"زرخاب بھائی آپ تیار ہیں؟" صوفیہ کانوں میں پھولوں کے بنے بندے ڈالتی زرخاب کے کمرے کی طرف آئی۔ آج زرخاب کی مہندی تھی۔ اس لیے سارے چودھری ولا میں ھی جمع تھے۔
"ہاں ہو گیا ہوں" زرخاب نے ویسٹ کوٹ پہنتے ہوئے کہا۔
"اوئے ہوئے کیا بات ہے آج تو میرا بھائی بجلیاں گرا رہا ہے۔" صوفیہ نے زرخاب کو دیکھ کر کہا جس نے وائٹ شلوار قمیض پر بلیک ویسٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی اور بالوں کو جیل سے سیٹ کر رکھا تھا وہ واقع کافی ہینڈسم لگ رہے تھے۔
"اچھا پھر میں جاتی ہوں مہمانوں کو بھی دیکھنا ہے۔" یہ کہ کر وہ باہر نکل گئی۔
"بھا" غازی جو ااوپر زرخاب کو بلانے جا رہا تھا صوفیہ کو دیکھ کر اس کے الفاظ منہ میں ہی تہ گئے۔ اورنج کلر کی کرتی اور ساتھ گرین لہنگے میں پھولوں کی جیولری پہنی ہوئی تھی۔ بالوں کی درمیان والی مانگ میں بندیا سجائی ہوئی تھی۔ نفاست سے کیے ہوئے ہلکے میک اپ میں اس کا سانولہ رنگ جچ رہا تھا۔ غازی استمے دیکھ کر ایک لمحے کے لیے مبہوت ہو گیا لیکن فوراً ہی سنبھل کر زرخاب کے کمرے کی طرف چل دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے زاشا تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔" صوفیہ نے زاشا اور نرمین کے پاس آ کر کہا دونوں نے سیم ڈریس پہنا تھا لونگ فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ۔
"ارے سب یہ ہی کہ رہے ہیں لیکن تمہارا میک اپ اوور لگ رہا ہے۔" زاشا ایسی ہی تھی اس لیے صوفیہ اور غازی کی اس سے زیادہ نہیں بنتی تھی۔ اب بھی وہ یہ کہ کر وہاں سے چلی گئی تھی صوفیہ ابھی بھی اسے جاتا ہوا دیکھ رھی تھی جب وردہ اس کے پاس آئی اور اسے کھینچ کر ڈانس فلور کی طرف چل دی جہاں اس وقت تمام بچہ پارٹی موجود تھی۔ صوفیہ بھی سر جھٹک کر پھر سے مہندی انجوائے کرنے لگی تھی وہ ایسی ہی تھی کسی بھی چیز کو زیادہ خود پر حاوی نہیں ہونے دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"صوفیہ بچے میں نے پھول دیے تھے" نائلہ بیگمنے ڈانس کرتی صوفیہ کو پکڑ کر پوچھا۔
"تائی امی اوپر غازی کے کمرے میں ہیں۔" صوفیہ جلدی جلدی بتا کر دوبارہ جانے لگی جب انہوں نے دوبارہ روکا۔
"چل جا لیا کے دے مینوں" نائلہ بیگم نے اسے اوپر کی رف دھکیلتے ہوئے کہا۔وہ ابھی تھوڑا آگے گئی تھی جب اسے کمال ایک طرف کھڑا نظر آیا۔
"کمال بھائی اوپر غازی کے کمرے سے پھول لے آئیں پلیز۔" وہ کمال کو التجا والے انداز میں بولی۔کمال سر ہلا کر چکا گیا جب کے وہ سکھ کا سانس لیتی دوبارہ ڈانس فلور پر آگئی جہاں کپل ڈانس شروع ہو چکا تھا اور غازی اسی کے انتظار میں کھڑا تھا وہ دونوں بھی ایک دوسرے کا ہتھ تھامے کپل ڈانس کر رہے تھے بیک گراؤنڈ پر عاطف اسلم کی آواز گونج رہی تھی۔
تیرےمرے سنگ یارا۔
خوش رنگ بہارا۔۔۔۔
میں تیرا ہو جاؤں۔۔۔۔۔
جو تو کر دے اشارہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اف یار میں تو تھک گئی آج" صوفیہ اپنے بیڈ پر گرنے والے انداز میں بیٹھ کر بولی۔ یہ صوفیہ اور نرمین کا مشترکہ کمرہ تھا جہاں شادی تک کیلیے زاشا اور وردہ بھی رہنے والی تھیں۔
"ہاں یار تم نے تو آج سٹیج ہی توڑ دیا" وردہ نے ہنستے ہوئے اس کو کہا۔
"اتنا ڈانس بھی نہیں کیا کہ ڈرامے کیے جائیں" زاشا نخوت سے بولی۔
"جب کچھ اچھا نہیں بولنا ہوتا تو بات میں ٹانگ بھی نا اڑایا کرو زاشا۔" صوفیہ نے تھوڑا خفگی سے کہا اور دوبارہ وردہ سے باتوں میں مصروف ہو گئی باتیں کرتے کرتے اسے پتا ہی نا لگا کںمب نیند اس پر حاوی ہو گئی اور وہ مزے سے سو گئی یوں کے ایک مصروف دن کا اختتام ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔