Episode 4

62 10 9
                                    

"صوفیہ جب ایک بات ڈیسائیڈ ہوئی تھی اب اس سے کوئی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔" زرخاب کو ائیرپورٹ چھوڑنے جانا تھا فیصلہ ہوا تھا کے صوفیہ اور غازی جائیں گے لیکن اب صوفیہ کی نا جانے کی بے جا ضد نے غازی کو غصہ دلا دیا تھا۔
"ٹھیک ہے چلیں اب دیر ہو رہی ہے۔" صوفیہ نے چادر لپیٹتے ہامی بھری اور وہ چاروں کار کی طرف بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی میں آپ کو میں بتا رہی غازی کو پانے کے لیے میں کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں۔" زاشا خطرناک طیور لیے شانزے بیگم سے مخاطب تھی۔
"اور تمہیں کیا لگتا ہے میں تمہیں ایسا کرنے دوں گی؟" شانزے بیگم بھی اس کے سامنے بازو پشت پر لپیٹ کر کھڑی ہو گئیں۔
"آپ جو مرضی کہ لیں اسے تو میں حاصل کر کے ہی رہوں گی۔" انہیں چیلنجنگ انداز میں کہتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حیرت ہے غازی اور صوفیہ کے کار میں ہوتے ہوئے اتنی خاموشی۔" کار میں زرخاب،لیلی'،غازی اور صوفیہ تھے جو ائیرپورٹ کی طرف جا رہے تھے ۔
"ہاں بھئی میں نے تو سنا تھا جہاں یہ دونوں ہوں وہاں خاموشی ہو ہی نہیں سکتی۔" لیلی' بھابھی نے بھی بات میں حصہ ڈالا۔
"کبھی کبھی ھم خود سے خاموش نہ ہوں تو یہ ظالم دنیا خاموشی ہمیشہ کے لیے ہمارا مقدر بنا دیتی ہے۔" صوفیہ کی کھوئی کھوئی آواز آئی تھی۔جس نے غازی کو بھی بیک مرر دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔
"صوفی بچے آپ زاشا کی بات کو زیادہ دل پر نہ لو اس کا آپ کو پتا ہی ہے۔" زرخاب سیٹ پر ترچھا ہو کر صوفیہ کو مخاطب کر کے کہا۔
"آج اس نے کہا ہے کل کو کوئی اور کہے گا احتیاط تو آج سے ہی ضروری ہے نہ بھائی۔" اس نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ زرخاب کو دیکھ کر کہا۔
"احتیاط ضروری ہے لیکن یوں چپ نہ رہو تم بولتی ہوئی اچھی لگتی ہو۔" زرخاب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے بھائیوں والا مان دیا تھا۔
"میں کوشش کروں گی بھائی۔" اس نے آنسو پیچھے کو دھکیلتے ہوئے کہا لیکن اس نے سوچ لیا تھا کے اس کو کیا کرنا ہے۔ اور جو وہ سوچتی ہے کر کے ہی رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"امی آپ لوگوں نے واپس کب جانا ہے؟" پلوشے جو اپنی پیکنگ کر رہی تھی اس نے شگفتہ بیگم سے پوچھا۔
"رہنا تو یہاں کافی دن تھا لیکن جو کچھ صبح ہوا ہے اس کے بعد تمہارے بابا اور صوفی کا کل ہی جانے کا ارادہ ہے " شگفتہ بیگم نے رانیہ کو بہلاتے ہوئے کہا۔
"صحیح ہے میں بھی یہ ہی کہوں گی کہ آپ لوگوں کو چلے جانا چاہیے۔" پلوشے نے شگفتہ بیگم سے رانیہ کو لیتے ہوئے کہا۔ شگفتہ بیگم سر ہلاتی کمرے سے باہر چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"

غازی just do me a favour please."وہ دونوں ائیرپورٹ سے واپس آ رہے تھے جب صوفیہ نے اسے مخاطب کیا۔
"ہاں بولو۔" غازی نے بیک مرر سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"امم وہ مجھے۔۔۔۔ مجھے کہنا تھا کہ۔۔۔۔ غازی اب ہم پہلے کی طرح نہیں رہ سکتے۔" صوفی نے ڈرتے ڈرتے اپنی بات پوری کی تھی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟" غازی نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی صوفی کا سر سیٹ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔
"مطلب صاف ہے غازی آج زاشا اتنا کچھ بول گئی ہے کل کو کوئی اور کہے گا اور میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے میرے ماں،باپ،بہن بھائی پر کوئی انگلی اٹھائے۔" اس نے سر جھکائے اپنی بات کی غازی کو دیکھنے کی ہمت اس میں فیلحال نہیں تھی۔
"تم اس کی گھٹیا بکواس کی وجہ سے ہماری دوستی یوں ختم نہیں کر سکتی۔" غازی کی آنکھیں غصے کی شدت سے لال ہو گئی تھیں۔
"غازی میں ہماری دوستی ختم نہیں کر رہی ہم دوست تھے ہیں رہیں گے لیکن اکیلے گھومنا پھرنا ہم دونوں کی پلینگنز میں یہ سکپ کر رہی ہوں باقی کزنز کے ساتھ تو ہم گھومنے جائیں گے ہی۔" صوفی نے ہمت کر کے بیک مرر میں غازی کی آنکھیں دیکھی۔
"لیکن صوفی۔۔۔۔۔"
"پلیز غازی" غازی کے کچھ بولنے سے پہلے صوفی نے اس سے التجا کی۔
"ٹھیک ہے جیسا تم کہو گی ویسا ہو گا۔" غازی نے ہار مانتے ہوئے کہا اور کاد سٹارٹ کر کے ڈرائونگ پر فوکس کرنے لگا۔ باقی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاہاہاہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہاہاہاہا" زاشا پاگلوں کی طرح اونچا اونچا ہنستی چلی جا رہی تھی جب شانزے بیگم اس کے کمرے میں آئی۔
"کیا ہو گیا ہے زاشا کیوں پاگلوں کی طرح ہنس رہی ہو۔" اس کے سر پر ایک تھپڑ لگاتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
"امی میری پیاری امی شگفتہ مامی کی باتیں سن کے آئی ہوں کل وہ لوگ واپس جا رہے ہیں۔" زاشا نے خوش ہوتے ہوئے ماں کو بتایا۔
"تو اس میں خوش ہونے والی کونسی بات ہے؟" شانزے بیگم ابھی بھی حیران تھیں۔
"امی خوشی کی بات یہ ہے کہ واپس جانے کا صوفیہ نے کہا ہے اور پتا آج وہ غازی کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بھی نہیں بیٹھی۔ لوہا گرم ہے امی اب میں ضرب لگاؤں گی۔" زاشا نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"زاشا میں تمہیں پھر منع کروں گی باز رہو ان فضول کاموں سے۔" شانزے بیگم نے گویا التجا کی۔
"نہیں امی غازی کو تو اپنا بنا کر ہی دم لوں گی۔" زاشا کی بات پر شانزے بیگمنفی میں سر ہلاتی کمرے سے باہر چلی گئیں پیچھے سے وہ دوبارہ بے ہنگم قہقہے لگانے لگ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ر

ات کے آخری پہر جب ہر کوئی خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا ایک ذی نفس ٹیرس کی ریلنگ سے کمر ٹکائے سر گٹھنوں میں دیے بیٹھی تھی اور براہراست اللہ سے مخاطب تھی۔
"اے میرے اللہ آخر کب میری جان ان بے وجہ کے خوابوں سے چھوٹے گی وہ کونسا دن ہو گا جب میں نیند کی گولیوں کے بغیر بھی آرام سے سو سکوں گی۔ کب یہ عجیب خواب مجھے ڈرانا بند کریں گے۔ یا میرے اللہ مجھے سکون دے اللہ مجھے ذہنی سکون دے یا اللہ مجھے سیدھے راستے پر چلائے رکھ یا اللہ تو غفور اور رحیم ہے میری مدد کر یا اللہ مجھے تجھ سے ہی مدد کی امید ہے۔" وہ ذی نفس بے بسی کبھی آسمان کو دیکھتی تو کبھی سر گٹھنوں پر رکھ دیتی لیکن اس کی زبان پر ایک ہی دعا تھی۔ "اے اللہ مجھے سکون دے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں۔۔Où les histoires vivent. Découvrez maintenant