر بیٹھا اپنا۔۔۔۔ دیکھ۔۔۔ دیکھ باہر میری سوتن کھڑی آنسوں بہا رہی ہے اسی کے لیے اٹھ جا بیغیرت۔۔۔۔۔۔"
"وہ۔۔۔ وہ کونسا گانا گاتا تھا تو اپنی بےسری آواز میں۔۔۔۔"
اب وہ گٹھنوں کے بل نیچھے بیٹھ چکا تھا اور ازلان کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
یاراں نال بہاراں( مکمل)✅ ❤️
Humorاز بشریٰ قریشی۔۔۔۔ اسلام وعلیکم!!!! امید ہے آپ سب بخیر و عافیت ہونگے۔۔۔ یاراں نال بہاراں میرا پہلا ناول ہے ۔ اس ناول میں آپ دوستوں کے الگ الگ پہلوؤں سے متعارف ہونگے۔۔۔ اور اس کو پڑھ کر آپ کی اداسی انشاء اللّٰہ دور ہوگی چہروں پر مسکراہٹ آجائے گی۔۔۔ ا...