قسط نمبر 14 (چارہ گر)

114 8 37
                                    

حصّہ دوم:

جبروت لب بھینچے اُسے دیکھتا رہا۔۔۔۔کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دُرّے کے اچانک اپنے سینے سے لگ جانے پر اسکا شور مچاتا دل پھر سے بے جان ہوا تھا۔۔۔۔

یک دم ساری نارساٸ،ہر غم و گلہ، رستے ہوۓ زخم اور وہ بلکتی ہوٸ خاموش سسکیاں۔۔۔۔کچھ بھی تو باقی نہیں بچا تھا۔۔۔۔
بس ایک خاموش سا سکوت ٹہر کر ان سے لپٹ گیا تھا۔۔۔۔
جبروت بس گنگ سا کھڑا تھا۔۔۔۔
اس سے الگ ہوکر کچھ دیر مُرجھاٸ نظروں سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد دُرّے نے ہاتھ بڑھا کر اسکی داڑھی سے سجے خوبصورت چہرے کو ہاتھ بڑھاکر ہتھیلی کے پیالے میں تھام کر پنجوں کے بل اونچا ہوتے ہوۓ اسکی پیشانی پر اپنے نرم لب رکھ دیے۔۔۔۔
"آپکی زندگی سے جڑا ہر راز ہمارے دل کا مکین بنایا گیا ہے شیر شاہ۔۔۔۔دادو کہا کرتی تھی کہ شفق! تم تو شیرشاہ کی پسلی سے ہو۔۔۔۔اسکے دل کے قریب۔۔۔کبھی اسکا دل تمہاری وجہ سے نا تڑپے۔۔۔ اسکے مضبوط بازو کے حصار میں محفوظ ہو اب تم۔۔۔کبھی تم اسکے زورِ بازو کی شکست خوردگی کا سبب مت بننا ۔۔۔۔اسکی روح کی ساتھی ہو تم۔۔۔کبھی تمہارے ہوتے ہوۓ وہ تنہا نا لگے۔۔۔۔ہمیں آج تک انکے الفاظ ازبر ہیں کیونکہ یہ الفاظ انکی زبانی ہمارے رب نے ہمارے شعور میں ڈال دیے ہیں۔۔۔۔ہمارے اللہ نے ہمیں آپ کو سونپا ہے نا تو یقیناً اسنے آپ کو ہی ہمارے لۓ چُنا ہے۔۔۔۔اور جو وہ ہمارے لۓ چنتے ہیں وہ کبھی عام ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔آپ کے انمول ہونے کا ہم اور کیا ثبوت دیں اس بات سے ہٹ کر کہ ہماری ہر سانس آپ پر قربان ہوکر بھی آپکا مول چکانے سے قاصر ہے۔۔۔۔ آپکا اس تاریک نگری کا باسی بن جانا کیونکر آپکا مقدر بنا۔۔۔اس حکمت کو جاننے سے قاصر ہیں مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس سیاہ آلاٸشوں سے بھری دنیا کی تاریکیاں آپکی شفاف ذات پر آج تک ایک غلیظ داغ بھی نا لگا پاٸ ہونگی۔۔۔۔ہمیں اپنے نصیب پر فخر ہے اور ہمیں اپنے رب کے انتخاب پر مان ہے شیر شاہ۔۔۔۔"
اسکا زخمی ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے وہ اسکے ہر زخم ہر درد کا مرہم اسکے جلے دل پر ٹھنڈا پھاہا رکھ چکی تھی۔۔۔۔
"اور ہاں آٸندہ آپ نے ہم سے اک لمحہ بھی دور جانے کا سوچا تو وہ حال کرینگے کہ زمانہ یاد رکھے گا ۔۔۔۔۔"
دُرّے نے اچانک اسکے قریب ہوکر ہلکے سا جبروت کا کالر مضبوطی سے اپنی مٹھی میں پکڑ کر دھمکی دیتے ہوۓ کہا تو وہ بے اختیار ہنس پڑا۔۔۔۔۔
دُرّے نے بڑے عرصے بعد اُسے یوں ہنستے دیکھا تو اسکی گرتی آبشار سی کھنکتکتی پیاری ہنسی سُن کر سرشار دل لیے بے خود سی اُسے تکنے لگی۔۔۔۔
"بے فکر رہو۔۔۔۔تم پر پیداٸش کے پہلے دن سے ہی ایک خون آشام کا سایہ ہے ۔۔۔۔کوٸ مولوی کوٸ سادھو تمہیں اس آسیب سے چھڑا نہیں پاۓ گا اب۔۔۔"
جبروت بڑے دل آویز انداز میں بولا تو دُرّے کے گالوں پر لالیاں بکھری تھیں۔۔۔۔
جبروت نے نرمی سے اسکا گہرے ڈمپل سے سجا گال ہولے سے کھینچ کر ساتھ میں اسکے گھنگریالی لٹوں کو اُنگلی سے ہٹاکر اسکے چہرے پر اودھم مچانے سے روکا تھا۔۔۔۔
"کہاں تھے ویسے اتنے دنوں سے اور اب کہاں سے وارد ہورہے ہیں؟کتنوں کو ٹھوک کر آۓ ہیں زمانہ گمشدگی کے دوران؟"
وہ آبرو اُٹھاۓ قدرے تنک کر بولی تو جبروت ہاتھ سینے پر باندھ کر بے نیازی سے پول میں تیرتے ٹیولپس کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
"درّہ آدم خیل سے پہنچا ہوں آج یہاں۔۔۔۔بندے مارنے کا فلحال کوٸ سین نہیں۔۔۔۔ہاتھ کا یہ زخم بھی پرانا ہے۔۔۔"
وہ رسان سے بولا۔۔۔۔
"بھلے مانس تو تو ایسے بن رہے ہیں جیسے حج کرکے سے آۓ ہوں۔۔۔۔جانتے ہیں ہم کہ درّہ آدم خیل کیسی جگہ ہے۔۔۔گنز مارکیٹ"
وہ منہ بناکر بولی تو جبروت مسکراہٹ دباگیا۔۔۔۔
"ویسے خیال برا نہیں ہے۔۔۔اگر اجازت ہو تو اگلے سال حج کر آٸیں؟"
جبروت نے دلچسپی سے اُسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔۔۔
"اَجی اگر آپ بھول گۓ ہوں تو یاد دلا دیں کہ آپکی آفیشل بیگم اس وقت اوپر آپکے بیڈروم میں محوِ خواب ہیں تو ہمارے راۓ میں آپکو اپنے یہ نیک خیال اُنہی کے گوش گزارنے چاہیے۔"
دُرّے نے کندھے اُچکاکر بے نیازی سے کہا۔۔۔
"ان کیساتھ بھی گفتگو فرمالیں گے پہلے ہماری پہلی بیگم صاحبہ کیساتھ مشاورت کرلیں۔۔۔آفٹر آل وہ اس عہدے پر پہلے فاٸز ہوٸیں ہیں تو حق بھی پہلے انکا بنتا ہے نا جی۔۔۔"
جبروت نے اپنی داڑھی پر داہنا ہاتھ پھیر کر شوخی سے کہا تو دُرّے نے لحظہ بھر کو اُسے دیکھا۔۔۔۔
"ہمارے اس رینک کا ادراک بس چند خاص انسانوں کے سوا کس کو ہے بھلا؟زمانہ کبھی آپکو ہمارے ساتھ حج کرنے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ اسکی نظر میں ہم آپکے لۓ نامحرم ہیں۔۔۔"
دُرّے سرجھکاۓ دھیرے سے بولی تو جبروت نے نرمی سے اسکے بازو تھام کر اسکے چہرے کو ٹھوڑی سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔۔
"زمانے کی پروا بھی ہے کسی کو بھلا؟اس زمانے میں اتنا دم نہیں کہ مجھے میری رابیل کیساتھ اُس امر کی سبگدوشی سے روکے جسکی اجازت زمانے کے خالق نے مجھے عطافرماٸ ہے۔۔۔۔رہی بات ہالہ کی تو مجھ سے زیادہ ان کو خوشی ہوگی کہ ہم اکٹھے اپنے رب کے معتبر گھر اور اپنے پیارے نبیﷺ کے روضے کی زیارت کیلۓ جاٸیں اور اپنے ایمان کے اس عظیم فریضے کو پورا کریں۔۔۔۔"
جبروت نے نرمی سے اسکی آنکھوں میں براہراست جھانکتے ہوۓ جہاں اُس کے لۓ اپنی لامتناہی جنون و دیوانگی کا اظہار کیا تھا وہیں پارسا سے بھی اسکا دلّی لگاٶ اور احترام اسکے لہجے سے عیاں تھا۔۔۔۔۔
کچھ پل خاموشی سے سِرک جانے کے بعد فضا میں فجر کی ابتداٸ آذان کی مسحور کُن آواز گونجنے لگی تو جبروت نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دُرّے کے گال ہلکے سے چھوۓ اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوۓ آذان کا جواب دینے لگے۔۔۔۔
آذان ختم ہوجانے کے بعد جبروت نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوۓ اسکے گرد اپنے بازو لپیٹ کر خود میں چھپایا اور دھیرے سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
"عید مبارک" دُرّے اسکے انداز پر مسکراۓ بغیر نہ رہ سکی۔۔۔۔
جبروت نے اس سے الگ ہوکر اپنی جیکٹ کے اندرونی جیب سے ایک ننھا سی سیپی نما باکس نکال کر دُرّے کی ہتھیلی پر رکھ کر اسکی ہتھیلی بند کی اور شرارت سے اسکے چہرے پر آٸ لٹ کھینچ کر اُلٹے قدموں وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
دُرّے نے زیر لب مسکرا کر وہ باکس کھولا تو اس میں ایک سفید بیش بہا پَرل والا پینڈینٹ جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔
پینڈینٹ کو اپنی مٹھی میں بند کرکے دل سے لگاۓ وہ واپس اپنے روم میں آٸ اور فجر کی نماز پڑھنے لگی۔۔۔۔
🌺🌺🌺🌺
کسی کے دل پر بہار کی نسیم تو کسی کی ذات پر خزاں بن کر وہ رات اپنے بھرپور جوبن میں زیارت کے آسمان کو سیاہی میں ڈھال کر اب اس اگلی مہکتی روشن صبح کی دودھیا روشنی میں مدغم ہوتی پھر سے دن ڈھلنے اور بعد از شام اپنی آمد کے انتظار میں دبے پاٶں گزر گٸ تھی۔۔۔۔
عیدالاضحٰی کے مبارک دن کا روشن سورج اپنے پورے جوبن کے ساتھ طلوع ہوکر بلوچستان کی سرزمین کو اپنی ابتداٸ دلنشین کرنوں میں نہلاچکا تھا۔۔۔۔سُنہری خود سر سی شعاعیں " میر رٸیسانی حویلی" کے سفید،سیاہ و سُرمٸ تراشیدہ پتھروں سے بنی بلند فصیل جیسی دیواروں اور انہیں سہارا دیے مضبوط کھردری سُرمٸ جلد کی حامل ستونوں کے اُبھری سطح سے ٹکرا کر جا بجا بے ترتیبی سے بکھر رہی تھیں۔۔۔۔۔
نرم تپش کی گرماٸش کیساتھ نسیمِ سحر کی ملاٸم خنکی دل کو فرحت بخش رہی تھی۔۔۔
حویلی میں ہلکی پھلکی چہل پہل شروع ہوچکی تھی۔۔۔
فجر کی نماز ادا کرکے مرد حضرات عید کی نماز ادا کرنے چلے گۓ جبکہ خواتین اپنی تیاریوں میں مگن ہوگٸیں۔۔۔۔
حویلی کے بیرونی احاطے کے اندر ہی سات تنومند بیل کھڑے تازہ چارے سے لطف اندوز ہورہے تھے جبکہ بچے اشتیاق سے ان کے گرد جمع تھے۔۔۔۔۔
ردا کی طبیعت اب کچھ بہتر تھی چنانچہ وہ خود تیار ہوکر اب کشمالہ اور نورین کے روم میں چلی گٸ جہاں دُرّے تیار ہوتی کشمالہ کے بالوں میں ہیر پِنز لگاتی اسکے بال بنارہی تھی جبکہ نورین روحی کی مصروفیت کے بنا پر ننھی سجّل کو تیار کررہی تھی مگر وہ تھی کہ اودھم مچاۓ ہوۓ نا خود آرام سے تیار ہورہی تھی اور نا ہی نورین کو چین سے بیٹھنے دے رہی تھی۔۔۔۔
اسی اثنا میں پارسا بھی انکے پاس آچکی تھی۔۔۔ نورین کو سجّل کے ہاتھوں ہلکان ہوتے دیکھ کر وہ اسکے پاس آٸ اور خود سجّل کو سنبھالنے کی پیشکش کردی کیونکہ نورین ابھی تک خود بھی ناٸٹ ڈریس میں ہی ملبوس خوابیدہ سی تھی۔۔۔۔
مزے کی بات یہ تھی کہ پارسا نے کچھ ایسے انوکھے انداز میں اُس معصوم بچی کو بہلایا کہ وہ بخوشی بغیر مستی کیے تیار ہونے پر رضامند ہوگٸ۔۔۔۔
دُرّے پارسا کا سجّل سے ممتا بھرا برتاٶ بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
سجّل بنفشی فراک میں بلکل کوٸ ننھی سی پری لگ رہی تھی۔۔۔۔
پارسا نے اسکے گال کھینچ کر ماتھے پر بوسہ دیا اور گود میں اُٹھاکر اسکے ساتھ کھیلنے لگی۔۔۔
"ہیر! تو پھر ہم کسی اچھی خبر کی اُمید رکھ سکتے ہیں نا؟"
کشمالہ کے لمبے بالوں کو برش کرتی دُرّے نے شرارت سے پاس کھڑی ردا کو ٹہوکا مار کر کہا تو ردا کا دل بے ترتیب ہوا تھا۔۔۔
"ہیں یار کل تو میں مذاق کررہی تھی تُو تو سچ میں ہی امّاں بننے چلی۔۔۔ہیر! سچّی ویسے تجھے ذرا ترس نہیں آتا ہماری حسرت بھری بانہوں پر جو اپنے باہی ادا جان کے شریر ننھے منھے شیروں کو خود میں بھینچنے کو ترس رہی ہیں۔۔۔ کہہ دے کہ میرا شک درست ہے۔"
نورین بھی اب اسکے سر ہوگٸ تھی۔۔۔۔
"اپّی اب اُسے خود تو معلوم ہونے سے رہا۔۔۔چیک اَپ کروانے پر ہی کنفرم ہوسکتا ہے نا۔۔۔"
کشمالہ نے کندھے اُچکا کر نورین سے کہا۔۔۔
ابھی وہ سب اپنی باتوں میں مشغول تھی جب أذور نے دبے پاٶں روم میں داخل ہوکر ردا کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تو وہ قدرے گڑبڑا گٸ۔۔۔۔
"ارے کون۔۔۔۔" وہ چہرے سے ہاتھ ہٹانے لگی۔۔۔۔
"عید مبارک چڑیل" أذور نے ہاتھ ہٹاکر اسکے سامنے آتے ہوۓ کہا تو اسنے ایک مکّا جڑواں بھاٸ کے بازو پر جُڑا۔۔۔۔
"ناخلف ایسی پھیکی عید مبارک؟کہاں ہے میری بلکہ ہماری عیدی؟"
ردا نے مصنوعی دھونس جماٸ۔۔۔۔
"میں کیوں دوں عیدی؟تم بڑی ہو مجھ سے تم دوگی عیدی ویسی بھی تمہاری پاکٹ منی کافی شاہ خرچوں والی ہے۔۔۔۔"
أذور صاف مُکر گیا۔۔۔۔
"ہاں اتنے تم ننھے ہو نا میاں؟بس اَدھ گھنٹہ ہی چھوٹے ہو مجھ سے اور حضرت کی آنا کانیاں دیکھو ذرا۔۔۔اور تم کیا میری ٹوہ میں لگے رہتے ہو جو میری پاکٹ منی پر بھی تمہاری بری نظر ہے۔۔۔۔"
ردا نے اسکے لتھے لیے۔۔۔۔
دُرّے انکی نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتی کشمالہ کے بال بنا ہی چکی تھی کہ اس سمے ونیزے قدرے عجلت میں کمرے کے دروازے سے برآمد ہوٸ۔۔۔۔
"کشمی! میرا دوپٹہ نہیں مل رہا تم نے دیکھا ہے کہیں؟آخری بار میں اپنے کپڑے اور جیولری اس روم کے وارڈروب میں رکھ گٸ تھی۔۔۔۔باقی سامان تو میں کل لے گٸ تھی ساتھ مگر دوپٹہ شاٸد یہی رہ گیا۔۔۔۔"
ونیزہ عجلت میں باقی نفوس کو فلحال نظر انداز کیے کشمالہ سے دریافت کررہی تھی جبکہ أذور جسکی فراٹے بھرتی زبان کو اچانک یوں ونیزے کے بغیر دوپٹے کے بے حجاب حُسن کو دیکھ کر زوردار بریک لگی تھی۔۔۔۔
اسنے فوراً اپنی نگاہیں نیچی کیں اور جھٹ پٹ ونیزہ کے برابر سے ہوتا ہوا روم سے نکلا۔۔۔۔
دُرّے أذور کی پل بھر کیلۓ ونیزہ پر جمی نظروں کی بے خودی اور پھر اسکا یہ انداز دیکھ کر مسکرادی ۔۔۔
"ہاں شاٸد وہ ادھر ہی رہ گیا ہوگا ٹہرو میں دیکھتی ہوں۔۔۔"
کشمالہ کہتے ہوۓ وارڈروب کی جانب بڑھی اور تھوڑی سے تلاش کے بعد ہی وہ منقش سا خوبصورت ریشمی دوپٹہ کپڑوں میں پھنسا ہوا اُسے نظر آگیا۔۔۔۔
دوپٹہ نکال کر اُسنے ونیزہ کے حوالے کیا تو وہ مسکرا کر شکریہ کہتی وہاں سے چلی گٸ۔۔۔۔۔
دُرّے نے ردا کو دیکھا تو جواباً اسنے آبرو اُٹھاکر مسکراتے ہوۓ اشارے سے دریافت کیا کہ تمہیں بھی پتہ چل گیا؟
دراصل أذور بچپن سے ہی ونیزہ سے بیحد محبت کرتا تھا مگر وہ ایسی تیکھی مِرچھی تھی کہ ہضم کرنا دوبھر تھا۔۔۔۔
أذور کی یہ بات ردا کو پتہ تھی جبکہ کشمالہ کو صرف ہلکا سا شبہہ تھا۔۔۔۔
دُرّے نے البتہ اپنے گہرے اور زیرک مشاہدے سے خود ہی سُراغ لگالیا تھا کہ اُسے بھاٸیوں سے بڑھ کر عزیز أذور رٸیسانی یک طرفہ محبت کی تپش میں جھلس رہا ہے۔۔۔۔
ردا ونیزہ کی جبروت کیلۓ محبت سے بھی واقف تھی مگر وہ دل سے اس بات کی خواہاں تھی کہ ونیزہ اپنی ضد چھوڑ کر حقیقت کو تسلیم کرلے۔۔۔
اپنے بھاٸ کیلۓ بھی وہ ہمیشہ دُعاگو رہتی کہ کبھی اُسے دل کا روگ نا سہنا پڑے۔۔۔۔
نورین تیار ہوٸ تو وہ سب اکٹھے روم سے نکل کر کاریڈور سے گزرتی نیچے صحن میں چلی آٸیں جہاں عید کی مبارکبادیں دینے کا دور چل رہا تھا۔۔۔۔
عیدیاں بٹورنے کی رسم بھی پوری ہوجانے کے بعد پُرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا گیا جس میں بچے بڑے سب اکٹھے شریک ہوۓ۔۔۔۔
ناشتہ کرچکنے کے بعد سُنّتِ ابراہیمی نبھانے کی باری آٸ تو کڑیل جوانوں نے خود یہ فریضہ احسن طریقے سے نبھایا۔۔۔۔
جبروت نے بھی تنہا تین تنومند بیلوں کو پچھاڑا جو بہت ہی ہٹ دھرم واقع ہوۓ تھے۔۔۔۔
قربانی سے فراغت کے بعد بارہ بجے کے قریب نا صرف حویلی کے مہمانوں کی شاندار ضیافت کی گٸ بلکہ گرد و نواح کے تمام علاقوں کے مستحق افراد کیلۓ بھی وافر مقدار میں گوشت اور دیگر گروسری کے سامانوں سمیت عید کے ڈھیر سارے تحاٸف ٹرکوں میں لاد کر بھجواۓ گۓ۔۔۔۔۔
ننھے آبدار رٸیسانی کا عقیقہ بڑی دھوم دھام سے منایا گیا اور لاتعداد مہمانوں نے اس میں شرکت کی۔۔۔۔
شام تک بہت سارے مہمان خوش و خرم واپس اپنے گھروں کو جاچکے تھے مگر حویلی میں خاندان کے اپنے افراد ہی اتنے تھے کہ خاصی گہماگہمی کا دور دورا تھا۔۔۔۔
ابیر کے والدین بھی ڈی آٸ خان سے اپنے فیملی کیساتھ آۓ ہوۓ تھے۔۔۔۔
سارا دن مصروفیت میں گزار کر عشا۶ کی نماز کے بعد اذرنگ نے لان میں باربی کیو کا اہتمام کیا تو سارے کزنز وغیرہ بھی اسکے ہمراہ لان میں جمع ہوکر شغل مستی کرنے لگے۔۔۔۔
ردا ،کشمالہ ،نورین اور ونیزہ بھی لان کے پاس رکھے لکڑی کے بڑے جھولوں پر براجمان گفتگو میں مشغول تھیں۔۔۔۔
"بڈی! نایاب کہاں ہے؟شام سے لاپتہ ہے" کشمالہ نے پاس بیٹھی ردا کے کان میں سرگوشی کرکے پوچھا۔۔۔۔
"حویلی میں کہیں روپوش ہوگٸ ہوگی میڈم۔۔۔اسے تو میں اسلام آباد واپس پہنچ کر پوچھتی ہوں۔نہیں مطلب اگر ونیزہ ساری عمر اُس سے یوں پرخاش رکھے گی تو کیا وہ بھی ہمیشہ اسکے لۓ پیچھے ہٹتی رہے گی؟حد ہوتی ہے اک۔۔۔۔"
ردا نے قدرے برہمی سے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔
پارسا جسکا دل اب ننھے آبدار کی معصوم سی دھیمی مسکراہٹ میں ہی اٹک گیا تھا۔۔۔وہ ابیر کے بیڈروم میں موجود کمبل میں لپٹے بچے کو بازوٶں میں اُٹھاۓ دھیمی سرگوشیوں میں اس سے جانے کیا باتیں لیکر بیٹھ گٸ تھی اور وہ بھی شاٸد اسکی مہربان ممتا سے لبریز بانہوں میں مزے سے اسکی باتیں سُن کر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
اپنی بہنوں،کزنز اور خاندان کی کچھ دیگر خواتین کیساتھ گفتگو میں مصروف ابیر گاہے بگاہے اک مسکراتی نظر پارسا پر بھی ڈال جاتی جو اس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر ہی معلوم ہورہی تھی۔۔۔۔
ہاں مگر ذہن میں کوٸ خیال کھلبلّی مچاۓ ہوۓ تھا اور وہ دُرّے سے اپنے دل کی بات کرنے کی ہمت نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔۔
سوچ کی رو میں بھٹکتے ہوۓ اسے اپنی گود میں موجود ننھا بچہ اونگھتا ہوا محسوس ہوا تو وہ اسے تھپکنے لگی۔۔۔۔۔
اسی اثنا میں ردا اور کشمالہ اُسے اپنے ساتھ لے جانے بیڈروم میں آٸیں تو پارسا نے بچے کو بھی ساتھ لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔۔۔
"پارو! چندا بے بی ابھی کافی نازک اور حسّاس ہے۔ابھی باہر کی تیز ہوا سے اسکی طبیعت بگھڑ سکتی ہے۔۔ایسا کرو ابھی تم جاٶ اور خوب انجواۓ کرو پھر کل آکر اسے لے جانا اور جتنا چاہے اپنے پاس رکھ لینا ٹھیک ہے۔۔۔۔"
ابیر نے اُسے نرمی سے سمجھایا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے ردا اور کشمالہ کیساتھ باہر چلی آٸ۔۔۔۔
"تمہیں یہ ننھا نوابزادہ کچھ زیادہ ہی نہیں بھاگیا پارو؟ کہو تو لالا سے کہلوا کر تمہیں اسکی نینی کے طور پر رکھ لینگے منظور ہے؟"
وہ تینوں چلتی ہوٸ عقبی جانب کے کورٹ یارڈ میں پہنچی تو کشمالہ نے مذاقاً پارسا سے کہا۔۔۔۔
"آہمم آبدار کی نینی بننا تو کچھ مشکل سا لگتا ہے۔ہاں جب ردا کا بے بی ہوگا تب اسکی بڑی امّی اسے کبھی خود سے دور نہیں ہونے دینگی۔"
پارسا نے سادگی سے کہا تو ردا نے اسکے گرد بازو لپیٹ کر خود سے قریب کیا۔۔۔۔
"جب اسکی بڑی امّی اتنی سویٹنِس اوور لوڈڈ ہیں تو پھر شاٸد ہی وہ اپنی مما کے پاس آنا گوارا کرے۔۔۔"
ردا نے اپناٸیت سے کہا۔۔۔۔
"چلو نایاب مابدولت صاحبہ کو بھی اُٹھوالیتے ہیں ساتھ میں اگر کہیں نظر آجاۓ سامنے تو۔۔۔۔"
کشمالہ کے کہنے کی دیر تھی کہ انہیں واقعی ہی دُرّے حویلی کے عقبی ساٸیڈ پر بنے کورٹ یارڈ کے پاس پاٸیں باغ سے منسلک وسیع لان کی نرم نم گھاس پر برہنہ پیر دس سالہ مروان اور اسکی ڈیڑھ سالہ بہن سجّل کیساتھ جبروت کے پالے گۓ جرمن شیفرڈ آرتھر اور ساٸیبیرین ہسکی ایڈورڈ کیساتھ فٹ بال کھیلتی نظر آٸ۔۔۔۔۔

 دُرِّ نایاب۔۔۔۔۔۔💎Where stories live. Discover now