یہ رات کا منظر تھا دو سائے گھر میں بنی گیلری میں کھڑےکوئی سرگوشی کر رہے تھے۔
"صوفیہ تم جانا نرمین کے بائیں سے میں دائیں سے تاکہ اسے بھاگنے کا موقع نا ملے۔" یہ آواز غازی کی تھی جو صوفیہ سے دو سال بڑا تھا لیکن دونوں میں حد درجہ کی دوستی تھی۔
"غازی سوچ لو دادا ابو دادی اماں آپی اور اماں ادھر ہی ہیں ڈانٹ تم ہی کھانا پھر" صوفیہ ابھی بھی ڈری ہوئی تھی۔
"پہلے کبھی تمہیں ڈانٹ نہیں پڑنے دی نا اب بھی نہیں پڑنے دوں گا don't you worry" غازی نے اسے نرم نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ دونوں کی دوستی بچپن سے ایسی ہی تھی ہر کسی کو تنگ کرنا ان دونوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ لیکن پکڑے جانے پر صوفیہ کے حصے کی ڈانٹ بھی غازی ہی کھاتا تھا۔
صوفیہ جا کر اسی جگہ لیٹ گئی جہاں روز سوتی تھی غازی نے بھی اپنی سیٹ سنبھالی۔
"نرمین،نرمین اٹھو دیکھو تمہارے ساتھ کچھ ہے" صوفیہ نے چہرے پر خوفزدہ تاثرات ڈال کر نرمین کو اٹھایا۔
"ہاں کیا ہوا" نرمین نے ہلکی سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ تو صوفیہ نے اس طرف اشارہ کیا جہاں غازی صوفیہ کے کمال سے کیے گئے میک اپ میں جن بنا بیٹھا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے سو جاؤ" نرمین یہ کہ کر پھر سو گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو منہ کھول کر دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے دادا ابو نے لائیٹ آن کر دی۔
کمرے میں تایا ابو اور تائی امی بھی تھی سب غازی کے منہ پر کیے میک اپ کو دیکھ کر ہنس رہے تھے جبکہ وہ دونوں تو اپنا پلین فیل ہونے پر منہ بنا کر بیٹھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی آج ہفتہ ہے نانی گھر نہیں جانا کیا؟ وردہ نے اپنی امی سے پوچھا۔
"نہیں میرا دل نہیں کر رہا۔" اس کی ماما نے جواب دیا
"ماما جانا ہے نا صوفیہ صبح سے آئی ہوئی ہے۔" وردہ نے گندی سی شکل بنائی۔
اچھا ٹھیک ہے تو چلی جا کمال کے ساتھ " اس کی امی نے اسے کہا اور لیٹ گئی اس کا مطلب تھا کہ اب انہیں تنگ نا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔